جشن ریختہ میں اردو رسم الخط غیر موجود - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-19

جشن ریختہ میں اردو رسم الخط غیر موجود

jashn-e-rekhta
پچھلے دنوں دہلی میں ریختہ ڈاٹ کام Rekhta.com کے تحت جشن ریختہ بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ریختہ ڈاٹ کام کے بانی ایک محب اردوسنجیو صراف ہیں۔سنجیو صراف نے اس ویب سائٹ پر کمال کا کام کیا ہے۔انہوں نے سینکڑوں متقدمین اور معاصرشعراء کی ہزاروں نظمیں‘غزلیں اوردوسری ادبی تخلیقات جمع کرڈالی ہیں۔اس ویب سائٹ کی بہت سی خوبیاں ہیں۔یہاں ان کا شمار کرانا مقصود نہیں ہے۔اردو والے ان سے بخوبی واقف ہیں۔اس کے لئے سنجیو صراف اردو والوں کی طرف سے بھاری بھر کم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ویسے بھی آج کل اردو ادب اور اردو صحافت کی خدمت غیر اردو ادارے اور غیرمسلم حضرات انجام دے رہے ہیں۔میں ان کی نیت پر شک نہیں کروں گا۔بہت سے لوگ ان کی اردونوازی کے مختلف اسباب گنواتے ہیں۔لیکن یہ سوچ کر اطمینان ہوجاتا ہے کہ کچھ بھی ہو اردو کی اشاعت تو ہورہی ہے۔سنجیوصراف کے مطابق ریختہ ڈاٹ کام دراصل ان غیر اردو داں افراد کے لئے ہے جن کو اردو پڑھنے اور لکھنے میں دشواری ہوتی ہے لیکن جن کو اردو سے عشق ہے۔لہذا انہوں نے ریختہ ڈاٹ کام پرجو کلام اپ لوڈ کیا ہے وہ بنیادی طورپردیوناگری اور رومن میں ہے۔اردورسم الخط میں بھی ہے لیکن زور انہی دورسم الخط پر ہے جو میں نے اوپر بیان کئے۔
آئیے اب اصل موضوع پر آتے ہیں۔ ایک محترم صحافی اشرف علی بستوی نے بجا طورپرایک سوال اٹھایا۔انہوں نے جشن ریختہ میں شرکت کی اور جلسہ گاہ میں لگے ہوئے’ بیک ڈراپ‘ کی ایک تصویر فیس بک پر ڈالتے ہوئے سوال کیا کہ اردو کے اتنے بڑے پروگرام میں اردو ہی غائب ؟۔دراصل بیک ڈراپ صرف انگریزی زبان میں ہے۔اس پرJashn-e Rekhtaلکھا ہوا ہے۔اس ویب سائٹ کے ایڈیٹوریل ہیڈ مشہوراور مشکل گوشاعرفرحت احساس ہیں۔اشرف علی بستوی نے یہ بھی لکھا کہ میں نے خود سنجیو صراف سے جب اس سلسلہ میں پوچھا کہ صاحب اردو کے جشن میں اردوکیوں نہیں ہے تو وہ خاموشی سے آگے بڑھ گئے۔
میں نے اشرف علی بستوی صاحب سے ایک سوال کیا کہ کیا اس جشن میں آپ کو کہیں دہلی کے مشہور شاعر(پنڈت آنندموہن زتشی)گلزار دہلوی بھی نظر آئے؟انہوں نے جواب میں لکھا کہ ’واقعی گلزار دہلوی تو نظر نہیں آئے‘۔میں نے اس سلسلہ میں اور بھی کئی صحافی دوستوں سے معلومات حاصل کیں۔واقعہ یہ ہے کہ میرے ذہن میں فوراً ایک بات گردش کرنے لگی تھی کہ شاید ریختہ ڈاٹ کام کے ذریعہ ایک طرف جہاں اردو شعراکی خدمت کی جارہی ہے وہیں دوسری طرف اردو کے روایتی رسم الخط کو بھی رفتہ رفتہ ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے۔گلزار دہلوی اردو رسم الخط کی بقا کے زبردست حامی ہیں۔میں نے سوچا کہ اگر وہاں گلزاردہلوی نے شرکت کی ہوگی تو میں انہی سے یہ سوال کروں گا۔اوراگر انہوں نے شرکت نہیں کی ہوگی تو میرے اس خیال کی تائید ہوجائے گی کہ اردو کی اس طورپر خدمت کے بہانے دراصل اردو کو ختم کیا جارہا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ جشن ریختہ میں اردو رسم الخط کی وکالت کرنے والوں کو دعوت نامہ ہی نہیں بھیجا گیاہوگا۔لیکن پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس جشن میں شرکت کی۔میرے قیاس کے مطابق نارنگ صاحب کبھی اس احمقانہ کوشش کی تائیدنہیں کرسکتے کہ اردو کے رسم الخط کو ختم کرکے اردو کو دیوناگری یا رومن میں لکھنا شروع کردیا جائے۔سنجیو صراف سے بہر حال ایک سوال تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ جشن ریختہ میں اگر آپ نے اردو کے درجنوں گراں قدراور عظیم الجثہ ملکی اور غیر ملکی شعراوادباکو بلایاتو بے چاری اردو زبان(رسم الخط)کو بھی ذرا سی جگہ دیدیتے تو کیا بگڑ جاتا؟جو شخص اتنا بڑا پروگرام کر رہا ہوکہ جس کی دھوم تقریباً پوری اردو دنیا میں مچائی گئی ہو‘اردو رسم الخط کو یوں ہی تو فراموش نہیں کرسکتا۔پچھلے دنوں گلزار دہلوی نے ایک پروگرام کے دوران ایک احمقانہ سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اردو کو کوئی ختم نہیں کرسکتا شرط یہ ہے کہ اردووالے اس کے رسم الخط کو زندہ رکھیں۔لیکن آج ہم کیا دیکھ رہے ہیں کہ اردو کے یہ عشاق نہ صرف اردو رسم الخط کا خاتمہ کر رہے ہیں بلکہ اردوکے بعض اخبارات خود اردوزبان کا بھی خاتمہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ملاحظہ کیجئے اردو اخبارات میں استعمال ہونے والے یہ الفاظ: گینگ ریپ‘ریپ کانڈ‘ریوائیو‘ریوائز‘ریور‘ویوز‘مرڈر‘ریسکیو‘ایفرٹ‘ہیلپ‘ڈیبیٹ بوال‘ہڑدنگ‘وغیرہ۔کیا ان الفاظ کا متبادل اردو میں موجود نہیں ہے؟اور کیا اردو اخبارات اور اردو صحافی‘عرصہ دراز سے ان الفاظ کے متبادل استعمال نہیں کرتے رہے ہیں؟ایک اردو روزنامہ کے ایڈیٹر صاحب ’’سرتسلیم خم کرنے کو‘‘سر خم تسلیم کرنا لکھتے ہیں۔بہرحال قارئین سے یہ درخواست ہے کہ اردو کے رسم الخط کو نہ مرنے دیجئے۔اور اردو کے ان امیر ترین اور متمول عاشقوں کے گناہ معاف کردیجئے۔جب خاطرتواضع کی خاطرخود اردو کے اچھے اچھے بھی انہی کے ثنا خواں ہیں تو پھر ہم ہی کیوں اس غم میں خود کو آدھا کرلیں۔ہم جو کرسکتے ہیں وہ ضرور کریں۔دولتمنداردو کے’’ عشاق‘‘کا یہ کھیل نیا نہیں ہے۔ایک طویل عرصہ سے یہی ہورہا ہے کہ بڑے بڑے ادیبوں اور شعراء کو صاحب ثروت لوگ دنیا جہان کی سیر کراتے ہیں اور اردو کے یہ علماء اردو رسم الخط کے خلاف ہونے والی اس بھیانک سازش کاحصہ بن جاتے ہیں۔جوکھلے طورپر اس سازش کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں انہیں خاطر میں ہی نہیں لایا جاتا۔ایسے میں چند ہی اہل ایمان ہوں گے جو چند سکوں کی خاطراپنے موقف کا سودا نہیں کرتے۔
***
موبائل : 9810041211
Editor-in-chief VNI & Media Adviser to President IICC, New Delhi
ایم ودود ساجد

No Urdu script at Jashn-e-Rekhta. Article: M. Wadood Sajid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں