مدرسہ اور نصابِ تعلیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-17

مدرسہ اور نصابِ تعلیم

madrasa-curriculum
تعلیم کو عام کرنے کے لیے ملک میں مدارسِ اسلامیہ کا قیام ایک دینی اور ملّی فریضہ کے طور پر ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے تمام مدارس کا اب بھی یہی دعویٰ ہے۔ چند مدارسِ اسلامیہ کی دینی خدمات ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ آزادئ ہند کے بعد چند بڑے مدارس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا رہا لیکن یہ مدرسے دین کے نام پر روایتی علوم کے لیے مختص ہیں، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چند بڑے مدرسوں کے فارغین عملی دنیا میں قدم رکھتے ہی احساس کمتری کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے سامنے عصری علوم کے دروازے یکسر بند نظر آتے ہیں۔ تاہم آٹے میں نمک کے برابر فارغینِ مدارس اپنی بے بسی اور بے چارگی کو محسوس کرتے ہوئے جب عصری درس گاہوں کا رخ کرتے ہیں تو ان میں چند ہی کو کامیابی میسر آتی ہے۔ بیشتر فارغینِ مدارس مسجد میں ’پناہ‘ ڈھونڈتے ہیں یا ڈیڑھ اینٹ کا مکتب یا مدرسہ (جو اول روز سے ان کی نظر میں جامعہ یا دارالعلوم ہوتا ہے) قائم کرکے دن رات قوم سے چندہ وصول کرتے اور ملت کی مسلکی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ ان مدارس کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے ’سفیر‘ لفظ کو بھی پامال کردیا ہے۔ انہیں یہ بھی ہوش نہیں کہ دن رات چندہ اکٹھا کرنے کا عمل سنتِ رسول اللّٰہ (ﷺ) کے خلاف ہے۔ وہ دن رات اسی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں کہ ’مہمانِ رسولؐ‘ کی کفالت کیسے ہو۔ وہ مدرسے کے پیشے کو اختیار کرکے اپنی زندگی کو آسودہ حال تو کرلیتے ہیں مگر انہیں غریب طلبا کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔
ملک میں مدارس کی صورت حال عجیب و غریب ہے۔ ان کا سارا نصاب اسلامی کے بجائے مسلکی ہے، لہٰذا جتنے مسالک اُتنے نصاب ہائے تعلیم۔ ایسے مدارس کے فارغین معاشرے میں اسلام، قرآن یا سیرت رسول ﷺ کی نمائندگی کرنے کے بجائے اپنے قول و عمل سے اپنے اپنے مسالک کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں، جس نے ہندوستان جیسے ملک میں جو ایک تکثیری معاشرہ ہے، اسلام کی عجیب و غریب تصویر پیش کرتے ہیں۔ مزید ازیں ان نصابوں سے مستفید فارغین، عصری علوم، عصری فہم اور ماحول کے ادراک سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ معاشرے میں حاشیے پر رہنے والا یہ طبقہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ ہمارے ملک میں ایسے سینکڑوں حفاظ مل جائیں گے جو علم سے کورے اور اپنی سماجی زندگی میں غیر ذمہ دار افراد تصور کیے جاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں کہ ان کے قلب میں اللّٰہ کا کلام محفوظ ہے جس کے اہم تقاضے بھی ہیں۔ قرآن کریم کے علوم پر غور و تدبر کا انہیں چھوکر بھی خیال نہیں آتا۔ یہ صورت حال اس درجہ سنگین ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں:
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
ملک میں اہل علم اور دانشوروں کے نزدیک مسلمانوں کی ذہنی، فکری یا معاشی پس ماندگی کا سب سے بڑا سبب تعلیم سے بیزاری تسلیم کیا گیا ہے۔ دوسری طرف اہل مدرسہ کی جانب سے عصری علوم سے بے اعتنائی نے دینی و عصری دونوں اعتبار سے قوم کے افراد کو کہیں کا نہیں رکھا ہے۔ مسٹر اور مولوی کے درمیان ایک خلیج حائل ہوگئی ہے۔ سرسیّد احمد خاں اور علامہ شبلی کے افکار صدا بہ صحرا ثابت ہوئے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ جس مدرسہ میں ایک صدی قبل انگریزی زبان کی تعلیم شروع ہوجانی تھی وہاں اب اسی انگریزی زبان کی تعلیم پر غور کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مِن حیث القوم اب بھی ہم ذہنی و فکری پس ماندگی سے نکلنے کو تیار نہیں ہیں؟ فرسودہ روایت اور مسلک کے خول سے ہم اس طرح چمٹ گئے ہیں کہ خواہشِ نفس کو بھی رضائے الٰہی تصور کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ رضائے الٰہی اس بات میں ہے کہ خالقِ کائنات کی رضا کو تلاش کیا جائے اور حسنِ تدبیر سے اللّٰہ رب العالمین کی رضا کو پورا کیا جائے۔ واضح ہو کہ ملک کے تعلیمی نظام میں یکساں حصہ داری کے بغیر ہم قوم و ملت میں شعوری زندگی جینے کی امنگ بحال نہیں کرسکتے۔ مدارس کے تعیّن معیار (Standardisation of Madaris) کے بغیر ہمارا تعلیمی مشن ہمیشہ ادھورا رہے گا۔ اس سلسلے میں درج ذیل نکات پر توجہ مرکوز کی جائے تو ہم قومی سطح پر بے یقینی اور بے شعوری دونوں صورت حال سے نکل سکتے ہیں:
۱۔ مدارس میں کم سے کم درجہ اول سے درجہ دہم تک ایسے علوم کی تعلیم کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے جو سماج میں کسی بھی دوسرے شہری سے مسابقت کے قابل ہو۔
۲۔ مدرسہ کوئی ہو لیکن متفقہ طور پر تمام مدرسوں کے لیے ایک اسلامی نصاب (Curriculam) بناکر اسے فی الفور نافذ کیا جائے۔
۳۔ نصاب کی تشکیل علوم کی بنیاد پر کی جائے۔
۴۔ نصاب کے مطابق باصلاحیت اساتذہ کا تقرر کیا جائے اور انہیں ماہرین تعلیم کے ذریعے جزوقتی تربیت دی جائے تاکہ قومی سطح پر یکساں اسٹینڈرڈ قائم ہوسکے۔
۵۔ واضح ہو کہ ایک نصاب کے تحت محض تعلیم دینا مقصود نہیں بلکہ طلبا کو اس لائق بنانا ہے کہ عصری تقاضے کے تحت وہ تفوق (excellence) کے درجے پر فائز ہوں۔
۶۔ قومی سطح پر نصابِ تعلیم کا یکساں معیار ملحوظ رکھتے ہوئے طلبا کے امتحانات کی تاریخیں متعین کی جائیں تاکہ طلبا میں تعلیمی مسابقت (competition) کے رجحان کو نشو و نما ملے۔
۷۔ ملک میں مکتب یا مدرسہ کھولنے کا ایک معیار متعین کیا جائے۔ مطلوبہ معیار کی پابندی نہ کرنے والوں کو مکتب یا مدرسہ کھولنے کی اجازت نہ ہو۔ اس کے ساتھ انہیں اپنے مدرسوں میں یکساں نصابِ تعلیم کو نافذ کرنے کے لیے پابند کیا جائے۔
اگر ملک کی سطح پر تعلیم کو ایک ہی نصاب کے تحت مرکزی حیثیت حاصل ہوجائے گی تو امید کی جاتی ہے کہ قومی سطح پر نہ صرف تعلیمی گراف میں اضافہ ہوگا بلکہ زمینی سطح پر ہم ہر شعبہ میں اپنا فریضہ ادا کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ اس نہج پر اگر اخلاص کے ساتھ کام کیا جائے تو ملک میں تعلیمی بیداری کی لہر پیدا ہوسکتی ہے۔
تعلیمی بیداری کی اس لہر سے زندگی کے جملہ شعبے میں مطلوبہ معیاری افراد پیدا ہوسکتے ہیں جو ملک میں فرض شناس شہری کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

***
محمد عارف اقبال
ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی
URDU BOOK REVIEW
1739/3 (Basement), New Kohinoor Hotel, Pataudi House, Darya Ganj, NEW DELHI - 110002 Tel: 011-23266347
موبائل: 09953630788
urdubookreview[@]gmail.com

Madrasa and its curriculum. Article: Mohd Arif Iqbal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں