17/مارچ نئی دہلی پریس نوٹ
مودی حکومت کے پہلے عام بجٹ میں اقلیتوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیاہے ،عام آدمیوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملاہے اور اس میں مسلمانوں کا حصہ توبالکل ہی ندارد ہے اس امر کا اظہار کشن گنج سے ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے آج لوک سبھا میں عام بجٹ پر ابحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ اس بجٹ میں نہ تو غریبوں کی بدحالی دور کرنے کی کوئی حکمت عملی نظر آتی ہے نہ ہی کسانوں اور مزدوروں کی فلاح کیلئے کوئی موثر قدم اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی نوجونواں کو ان کی محرومی سے نجات دلانے کی کوئی تدبیر پیش کی گئی ہے ،انہوں نے زور دے کر کہاکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگاکر اقتدار کی دہلیز تک پہنچنے والی مودی حکومت نے بجٹ میں اقلیتوں کو نظر انداز کرکے اقلیتوں کے تعلق سے اپنی سوچ کا اظہار کردیا ہے ،انہوں نے مزید کہاکہ مجموعی طورپر اس بجٹ کو غریبوں کا نہیں بلکہ کارپوریٹ جگت کا بجٹ کہاجاسکتاہے ،مولانا قاسمی نے مسلمانوں کی تعلیمی واقتصادی پسماندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان کی حالت سدھارنے کیلئے حکومت کی طرف سے جس دل چسپی اور حوصلے کا مظاہر ہ ہونا چاہیے تھا عام بجٹ میں اس کا بڑا فقدان ہے ۔انہوں نے کہاکہ منزل کے نام سے اقلیتوں کیلئے ایک نئی اسکیم شروع کرنے کا اعلان ضرور کیا گیا ہے لیکن اس کیلئے جو رقم بجٹ میں مخصوص کی گئی ہے وہ اونٹ کے منھ میں زیرہ کے برابر ہے ۔نیز یہ کہ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کے لئے کوئی بجٹ ہی جاری نہیں کیا گیا ہے جس سے اندازہ ملتاہے کہ حکومت اقلیتوں کو کم شرح سود پر قرض فراہم کرنے والے اس ادارے کو معطل کردینا چاہتی ہے ۔ممبرپارلیمنٹ مولانا قاسمی نے جنگ آزادی میں اور آزادی کے بعدملک کی تعمیر وترقی میں مسلمانوں کے غیر معمولی کردار اور ان کی بے مثل قربانیوں کا تذکرہ کیا اور اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے آج انہیں ملک کی ترقی میں حصہ داری کے معاملے میں حاشیہ پر دھکیلا جارہاہے ،انہوں نے حکومت کی نیت اور ارادے کے تعلق سے مسلمانوں کے اندیشے کا بھی ذکر کیا اور اقلیتوں کے بجٹ میں اضافہ کرنے کامطالبہ کیا۔اپنے خطاب میں مولانا قاسمی نے کہاکہ ہندوستان صدیوں پرانی تہذیبی اکائی پر قائم ایک فلاحی ریاست کی طر ح کام کرتا رہاہے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کانعرہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں بلکہ یہ ملک کی قدیم روایت بھی ہے ۔انہوں نے کہاکہ سابقہ حکومتوں نے کمزور طبقات کو ترجیحی طور پر سماج کے خاص دھارے سے جوڑ کر ملک کی جمہوری سیاست ،سیکولر روایات اور رواداری کو مضبوطی اور پائیداری عطا کی ہے انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت کو بھی اسی روایت پر قائم رہنا چائیے تھا ۔لوجہاد ، گھر واپسی ،بیٹی بچاؤ اور مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بتانے کی تحریکوں اور اشتعال انگیزبیانوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف ملک کا ماحول بگاڑنے کوششیں ہورہی ہیں اورحکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔دوسری طرف اقلیتوں،بالخصوص مسلمانوں کی ترقی کے لیے فنڈکی فراہمی میں حکومت سخت بے رخی برت رہی ہے،انھوں نے حکومت سے سوال کیاکہ آخرایسا کیوں ہورہاہے؟اورحکومت اس کے ذریعے آخرکیاپیغام دینا چاہتی ہے؟
اپنے پرزور خطاب میں مولانا قاسمی نے متعدداردو اشعار کا بھی استعمال کیا ،انہوں نے آخر میں ارباب حل وعقد کو بتایا کہ ان کا حلقۂ انتخاب کشن گنج غربت وجہالت اور بیماریوں کی زبردست مارجھیل رہا ہے اور خاص طورپر وہاں روزگار اور علاج ومعالجہ کی سہولتوں کا زبردست فقدان ہے انہوں نے ان مسائل کے حل کیلئے کشن گنج میں ایمس کی ایک شاخ قائم کرنے ،ایک میڈیکل کالج کھولنے ،اے ایم یو سینٹر جس کا کشن گنج میں قیام عمل میں آچکاہے اورتعلیم بھی شروع ہوگئی ہے اورتعمیرکاکام بھی شروع ہونے جارہاہے ،اس پروجیکٹ کوبھرپورفنڈ فراہم کرنے اور روز گار کی فراہمی کیلئے صنعتیں لگانے کا بھی مطالبہ کیا۔
Disappointing budget for Muslims, Maulana Asrarul Haq Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں