مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں مباحثے - صحافیوں اور دانشوروں کا اظہار خیال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-03-19

مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں مباحثے - صحافیوں اور دانشوروں کا اظہار خیال

حیدرآباد
یو این آئی
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت کی جانب سے منعقدہ عظیم الشان بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے روز کے تیسرے سیشن میں اردو اور ہندی میڈیا مختلف مفادات مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کے موضوع پر منعقدہ مباحثہ میں قومی اور بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافیوں اور دانشوروں کا بہ حیثیت مجموعی تاثر اور مشترکہ خیال یہ رہا کہ اردو صحافت کو نئے معیارات اور نئی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اردو اور ہندی میں کلچر کا فروغ بھی ضروری ہے ۔ نظامت کے فرائض مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے پی آرا و عاب عبدالواسع نے انجام دئیے ۔ اس مباحثہ میں سرکردہ صھافی و پاکستان کے روزنامہ ڈان کے نامہ نگار جاوید نقوی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یو این آئی اردو سروس کے سربراہ جناب عبدالسلام عاصم نے کہا کہ مذہب کا جارحانہ موقف اختیار کرنا خطرناک ہے ۔ ٹی وی چینلز کے ذریعہ مذہب کی افادیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیکولرازم کو فروغ دینے کے اقدامات کرنے چاہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خبروں کے ساتھ خود کے خیالات کو شامل نہیں کرنے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اردو صحافی اور اردو اخبارات کا پڑھنے والا یہ دونوں الگ الگ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اردو اور ہندی اخبارات کے مطالعہ سے دو طرح کے تاثرت اخذ کئے جاسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اردو اکادمی دہلی اور دیگر ذرائع سے غیر مسلم افراد بھی اردو سیکھ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثرپایاجاتا ہے کہ اردو میڈیا کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات کی عکاسی صحیح طور پر کی جاتی ہے اسی لئے اردو صحافت کی مسلم مسائل پر رپورٹس کا ترجمہ ہندی اور انگریزی میڈیا سے وابستہ صھافی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم اردو اخبارات کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہمٰں یہ لگے گا کہ مسلمان مظلوم ہیں اور جب ہندی اخبارات کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو یہ تاثر ملے گا کہ کسی بھی معاملہ کے ذمہ دار مسلمان ہیں، یہی اردو اور ہندی کے اخبارات کے تعلق سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا معاملات ہیں ۔ سنجے دیویدی (شعبہ جرنلزم ماکھن لال چترویدی یونیورسٹی بھوپال) نے کہا کہ ہندی اور اردو اخبارات کے انتظامیہ میں فرق پایاجاتا ہے ۔ ہندی اخبارات چلانے والوں میں زیادہ تعداد کارپوریٹ میڈیا کی آگئی ہے جب کہ اردو اخبارات کو صرف ایک شخص کی جانب سے چلایاجاتا ہے ۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ گجرات کے بیشتر گجراتی اخبارات ٹرسٹ کی زیر انتظام ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی وحدت کے لئے زیادہ اخبارات کی آواز ہونی ضروری ہے اور لوگوں کو پانی بات رکھنے کا حق ملنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے تجربات کو قبول کرنا ضروری ہے اور نئے طریقہ سے کوئی بھی کام کیاجائے تو اس کو عوام کی منظوری بھی ملے گی۔انہوں نے کہا کہ اردو اور ہندی کا کوئی جھگڑا نہیں ہے ۔ ہندی اخبارات ارد و شاعری پر صفحات نکال رہے ہیں ۔ ہندی اور اردو اخبارات کو مل کر کلچر کو فروغ دینا چاہئے ۔ اور اس کا آپس میں تبادلہ ہونا چاہئے ۔ ملک میں کئی علاقائی زبانیں ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اردو بھی بولی جاتی ہے ۔
اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ موجودہ دور میں اردو کی اہمیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اردو اخبارات اسلام اور اسلامی دنیا سے باہر نہیں نکل پائے ۔ اردو اخبارات کو قومی زبان کی طرح برتاؤ کرنا چاہئے ۔اردو اخبارات دنیا بھر میں پڑھے اور دیکھے جاتے ہیں ۔ اردو اخبارات ہندوستان کو اثر انداز کرتے ہیں ۔ جناب نسیم عارفی ایڈیٹر روزنامہ اعتماد حیدرآباد نے اس مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اردو اخبارات کا المیہ یہ رہا ہے کہ اردو اخبارات یا تو سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہیں یا پھر جوان اخبارات کو نکال رہے ہیں ان کی اپنی علیحدہ پالیسی ہے جس کے مطابق یہ اخبارات کام کرتے ہیں ۔ الکٹرانک میڈیا کی سرکردہ شخصیت اسلم فرشوری نے کہا کہ انہوں نے صحافت کے شعبہ میں ہندی اور اردو کا ٹکراؤنہیں دیکھا۔ حیدرآباد ہندی اور اردو کی مشترکہ تہذیب کا گہوارہ رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اردو سے جوڑ دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسے اردو چینل کی ضرورت ہے جو اردو زبان کا خالص چینل ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اخبارات کی اشاعت علم میں اضافہ کے لئے کی جاتی تھی اور پیسہ کمانا ذیلی مقصد ہوا کرتا تھا مگر آج ٹی وی چینل پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گئے ہیں، اور ٹی آر پی کے لئے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اسلم فرشوری نے کہا کہ حیدرآبادمیں اردو اور ہندی کا خوب صورت میل جول ہے ۔ اس موقع پر شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دئے گئے ۔

MANUU, Int'l Conf. on 'Muslims, Democracy & Media: Challenges & Prospects'

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں