پی ٹی آئی
دہلی کے ایک ذیلی عدالت نے1987ء کے ہاشم پورہ اجتماعی قتل معاملہ کے سبھی 16صوبائی مسلح کانسٹبلز( پی اے سی) کے ملزم جوانوں کو آج بری کردیا جنہوںنے میرٹھ کے ایک دیہات سے42مسلم نوجوانوں کو ایک ٹرک میں بھر کر دوسرے مقام پر منتقل کرتے ہوئے انہیں قتل کردیا تھا ۔ تیس ہزاری کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج سنجے جندل نے تمام ملزمین کو شک کے فائدے کی بنیاد پر بری کردیا۔ جج نے اس مقدمہ کو دہلی اسٹیٹ لیگل سرویسس اتھاریٹی کے حوالہ کردیا ہہے تاکہ حقیقی طور پر نشاندہی کئے گئے متاثرین کی باز آباد کاری کی جاسکے ۔ انہوں نے تمام فریقوں کے آخری دلائل سماعت کرنے کے بعد21جنوری2014کو اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر2002ء میں اس معاملہ کو سماعت کے لئے غازی آباد سے دہلی منتقل کیا گیا تھا ۔ استغاثہ کے مطابق22مئی ۷۸۹۱u کو پی اے سی کے عملہ کے کچھ افراد ہاشم پورہ گائوں گئے اور500افراد کی میٹنگ میں سے50نوجوانوں کو ترک میں بھر کر غازی آباد ضلع کے قصبہ مراد نگر کے باہری علاقہ میں لے گئے اور وہاں انہوں نے انہیں ایک ساتھ گولی مار دی اور ان کی نعشیں نہر میں ڈال دیں۔ چند دنوں بعد یہ نشیں نہر میں تیرتی ہوئی پائی گئیں ۔ اتر پردیش نے1996ء میں غازی آباد کی عدالت میں فرد جرم عائد کی تھی ۔ اس میں19نوجوانوں کو قتل، اقدام قتل ، ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور سازش سے متعلق دفعات کے تحت ملزم بنایا گیا تھا ۔ اس وقت اس معاملہ میں ملزم بنائے گئے16جوان زندہ ہیں ۔ اتر پردیش کی سی پی سی آئی ڈی نے اس معاملہ میں161افراد کو گواہ بنایا تھا۔ مئی2000ء میں19میں سے16ملزمین نے خود سپردگی کردی تھی جنہیں بعد میں ضمانت دے دی گئی جب کہ3ملزمین کی موت ہوچکی تھی ۔ پولیس کے مطابق اس قتل عام میں42افراد کی موت ہوگئی تھی اور5افراد زندہ بچ گئے تھے جنہیں سال2007میں استغاثہ کا گواہ بنایا گیا تھا۔
مسلمانوں کے اس بدنام زمانہ قتل عام کے28سال بعد یہ فیصلہ سامنے آیا، مگر متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا ۔ بعض ماہرین قانون نے خیال ظاہر کیا کہ حکومت اتر پ ردیش اور ریاستی پولیس نے خاطیوں کو بچانے کے لئے دانستہ طور پر اس کیس کی ناقص تحقیقات کی ۔
Hashimpura massacre accused set free
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں