دارالحکومت دہلی کی ایک عدالت نے 21مارچ 2015 کو میرٹھ شہر کے علاقے ہاشم پورہ میں مسلمان نوجوانوں کے قتل کے کیس میں 16 پولیس والوں کو بری کردیا ۔ان پی اے سی اہلکاروں پر 22مئی 1987 میں مذہبی فسادات کے دوران 42 مسلمان نوجوانوں کو اغوا کرکے قتل کرنے کا الزام تھا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ کی جانب سے ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جاسکے۔1987 میں میرٹھ مذہبی فسادات کی زد میں تھا اورپرونشیل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کی 41ویں بٹالین کے ایک دستے نے میرٹھ کے ہاشم پورہ محلے سے مسلمان نوجوانوں کو ان کے گھروں سے باہر نکالا اور ٹرکوں میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔اس کے بعد ان نوجوانوں کی لاشیں میرٹھ سے تقریباً 50 کلومیٹر دور مراد نگر میں گنگ نہر سے ملیں۔اس واقعہ میں زندہ بچ جانے والے ایک نوجوان ذوالفقار ناصر نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ پی اے سی کے اہلکار تقریباً 45 لوگوں کو ٹرک میں بٹھا کر لے گئے تھے۔اس نوجوان نے لوگوں کے سامنے پوری کہانی بیان کی تھی۔ اس وقت اترپردیش کے وزیر اعلی ویربہادر سنگھ تھے مرکز اور اترپردیش میں دونوں کانگریس کی حکومت تھی۔ اس نوجوان نے بتایاکہ ’مرادنگر کے قریب ہمیں ٹرک سے اتارا گیا اور دو لوگوں کو میرے سامنے گولی مار دی گئی۔ میرا نمبر تیسرا تھا۔ لیکن گولی ان ہاتھ میں لگی اور وہ بچ گئے۔ پی اے سی کے اہلکاروں نے انہیں مردہ سمجھ کر نہر میں پھینک دیا۔‘بعد میں ذوالفقار ناصر نے سابق وزیراعظم چندر شیکھر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں اس واقعے کی تمام تفصیلات بتائی تھیں۔ اترپردیش حکومت کا رویہ اس کیس کے تئیں ہمیشہ کاہلانہ رہا اور اس کی پوری کوشش پی اے سی کو بچانے تک محدود رہی۔اس نے کبھی بھی اس کیس کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حکومت کے لاپروائی اور تساہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1994 اور 2000 کے درمیان ایک ملزم کے خلاف 23 مرتبہ وارنٹ جاری کیے گئے لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ جب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی جانب سے دباؤ زیادہ بڑھا تو وہ عدالت میں پیش ہوا لیکن انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔پلاٹون کمانڈر سریندر پال سنگھ کو بھی ملزم بنایا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ فائرنگ انہی کے حکم پر کی گئی تھی۔ لیکن مقدمے کی سماعت کے دوران ان کا انتقال ہوگیا۔اس کیس کی سماعت اگرچہ غازی آباد میں شروع ہوئی تھی لیکن انصاف کے تقاضے کے تحت بعد میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر اسے دہلی منتقل کردیا گیا تھا لیکن انصاف کاتقاضہ پورا نہیں ہوا۔ اس کیس میں پی اے سی کے 19 اہلکاروں کو ملزم بنایا گیا تھا اور انہیں قتل کے الزام کا سامنا تھا۔ لیکن تین ملزمان کا مقدمے کی سماعت کے دوران ہی انتقال ہوگیا تھا۔دہلی کی تیس ہزار عدالت نے عدالت نے 22 جنوری 2015کو جرح مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور جب فیصلہ سنایا تو باقی 16ملزمان کو عدالت نے بری کردیا۔ملائم سنگھ یادو نے میرٹھ کے ملیانہ اور ہاشم پورہ محلے کے تقرییاً 50 مسلمانوں کا قتل کرنے والے نیم فوجی فورس پی اے سی کے اہل کاروں کو نہ صرف یہ کہ بحال کیا بلکہ ان میں سے کئی کو ترقی بھی دی۔ ملائم کی حکومت قصور وار اہل کاروں کے خلاف مقدمے چلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔ یہ مقدمہ کئی دہائی سے سماعت کے بغیر پڑا ہوا رہا۔ ملک میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ چونکہ یہ فسادات یا تو انتظامی نااہلی یا پھر حکومت کی پشت پناہی کے سبب ہوتے ہیں اس لیے فسادیوں کے خلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد 1992 ۔93 میں ملک کے کئی شہروں میں فسادات ہوئے تھے۔ سب سے بڑا فساد ممبئی میں ہوا جس میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان مارے گئے تھے۔سری کرشنا کمیشن نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اہم قصورواروں کی شناخت کی تھی لیکن ایک ہزار سے زیادہ انسانوں کے قتل کے لیے ایک بھی شخص کو سزا نہ دی جا سکی۔لالو یادو 1989 کے بھاگلپورکے فسادات کے بعد اقتدار میں آئے تھے لیکن انہوں نے 15 برس کے اپنے دورِ اقتدار میں متاثرین کے لیے کچھ نہ کیا۔ نتیش کی حکومت بننے کے بعد مقدمہ چلا اور کئی افراد کو عمر قید کی سزا ہوئی اور متاثرین کو معاوضہ ملا۔
ایک رپورٹ کے مطابق آزادی کے بعد اب تک چالیس ہزار قریب فسادات ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام فسادات میں ہلاک افراد میں تین چوتھائی مسلمان ہوتے ہیں، تباہ ہونے والی جائداد میں بھی تقریبا 75 فیصد مسلمانوں کی ہوتی ہے۔ یہی نہیں، فسادات کے لیے گرفتار کیے جانے والے لوگوں میں بھی مسلمانوں کی ہی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ ناقابل یقین حد تک زیادہ۔ 1960 کے بعد کا سب سے بڑا فساد احمد آباد میں ہوا. ریاستی حکومت نے جسٹس جگموہن ریڈی کے چیک کمیشن کو احمد آباد کے فسادات کے بارے میں جو اعداد و شمار دئے تھے ان کے مطابق اس فساد میں 6742 مکان. دکان جل گئیں۔ان میں صرف 671 ہندوؤں کی تھیں باقی 6071 مسلمانوں کی۔ تباہ ہونے والے کل اثاثے کی قیمت 42324068 روپے تھی، جس میں ہندو اثاثہ 7585845 روپے کی تھی تو مسلم اثاثہ 34738224 روپے کی تھی۔ 512 مردوں میں 24 ہندو تھے تو 413 مسلمان۔باقی 75 کی شناخت نہیں ہو سکی تھی ۔ اس کے بعد کا سب سے بڑا فساد 1970 میں بھیونڈی میں ہوا۔ اس میں 78 افراد ہلاک ہوئے تھے 17 ہندو تھے تو 59 مسلمان، باقی دو کی شناخت نہیں ہو سکی۔بھیونڈی فساد کی تحقیقات کے لئے مقرر جسٹس ڈی وی میڈن جانچ کمیشن کے سامنے جو بیان دیے گئے، ان سے یہ ظاہر ہوا کہ اس فساد میں 6 مسلمان عورتوں کی عصمت دری ہوئی تھی جبکہ ایک بھی ہندو عورت عصمت دری کی شکار نہیں ہوئی تھی۔ بھیونڈی کے فسادات کے نتیجے ہی جلگاؤں کے فساد میں 43 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں ایک ہندو تھا، باقی کے 42 مسلمان. تباہ ہوئی کل اثاثہ میں 3390977 روپے قیمت کی املاک مسلمانوں کی تھی تو صرف 83725 روپے قیمت کی ہندوؤں کی تھی۔ 1967 میں رانچی۔کٹیا اور نوشیرا میں ہوئے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 184 تھی۔ جن 164 مسلمان تھے تو 19 ہندو، ایک کی شناخت نہیں ہو سکی۔
جن فسادات کا اوپر ذکر آیا ہے، وہ 1960 کے بعد کے ہندوستان کے بھرمیں فسادات ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جمشید پور، علی گڑھ، وارانسی اور ممبئی جیسے شہروں میں بھی فساد ہوئے ہیں۔ فسادات میں بھی کم و بیش اوپر والی حالت ہی رہی۔ شاید ہی کوئی ایسا فساد ہوا ہوگا، جس میں مرنے والوں میں 70 فیصد سے زیادہ مسلمان نہ رہے ہوں۔ تباہ ہونے والے اثاثے میں بھی تقریبا یہی تناسب رہا۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ تقریبا ہر فسادات میں پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں میں بھی مسلمانوں کی ہی تعداد زیادہ رہتی ہے۔ مسلمانوں کے ہی زیادہ گھروں کی تلاشیا بھی ہوتیں ہیں۔ پولیس بھی اکثریت کمیونٹی کی طرح یہ سوچتی ہے کہ فسادات کے لیے ذمہ دار مسلمان ہیں، لہذا وہ یہ مانتی ہے کہ فسادات پر تبھی کنٹرول پایا جا سکتا ہے جب مسلمانوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔لیکن اس کے باوجود اکثریت کمیونٹی کا یہ تاثر، کہ فسادات میں ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ہندو ہوتے ہیں، کھائی اتنی گہری ہے کہ تمام سرکاری اعداد و شمار کے باوجود اوسط ہندو اس بات کو تسلیم نہیں کہ اصل میں فسادات میں ہندو زیادہ جارحانہ ہوتے ہیں۔ یہ نہ ماننے کی بات کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ اس کے پیچھے بچپن کی مفروضے کام کرتیں ہیں۔ بچپن سے ہر ہندو کے گھر میں بچے کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ مسلمان ظالم ہوتے ہیں اور وہ کسی کی بھی جان لینے میں نہیں ہچکچاتے۔اس کے برعکس ہندو تو بڑے نرم دل کا ہوتا ہے اور اس کے لیے چیونٹی کی بھی جان لینا مشکل ہوتا ہے۔ اکثر آپ کو یہ کہتے ہوئے کوئی ہندو ملے گا کہ ارے صاحب! ہندو کے گھر میں تو سبزی کاٹنے کی چھوری کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں ملے گا۔ یہ ہندو خاندان کا یہ خیال ہوتا ہے اور کہہ رہا ہوتا ہے کہ عام طور پر مسلمان اپنے گھروں میں ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اوسط ہندو کو فسادات میں شامل ہونے والوں کے سرکاری اعدادو شمار بھی ناقابل یقین لگتے ہیں، جبکہ کوئی بھی حکومت اعداد و شمار کو اس انداز میں نہیں رکھنا چاہے گی، جس سے یہ تاثر بنے کہ ملک میں اقلیتی غیر محفوظ ہے۔
ہاشم پورہ کے معاملے میں اوپر سے نیچے لاپروائی نظر آتی ہے ۔ حکومت کا منشاکبھی ملزموں کو سزا دینے کا رہا ہی نہیں۔اس وقت کے غازی آباد کے ایس پی وبھوتی نارائن سنگھ نے سی ڈی آئی کی تفتیش کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اگر ثبوت نہیں تھے اور پی اے سی والے بے قصور تھے یہ مقدمہ اتنا لمبا کیوں چلایاگیا۔ پولیس ، وکیل اور عدالت کو پہلی نظر میں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں کتنا دم ہے۔ پھر 28سال طویل عرصہ تک کھینچے کا مطلب کیا ہے۔ کیا حالات، قرائن اور پی اے سی کا ریکارڈ چیخ چیخ کر نہیں کہہ رہا تھا کہ مجرم کون ہے۔ جس ٹرک پر لے جایا گیا تھا اس کا نمبر نہیں تھا۔ گولیاں جو چلائی گئی تھیں ثبوت نہیں تھے۔آخر اس کے لئے کون ذمہ دار ہے اس کا تعین لازمی ہے۔ داؤد ابراہیم کو ڈھونڈنے کے لئے زمین و آسمان ایک کردینے والی ایجنسی کو آخر ثبوت کیوں نہیں ملی۔ کہا جاتا ہے کہ اگر تاخیر سے حق میں بھی فیصلہ آئے تو اسے انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن یہاں معاملہ تو بالکل ہی الٹا ہے۔ 42مسلم نوجوانوں کے قاتل پی اے سی اہلکاروں کوصاف بری کردیا گیا ہے۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ عدالت میں شواہد پر غور و خوض نہیں کیا جب کہ دفاعی وکیل کے مطابق ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے گئے۔ ٹھوس ثبوت پیش کرنا انتظامیہ اور پولیس کا کام تھا کیوں کہ تفتیش کا کام پولیس کرتی ہے نہ کہ وکیل ۔ وکیل کو ثبوت فراہم کئے جاتے ہیں ان کی بنیاد پر وہ مقدمہ کو پیش کرتا ہے۔ اگر سارے ثبوت پیش کردئے بھی جائیں تو ضروری نہیں کہ عدالت حق میں ہی فیصلہ کردے۔ جیسا کہ مالیگاؤں، اکشر دھام اور درجنوں کیس میں ہوا ہے۔ ذیلی عدالت نے ملزم کو پھانسی کی سزا دے دی لیکن عدالت عالیہ یا سپریم کورٹ میں جیسے ہی مقدمہ پہنچتا ہے وہ بری ہوجاتا ہے۔ ملک کے بہت سے ہمارے مسلم بھائی بھی کہتے ہیں عدالت سے مسلم نوجوان بری بھی ہورے ہیں اس لئے عدالت پرانگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ۔لیکن غور کرنے کا پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی نوجوان دس سے چودہ سال کے بعد عدالت سے بری ہوتا ہے تو وہ بری کہاں ہوا۔ وہ تو عمر کی قیدکی سزا بھگت چکا ہوتا ہے اور انتظامیہ کا مقصد حل ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ چاہتی ہے کہ مسلم نوجوان کو عمر قید ہو اور دس بار ہ سال جیل میں گزارے، ان کی زندگی تباہ ہو اور ان کے خاندان برباد ہوجائیں۔ بری تو ہوجاتا ہے لیکن اس وقت تک ان کی شہرت، عزت اور دولت مٹ چکی ہوتی ہے ، ان کے دامن اور خاندان پر بدنامی کا ایسا داغ لگ چکا ہوتاہے کہ وہ کسی لائق نہیں رہتا ۔ ان کے خاندان کو نہ نوکری ملتی ہے اور نہ ہی کوئی سہارا ملتا ہے۔ اس لئے اسے بھی ناانصافی کے زمرے میں رکھا جانا چاہئے۔
***
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni[@]gmail.com
موبائل : 9810372335
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔ 10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
عابد انور |
Hashimpura Massacre, injustice to muslims. Article: Abid Anwar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں