مصنف و ناشر: ڈاکٹر معصوم شرقی
صفحات: 704، قیمت: 400 روپے
ناشر: ڈاکٹر معصوم شرقی، آر ایل بائی لین ، 24 شمالی پرگنہ، کولکاتا، معربی بنگال
تبصرہ نگار: سہیل انجم
نظیر اکبرآبادی بے نظیر شاعر ہیں۔ ان کا اپنا رنگ ہے، اپنا انداز ہے۔ البتہ اشک امرتسری کو ”نظیر ثانی“ کہا جاتا ہے۔ لیکن جو شہرت نظیر کو ملی وہ اشک کو نہیں مل سکی۔ اشک کو ادبی حلقہ تو جانتا ہے لیکن عوامی حلقے نہیںجانتے۔ لیکن کلکتہ کے ڈاکٹر معصوم شرقی نے ان پر ریسرچ کر کے اشک شناسی کا ایک نیا دریچہ وا کر دیا ہے۔ اس مقالے پر ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی ہے۔ وہ عہد حاضر کے ایک نمایاں ادیب ہیں۔ لکھنے پڑھنے سے ان کا رشتہ ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ جب ۹۰۰۲ میں ان کا مجموعہ غزلیات ”عکس تاب“ منظر عام پر آیا تو اس نے ان کی شہرت میں اضافہ کر دیا۔ اب اشک امرتسری پر شائع ہونے والی ان کی مذکورہ کتاب نے ان کی شہرت میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ اس کتاب کو اہل علم کے حلقوں میں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔
کسی ایسے موضوع پر یا کسی ایسی شخصیت پر تحقیق کرنے میں جس کے بارے میں ڈھیر سارا مواد پہلے سے موجود ہو، کسی مشقت سے گزرنا نہیں پڑتا۔ لیکن کسی ایسی شخصیت کو اپنی تحقیق کا موضوع بنانا جس کی ذات اور خدمات روایتی شہرت و مقبولیت سے محروم ہوں اور جس کے بارے میں کتابی مواد بہت کم ہو، خاصا مشکل کام ہے۔ در اصل یہی اصل تحقیق ہے۔ اگر کوئی چیز پہلے سے موجود ہو اور اس میں کسی نے کچھ اضافہ کر دیا یا کوئی نیا گوشہ سامنے لا دیا تو یہ کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن سرے سے کسی چیز کے نہ ہونے کے باوجود ریسرچ سے گزرنا اور پھر نئی بات نئے انداز میں سامنے لانا وہ تحقیق ہے۔ معصوم شرقی نے یہی کام کیا ہے۔ انھوں نے اشک امرتسری کا تعارف پیش کرنے اور ان کی خدمات پر تنقیدی نظر ڈالنے کے ساتھ ان کے کلام کی جو تدوین کی ہے وہ داد و تحسین کا مستحق ہے۔ اس کے لیے انھیں جن مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑا اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ اس کتاب کے تین ابواب ہیں۔ پہلا: تعارف و تنقید، دوسرا: تدوین کلام اور تیسرا: کلیات اشک۔ اس سے قبل ڈاکٹر محمد حسن کا مضمون جاں گداز لمحوں کا شاعر، ڈاکٹر کرامت علی کرامت کا مضمون خیر مقدم اور مصنف کا پیش گفتار شامل کتاب ہے۔ محمد حسن نے لکھا ہے کہ ”ہر بڑے شاعر کے مقلد اور نقال پیدا ہوئے۔ لے دے کے ایک نظیر اکبرآبادی ہیں جن کی نظیر زمانہ پیدا نہ کر سکا اور وہ آج تک بے نظیر ہیں۔ ہاں کچھ رنگ نظیر کا اڑایا تو اشک امرتسری نے کہ انھوں نے زندگی بھی نظیر سے کہیں زیادہ سختیوں اور دشواریوں میں بسر کی او ران جاں گداز لمحوں میں بھی شعر گوئی سے منہ نہیں موڑا....مدتوں بعد اشک پر توجہ دی گئی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر معصوم شرقی نے اس طویل خاموشی کو زبان دی اور کم از کم اشک شناسی کی ابتدا تو کی۔ انھوں نے اپنے مقالے کے ساتھ ان کے کلام کا بھی بڑا حصہ شامل کر لیا ہے۔ اس سے اشک کی شاعری کے مختلف رنگوں کو سمجھنے میں مزید اعانت ہوگی“۔ اسی طرح کرامت علی کرامت نے نظیر اور اشک کے کلام کا موازنہ کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں کے عہد کا بھی موازنہ کیا ہے اور دونوں میں فرق کو سمجھنے کی بھی کوشش کی ہے۔ جبکہ معصوم شرقی نے پیش گفتار میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اشک سے اپنی دلچسپی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
نظیر اور اشک میں بہت مشابہت ہے تو بہت سے تضادات بھی ہیں۔ دونوں کو الگ الگ زمانے ملے۔ نظیر کی پیدائش ۹۳۷۱ میں اور موت ۰۳۸۱ میں ہوئی جبکہ اشک کی پیدائش ۰۰۹۱ میں امرتسر میں اور موت ۶۵۹۱ میں کلکتہ میں ہوئی۔ لیکن دونوں کے عہد کے نقادوں نے دونوں کو نظر انداز کیا۔ نظیر اپنا کلام لکھ لکھ کر دوسروں کو بھی دے دیتے تھے جبکہ اشک کا کلام مشاعروں میں دھوم مچاتا تھا۔ نظیر کا کلام دوسروں کے پاس تحریری طور پر محفوظ رہا تو اشک کا زبانی و تحریری دونوں طریقے سے محفوظ رہا۔ ہاں اشک کی بیاض تقسیم ہند کے موقع پر نذر آتش ہو گئی۔ اشک مشاعروں کے تو مقبول شاعر تھے ہی لیکن وہ رسائل میں چھپنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ البتہ اواخر عمر میں چند برسوں کے دوران رسائل میں ان کا کلام اس تواتر کے ساتھ چھپا کہ شائد ایسی بات کسی دوسرے شاعر کے نصیب میں نہیں آئی ہوگی۔ اشک کو لوگ اس قدر پسند کرتے تھے کہ مشاعروں میں بڑے بڑے شعرا کے بعد آخر میں ان کو پڑھوایا جاتا تھا۔ وہ ترنم سے پڑھتے اور محفل پر چھا جاتے۔
وہ ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ اسی لیے مصنف نے ایک مضمون ”ترقی پسند ادبی تحریک اور اشک“ کے عنوان سے لکھا ہے۔ ان کے ترقی پسند نظریات ان کی شاعری میں بھی نمایاں تھے۔ معصوم شرقی نے نظم نگار کی حیثیت سے، غزل گو کی حیثیت سے اور قطعہ نگار کی حیثیت سے بھی ان کے کلام کا جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے نظیر اور اشک کی نظم گوئی کے امتیازی پہلو اور ہمعصر شاعرو ںکے درمیان اشک کا مقام بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ انھوں نے بڑی خوبی کے ساتھ یہ کوشش اختتام کو پہنچائی ہے۔ انھوں نے کلام اشک کے خطی نسخے پر بھی اختصار سے گفتگو کی ہے۔ آخر میں اشک کی کلیات شامل کر دی گئی ہے۔ کسی پی ایچ ڈی کے مقالے میں کلیات کا شامل کیا جانا کیسا ہے یہ تو ادب کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ بات مجھے اس لیے اچھی لگی کہ اسی بہانے اشک امرتسری کے کلام کے مطالعے کا موقع مل گیا۔ بہتر ہوگا کہ ان کا کلام اس کتاب میں تو شامل رہے ہی، الگ سے بھی اسے شائع کر دیا جائے۔
کلام اشک کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ انھیں بجا طور پر نظیر ثانی کہتے ہیں۔ لیکن ایک امتیازی پہلو بھی ہے وہ یہ کہ انھوں نے نظیر کے رنگ میں نظمیں تو کہی ہیں لیکن ان کا اپنا رنگ الگ نمایاں ہے۔ خاص طور پر یہ بات نوٹ کی جا سکتی ہے کہ اشک کے کلام میں الفاظ کا انتخاب اور اس کی شعریت بالخصوص متاثر کرتی ہے۔ نظیر کے کلام سے حظ اٹھایا جا سکتا ہے تو اشک کے کلام سے بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور زیادہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ بنجارہ نامہ، آدمی نامہ اور روٹیاں وغیرہ نظیر کی مقبول عام نظمیں ہیں۔ لیکن انہی موضوعات پر لکھی ہوئی اشک کی نظمیں الگ تاثر چھوڑتی ہیں۔ مثال کے طور پر بنجارہ نامہ کے پہلے بند میں شعریت اور حسن کلام ملاحظہ فرمائیں:
کیا دشت و دمن کیا سرو سمن کیا صبح چمن کیا فوارہ
کیا شیشہ و مے کیا نغمہ و نے کیا رقص بتانِ مہ پارہ
کیا بنت عنب کیا ساز طرب کیا ڈھولک نوبت نقارہ
کیا وائر لیس، کیا ریڈیو سیٹ، کیا پیانو، بنجو، اکتارہ
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
اسی طرح نظیر نے ”تب دیکھ بہاریں ہولی کی“ لکھا ہے اور اشک نے جو کہ کلکتہ میں رہتے تھے ”تب دیکھ بہارِ کلکتہ“ لکھا ہے۔ نظم ”آدمی“ کا ایک بند ملاحظہ کریں:
گردوں پہ اڑ رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
گردش میں مبتلا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
رکشے پہ جو چڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
جو اس کو کھینچتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ہے آدمی جو غرق جواہر ہے سر بسر
ہے آدمی جو ٹھوکریں کھاتا ہے در بدر
اشک کے ترقی پسند نظریات کا ایک نمونہ نظم ”روٹیاں“ کے ایک بند سے ملاحظہ کریں:
رکشا کوئی چلاتا ہے روٹی کے واسطے
جوتے کوئی چراتا ہے روٹی کے واسطے
گنگا کوئی نہاتا ہے روٹی کے واسطے
مسجد میں گڑگڑاتا ہے روٹی کے واسطے
روٹی مگر ہے پنجہ سرمایہ دار میں
اور سب ہیں کنٹرول کے اندر قطار میں
ایک دوسرا بند دیکھیں:
جب امن کا جھنڈا لے کے اٹھیں گے فٹ پاتھوں کے شہزادے
جب قیصر و کسری سے اپنا حق چھینیں گے بھوکے ننگے
جب جہد و عمل سے بند کیے جائیں کے جدل کے دروازے
کھا جائے گا زنگ مشینوں کو ہو جائے گا لشکر ناکارہ
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
کلام اشک سے بہت سی ایسی مثالیں دی جا سکتی ہیں جن سے ان کے نظریات کی تائید تو ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی ان کی درد مندی اور ان کی انسان دوستی کا بھی پتہ چلتا ہے اور سماج سے نابرابری کے خاتمے کی خواہش کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اس کلیات میں جو دوسری نظمیں ہیں ان میں روٹیاں، زر علیہ السلام، کوئل کی کوک، فقیر کی صدا، ہولی کا گیت، بلبل اردو کی فریاد، ریس، دعوت نظارہ، پیغام عید، اندھیروں کے نام، اردو اور مسلمان اور جوانی جیسی بے شمار نظمیں ہیں جو دامن دل کو کھینچتی ہیں۔ اس کے علاوہ غزلیں بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر معصوم شرقی نے اشک شناسی کا ایک نیا دروازہ کھول کر ادب کی جو خدمت کی ہے اس کی داد نہ دینا بے ادبی ہوگی۔ البتہ کتاب کی قیمت ذرا زیادہ ہے۔ لیکن اس کی طباعت بہت خوبصورت ہے۔ معصوم شرقی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
- ریختہ پر اس کتاب (نظیر ثانی اشک امرتسری) کا آن لائن مطالعہ
***
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
سہیل انجم |
Book Review: Nazeer Saani Ashk Amritsari - Taaruf Tanqeed Aur Tadveen-e-Kalam. Reviewer: Suhail Anjum
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں