اترپردیش کے سیاسی افق پر مجلس کے ابھرنے کا امکان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-02

اترپردیش کے سیاسی افق پر مجلس کے ابھرنے کا امکان

AIMIM
نئی دہلی
یو این آئی
اتر پردیش میں حال ہی میں قانون ساز کونسل کے انتخابات کے بعد ریاست میں ایک نئے سیاسی اتحاد کے اشارے مل رہے ہیں جو ریاست میں2017میں منعقد شدنی اسمبلی انتخابات سے قبل تشکیل پاسکتا ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست کے سیاسی افق پر حیدرآباد سے کام کرنے والی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے ابھرنے کے امکانات پر میڈیا میں ابھی سے قیاس آرائیاں شروع ہورہی ہیں ۔ یہ کہاجارہا ہے کہ بہوجن سماج پارٹی اور راشٹر یہ لوک دل کے درمیان مفاہمت ہوگی اور بعد میں کانگریس اور اے آئی ایم آئی ایم بھی اس اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں۔ کانگریس نے کونسل انتخابات میں بی ایس پی امیدواروں کی تائید کی تھی جس کے نتیجہ میں بی جے پی امیدواروں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسی طرح آر ایل ڈی نے بھی بی ایس پی کی تائید کرتے ہوئے مستقبل میں اتحاد کا اشارہ دیا ہے تاہم اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے امکانات کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کی اولین ترجیح ریاست کے عوام کو اس بات پر مطمین کرنا ہے کہ مجلس کسی ایک طبقہ کی نہیں بلکہ تمام غریبوں اور کچلے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرتی ہے۔ رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اعظم گڑھ کے موضع سنجر پور کی ترقی کا ذمہ لیتے ہوئے اتر پردیش میں اپنی پارٹی کی دلچسپی کا واضح طور پر اظہار کیا ہے ۔ گزشتہ3برسوں سے مجلس ریاست میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں جٹی ہوئی ہے ۔ بالخصوص اعظم گڑھ میں جلسہ عا م منعقد کرنے بیرسٹر اویسی کی کوششوں کو گزشتہ3برسوں میں مقامی نظم و نسق کی جانب سے کئی مرتبہ ناکام بنا دیا گیا۔ ضلع نظم و نسق نے امن و قانون کو خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے مجلس کو جلسہ منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔ اس بارے میں یو این آئی سے بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر اسد الدین اویسی نے کہا کہ’’ اتر پردیش کی حکومت میری پارٹی کو اعظم گڑھ میں جلسے منعقد کرنے سے کب تک رو سکتی ہے ، ہمارا ملک جمہوری ہے یہاں کوئی بادشاہت نہیں ہے ۔‘‘ اتر پردیش کے80لوک سبھا حلقوں میں35اور403اسمبلی حلقوں کے منجملہ100سے زائد حلقوں میں مسلم آبادی کا تناسب قابل لحاظ ہے ۔ اس پس منظر میں بیرسٹر اسد اویسی کی جانب سے ملائم سنگھ کے لوک سبھا حلقہ اعظم گڑھ کے سنجر پور موضع کو ترقی دینے کے عزم کو مسلم رائے دہندوں کو راغب کرنے کی کوشش سمجھاجارہا ہے ۔ اسی دوران کانگریس کی اتر پردیش یونٹ نے بھی2017کے انتخابات کے لئے اتحاد کی بات قبل از وقت قرار دیا ہے ۔ پارٹی کے ایک لیڈر نے کہا کہ اتحاد کا اختیار پارٹی ہائی کمان کو ہے اور یوپی کانگریس کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں سابق مرکزی وزیر اجیت سنگھ کی قیادت والی راشٹریہ لوک دل اور مایاوتی کی قیادت میں بی ایس پی دونوں ہی ایک بھی نشست حاصل کرنے سے قاصر رہے جب کہ سماج وادی پارٹی نے گزشتہ سال ستمبر میں منعقد شدنی ضمنی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی سے 10نشستیں چھینتے ہوئے ریاست میں اپنی مضبوط پکڑ ہونے کا اشارہ دیا ہے لیکن آئندہ اسمبلی انتخابات کے لئے کوئی پیش قیاسی نہیں کی جاسکتی۔ اجیت سنگھ کے فرزند جینت چودھری نے آج کہا کہ مایاوتی نے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں ہماری پارٹی سے تائید کی خواہش کی تھی جس پر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمارے ہمارے ارکان اسمبلی بی ایس پی امیدواروں کو ووٹ دیں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مستقبل میں بھی اتحاد کا یہ ایک اشارہ ہے۔ بی ایس پی صدر مایاوتی نے بھی کہا کہ آر ایل ڈی کے ساتھ سمجھوتہ صرف قانون ساز کونسل کے انتخابات کی حد تک محدود تھا ۔ اسے مستقبل کے تناظر میں نہ دیکھاجائے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس سمجھوتہ کو اسمبلی انتخابات میں توسیع دینے کی کوئی تجویز نہیں ہے ۔

The possibility of the emergence of AIMIM in Uttar Pradesh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں