فن خطاطی میں نئے طرز تحریر - خطِ رعنا - کے خالق ابن کلیم سے ایک مکالمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-08

فن خطاطی میں نئے طرز تحریر - خطِ رعنا - کے خالق ابن کلیم سے ایک مکالمہ

calligraphy by Ibn-e-Kaleem
فنِ خطاطی ایک ایسا تاریخی فن ہے جو اسلام کی روح سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اس فن کے ذریعے زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک مسلمان فن کاروں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ قابلِ قدر اور قابلِ ذکر ہیں۔ ۔ آج ہم ایک ایسے ہی ہمہ جہت تخلیق کار کا ذکر کر رہے ہیں جنہیں اللہ ربّ العزۃ نے بڑی نعمتوں سے نواز ہے۔ ہماری مراد فنِ خطاطی میں نئے طرزِ تحریر "خطِ رعنا" کے خالق "ابنِ کلیم" سے ہے۔ خطِ رعنا فنِ خطاطی میں ایک نیا طرزِ تحریر ہے۔ انہوں نے یہ خط روایتی خطاطی کے ساتھ مروجہ و مقبول اصناف اور خطوں کے امتزاج سے ایجاد کیا۔ دنیا میں اس نئے خط کی ایجاد کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ اس کی پذیرائی بھی کی گئی۔ دبستان فروغِ خطاطی کے تحت ابنِ کلیم نے ہزاروں طالبانِ فن کو تربیت دی اور اس معتبر فن کی ترویج اشاعت اور فروغ کے لئے بے لوث اور انتھک جد و جہد کی۔ ابنِ کلیم ادب و صحافت میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1970ء سے جاری کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شعراء کرام نے ابنِ کلیم کے فن کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ایک نظم محمد مختارؔ علی نے بھی کچھ اس طرح رقم کی ہے۔
بڑھا ہے جن کے ہنر سے وقارِ خطاطی
انہیں قلم کے قرینے سلام کرتے ہیں
متاعِ لوح و قلم ہیں وہ اہلِ فن جن سے
حروف ، دائرے ، نقطے کلام کرتے ہیں
ہے جن کی زیست برائے فروغِ فن مختارؔ
ہم ان کے ذوقِ لطافت کو عام کرتے ہیں
ہے جن کی لَو سے منور دیارِ خطاطی
ہم اس کلیمِ قلم کو سلام کرتے ہیں

سوال:
آپ مشہور ابنِ کلیم سے ہیں اور اصل نام آپ کا حافظ محمد اقبال ہے قارئین جاننا چاہیں گے کہ آپ کس قسم کی خطاطی کرتے ہیں؟
ابنِ کلیم:
فنِ خطاطی کی جو مروّجہ معروف روایتی اصناف ہیں وہ خطِ نستعلیق، خطِ کوفی، خطِ ثلث، خطِ نسخ، خطِ رقعہ اور خطِ دیوانی ہیں میں نے ان تمام اصناف میں کام کیا ہے اور جب میں نے بڑی باریک بینی سے دیکھا تو پھر میں نے محسوس کیا کہ جب تحریر کا یکسر انداز تبدیل کر کے اس کے قواعد مرتب کردیئے جائیں تو ایک نیا طرزِ تحریر معرضِ وجود میں آجاتا ہے۔ میں نے بھی اسی کلیہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے نئے ترتیب دیئے ہوئے اندازِ تحریر کے قاعدے، ضابطے مرتب کردیئے تو ایک نیا خط ایجاد ہوا پھر اس کا نام "خطِ رعنا" تجویز ہو اجو کہ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری نے تجویز کیا۔

سوال:
خطِ رعنا جس کے آپ موجد ہیں اس میں کیا نیا پن ہے، یا کیا انفرادیت ہے؟
ابنِ کلیم:
میں نے جو "خطِ رعنا" ایجاد کیا ہے اس میں پہلے سے موجود مروّجہ پانچ چھ خط جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے ان سب کا اِمتزاج ہے، جمالیاتی جھلک ہے۔ پھر اس خطِ رعنا میں ایک یہ خصوصیت بھی پیدا کی گئی ہے کہ اس کے دائرے والے حروف کو ایک تکونا انداز دیا ہے اس کے علاوہ یہ انفرادیت پیدا کی ہے کہ الف پہلے سوائے خطِ دیوانی کے سیدھے لکھے جاتے تھے مگر میں نے الف لکھنے میں ایک لہراؤ سا پیدا کیا ہے جو کہ بہتے جھرنوں کا سا سماں پیدا کرتا ہے۔ خطِ رعنا کی تحریر میں ایک بہاؤ ہے، موسیقیت کا رِدم ہے۔ ذوقِ نظر کا سامان ہے۔ حسنِ جمال کا اِظہار ہے۔

سوال:
یہ بتائیے کہ آپ نے جو خطِ رعنا ایجاد کیا ہے اس کے بارے میں اہلِ فن کی کیا رائے ہے؟
ابنِ کلیم:
اساتذۂ فن جو ہیں انہوں نے خطِ رعنا کو بہت پسند کیا۔ میری بڑی حوصلہ افزائی کی حضرت اِمام الخطاطین حافظ محمد یوسف سدیدیؒ، حضرت نفیس رقمؔ و دیگر آرٹسٹوں، خطاطوں نے خوبصورت انداز میں مجھے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ انڈیا سے عظیم خطاط حضرت خلیق ٹونکی، حضرت سیّد عاصم امروہوی، الفی قرآن پاک کے کاتب محمد یوسف قاسمی دہلوی، خطاط حافظ یوسف دہلوی، معروف دانشور اور انشاء پرداز ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، جاپانی خطاط کوتیشی ہوندا، ایرانی اور سعودی خطاط صاحبان نے نہ صرف خطِ رعنا کو سراہا بلکہ اس کی ایجاد پر مجھے خراجِ تحسین سے نوازا ہے۔ میرے ہاں جو وِزیٹرز بک ہے اس میں مذکورہ خطاط صاحبان کی تحریریں موجود ہیں خطِ رعنا کے بارے میں جو کہ میرے لئے وجۂ اعزاز ہیں اور میری زندگی کا عظیم سرمایہ ہیں۔ ایک ایسا سرمایہ جو رہتی دنیا تک محفوظ رہے گا۔

سوال:
خطِ رعنا کی مقبولیت کے کیا امکانات ہیں ؟
ابن کلیم:
1971ء میں خطِ رعنا ایجاد ہوا تقریباً چوالیس برس ہوچکے ہیں اور الحمدللہ اس وقت تک پوری دنیا میں خطِ رعنا معروف ہوچکا ہے بلکہ کئی ملکوں میں دیگر مروّجہ طرزوں کے ساتھ اداروں میں باقاعدہ خطِ رعنا کی تربیت دی جارہی ہے۔ مثلاً غالب اکیڈمی نیو دہلی بھارت میں، جاپان کی اسلامک لینگویج یونیورسٹی تہران اور دیگر کئی خِطوں میں اس خط کی باقاعدہ جانکاری کا سلسلہ جاری ہے۔ یوں "خطِ رعنا" سرائیکی وسیب کا ہی نہیں عالمِ اسلام کا بھی وِرثہ بن چکا ہے۔

سوال :
دیگر فنون کی طرح فنِ خطاطی بھی سرائیکی وسیب خصوصاً ملتان کا ایک بہت بڑا حوالہ رہا ہے تو ملتان میں فنِ خطاطی کی اِبتداء اور ارتقاء بارے مختصراً بتائیں؟
فنِ خطاطی میں منشی، خوش نویس، کاتب اور خطاط کی اصطلاحات استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ان کی وضاحت فرمائیں؟
ابنِ کلیم:
زمانۂ قدیم سے 19 ویں صدی عیسوی تک خوش نویس کو "منشی" کہا جاتا تھا جیسے منشی تاج الدین زریںؔ رقم، منشی عبدالمجید پروین رقم اور منشی دین محمد وغیرہ منشی کہلوانا بڑے فخر و اعزاز کی بات ہوتی تھی۔ 20 ویں صدی عیسوی کی ابتدائی دو دہائیوں میں یہ لفظ متروک ہوگیا اور "کاتب" یا "خوش نویس" استعمال ہونے لگا اور پھر انہیں "خطاط" کہا جانے لگا۔ باقی کتابوں کی کتابت اور اخبارات میں کمرشلی کام کرنے والے حضرات "کاتب" کہلوانے لگے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک ہی فن کی مختلف شاخیں ہیں۔ یہ تمام شعبہ جات مختلف رنگوں کے وہ پھول ہیں جو گلستانِ خطاطی میں مہک رہے ہیں۔

سوال:
مصورانہ خطاطی کا بھی کوئی شوق ہے آپ کو؟
ابنِ کلیم:
جی ہاں! ایسا ہے کہ روایتی خطاطی اور مصورانہ خطاطی میں بنیادی طور پر صرف ایک فرق ہے کہ روایتی خطاطی میں حروف کی جو ساخت ہے وہ قواعد و ضوابط سے باہر نہ نکلنے پائے اور مصورانہ خطاطی کا عمل کچھ اس طرح سے ہے کہ آپ برش اُٹھائیں اور جس طرح چاہیں لکھ دیں۔ اس میں رنگینی اور تصویری انداز ہوتا ہے۔ جو مصورانہ خطاطی قرار پاتا ہے اور میں نے بھی مصورانہ "خطاطی" پر کام کیا ہے بلکہ اس طرح سے کہ صرف مصورانہ انداز نہیں بلکہ روایتی خطاطی کے الفاظ کو مصورانہ رنگ دیئے ہیں۔ جنہیں اہلِ فن نے بے حد سراہا ہے۔

calligraphy by Ibn-e-Kaleem
سوال:
یہ بتائیے کہ پاکستان میں اِسلامی خطاطی کا مستقبل کیا ہے؟ اور سرکاری طور پر اس روایتی فن کی کتنی پذیرائی ہو رہی ہے؟
ابنِ کلیم:
اللہ کرے پاکستان میں خطاطی کا مستقبل روشن ہو، آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب تک سرکاری سرپرستی نہ ہو یا اس فن کی طرف ادارے متوجہ نہ ہوں تو کوئی فن مؤثر طور پر فروغ نہیں پاسکتا۔ فی الحال تو صورتِ حال یہ ہے کہ اس فن سے وابستہ خطاط حضرات نے ہی اب تک اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کر کے اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا ہے۔ ہم نے حکومتی اِداروں کو اس فن کی ترقی و تربیت کے لئے اپنے طور پر راغب کرنے کی بہت کوششیں کی ہیں۔ حکومتی سطح پر کافی تگ و دو کی ہے مراسلے بھیجے، پریس کانفرنسیں کیں مگر کامیابی نہ ہوسکی، اس لئے کہ ہمارے سیاستدانوں، حکمرانوں کے شاید عزائم یہ ہیں کہ قوم بد خط رہے۔ جمالیاتی ذوق سے عاری رہے اور ہمارے نونہال جب امتحان میں پرچہ حل کرنے بیٹھیں تو کچھ لکھ نہ پائیں۔ بدخطی کی بدولت فیل ہونے والے طلباء کی تعداد میں اِضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ حالانکہ ہنر مندی ہر فرد و بشر کا خاصہ ہونا چاہئے۔ لکھنے پڑھنے اور ہنر مندی سے خالی معاشرہ مردہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ ہنر مندوں کے فن سے معاشرہ میں جمالیات کی ایک لہر اُٹھتی ہے جو لوگوں کے دماغوں کو عطر بیز کرتے ہوئے ان کے ذوقِ جمال کو تر و تازہ کرتی ہےاس لئے فنِ خطاطی کا فروغ اور اس کا تحفظ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ۔

سوال:
ایسے ماحول میں جبکہ کمپیوٹر سے کام کیا جانے لگا ہے خطاطی کا، تو ان حالات میں بچے خطاطی کی طرف کیوں کر آئیں گے؟
ابنِ کلیم:
کمپیوٹر نے خطاطی کے حوالے سے جس حد تک بھی ترقی کی ہو وہ اپنے طور پر اہم ضرور ہے مگر کمپیوٹر بھی انہیں انگلیوں کے سہارے کام دے سکتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو بچہ بھی سکول جاتا ہے وہ بڑا ہونے اور تعلیم تکمیل ہونے تک تحریر کی تربیت جب تک نہ لے لکھائی تو وہ کر ہی نہیں سکتا۔ کمپیوٹر نے تو بنے بنائے لفظ آپ کو دینے ہیں۔ اس نے آپ کے اپنے ہاتھ کو لکھنے کیلئے نہیں سدھارنا اس لئے بچہ ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت اس کا جو باطن ہے وہ اس وقت حسین ہوتا ہے اور اس کی دِلی تشفی اس وقت ہوپاتی ہے جب وہ اپنے ہاتھ سے خوبصورت لکھائی کر پائے۔ جو لوگ یہ شعور رکھتے ہیں وہ اب بھی باقاعدہ ہمارے اِدارے "دبستان فروغِ خطاطی" میں تحریری عمل سیکھنے آتے ہیں۔ اس سے انسان کا اپنا ذاتی کمال سامنے آتا ہے نہ کہ کمپیوٹر کا۔

سوال:
یہ بتائیے کہ آپ نے خطاطی کا فن اپنے والدِ گرامی محمد حسن خان کلیم رقمؒؔ سے سیکھا، انسان جو کچھ سیکھتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے آگے بڑھایا جائے۔ نئی نسل کو دیا جائے۔ آپ اپنے فن کو آگے بڑھانے میں نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں اور کیا دے چکے ہیں اب تک؟
ابنِ کلیم:
ایسا ہے کہ صرف استاد کے پاس آکر سیکھ لینا یہ تو ایک محدود ذریعہ ہوجاتا ہے ہم نے فنِ خطاطی اور خوشنویسی سکھانے کیلئے یہ کاوِشیں کی ہیں کہ درجن بھر کتب مختلف انداز میں ترتیب دے کر چھاپ دی ہیں اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ وہ لوگ جو اساتذہ تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے وہ ان کتابوں کے ذریعے گھر بیٹھ کر دی گئی ہدایات کے مطابق خطاطی سیکھ پاتے ہیں۔ ہم نے ذاتی طور پر اب تک ہزاروں طلباء و طالبات کو خطاطی کی تربیت دی ہے۔ آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ میں نے اپنے پانچ بیٹوں کو باقاعدہ طور پر یہ فن سکھایا ہے۔ محمد جمال محسن کو جو کہ کراچی میں اس فن کے ذریعے خدمات کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ محمد مختار ؔ علی جو کہ عمدہ شاعر بھی ہیں سعودی عرب میں اور حامد اقبال ملتان میں، آصف خان اٹک میں اور مبشرکلیم ملتان میں دبستان فروغِ خطاطی کے تربیتی مرکز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ فن کئی پشتوں سے ہمارا آبائی فن ہے۔ میں نے اپنی اولاد کو اور ہزاروںشاگردوں کو فنِ خطاطی سکھا کر اپنے بزرگوں کے فرمودات پر عمل کیا ہے۔

سوال:
آپ نے اپنے فن کی نمائشیں کہاں کہاں کی ہیں؟
ابنِ کلیم:
ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں، نیشنل آرٹ گیلری اسلام آباد میں، امریکن سنٹر کراچی، گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کراچی، قومی عجائب گھر لاہور، الحمراء لاہور، شاکر علی میوزیم لاہور، راولپنڈی آرٹس کونسل وغیرہ کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں، غالب اکیڈمی نیو دہلی(بھارت)، لیگ آف عرب اسٹیٹس کے عرب کلچرل سنٹر نیو دہلی (بھارت)، اُردو گھر نیو دہلی، سعودی عرب کے شہر جدہ اور ریاض میں دو بار، ایران کے شہروں تہران، نیشا پور، مشہد مقدس، سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہولم، ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں خود جاکر اپنے فن کے وَن مین شوز کئے جبکہ دمشق، عراق، امریکہ، مصر اور چند دیگر ممالک میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد کے زیرِ اہتمام منعقدہ نمائشوں میں شرکت کی۔
میری زندگی کا مقصد خطاطی کا فروغ اور تحفظ تھا جو کہ پورا ہورہا ہے۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ خطاطی کے حوالہ سے نہ صرف قومی سطح پر بے لوث خدمات انجام دے رہا ہوں بلکہ ایک نیا طرزِ تحریر خطِ رعنا ایجاد کرکے وطنِ عزیز پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔

سوال:
ابنِ کلیم صاحب! آخر میں آپ ہمارے قارئین کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ابنِ کلیم:
میرا پیغام قوم کے ہر چھوٹے بڑے، مرد و عورت کے لئے یہ ہے کہ حسنِ تحریر کو اپنائیے اور اپنا ہینڈ رائٹنگ خوبصورت کیجئے یہ نہ صرف آپ کے باطنی حسن اور جمالیات کو اُجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے بلکہ آپ کی شخصیت کے کئی پلوصاجاگر ہوتے ہیں۔ آپ یقین کیجئے حسن تدبیر، حسنِ سلوک، حسنِ تصور، حسنِ تدبر اور حسنِ تخلیق یہ سب خوبیاں "حسنِ تحریر" سے ہی اُجاگر ہوتی ہیں۔
خطاطِ ایشیاء احسن التحریر محمد حسن خان کلیمؒ رقم کا قول ہے:
"حسنِ تحریر ہی حسنِ سیرت کا دوسرا نام ہے"

The life and art of an inventor of new Style of Calligraphy "KHAT-E-RA'ANA (خطِ رعنا)", Hafiz Muhammad Iqbal Ahsan Khan, Alias Ibn-e-Kaleem.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں