دشمن کا ہو برا مگر اتنا برا نہ ہو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-13

دشمن کا ہو برا مگر اتنا برا نہ ہو

67-delhi-seats-AAP
ٹھیک ایک سال قبل عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے غالب اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے مجبوری میں بنائی گئی اقلیتی حکومت کے وزیر اعلی کی حیثیت سے استعفی دے دیا تھا کیونکہ وہ ایک ایسی حکومت میں نہیں رہنا چاہتے تھے جس کو ہر وقت اپنے اتحادی کے دباؤ میں کام کرنا پڑے اور اتحادی پارٹی اس کی پالیسیوں اور کاموں پر اثر انداز ہو۔ انہوں نے ۴۹ دنوں کے بعد استعفی دے دیا تھا جس کی ہر جانب سے مذمت ہوئی تھی۔ انہیں غیر ذمہ دار اور بھگوڑاکہاگیااور ان پر یہ الزام دھرا گیا کہ چونکہ انہوں نے وعدے ہی ایسے ایسے کرلئے تھے جن کو پورا کرنا عملی طورپر ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اپنا چہرہ بچانے کے لئے استعفی دے دیا۔ مگر ایک سال کے بعد اروند کیجریوال کی شاندار فتح نے یہ ثابت کردیا کہ ان کا استعفی دے کر اقلیتی حکومت کو خود ہی گرادینے کا فیصلہ بالکل صحیح فیصلہ تھا اور دور اندیشی پر مبنی تھا۔ انہوں نے استعفی دے کر حکومت سے دستبردار ہوکر دہلی کے عوام کو یہ کھلا چیلنج پیش کیاتھا کہ اگر آپ کو حکومت میں لانا چاہتے ہیں اور اگر اس کی پالیسیوں اور اس کے وعدوں پرانہیں پورا اعتماد ہے تو پھر پوری اکثریت سے اقتدار میں لائیں اور ہم حکومت اسی حالت میں بنائیں گے جب ہمیں پوری اکثریت ملے گی ۔
گذشتہ سال حکومت اگر کانگریس کے بل پر چلتی بھی تو اس کے دن گنے چنے ہوتے کیونکہ ماضی میں اتھادی حکومتوں کا تجربہ بہت کامیاب نہیں رہاہے۔ لہذا، اتحادی حکومت میں کیجریوال ہر وقت دباؤ میں رہتے اور قابل قدر فیصلے نہ لے سکتے ۔ اس لئے وہ چاہتے تھے کہ حکومت یا تو خود گر جائے یا پھر کانگریس کو مجبور کیاجائے کہ وہ حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لے اس لئے انہوں نے کانگریس کی حمایت لینے کے باوجود کانگریس کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے رکھا تھا۔ در اصل وہ چاہتے تھے کہ دوبارہ الیکشن کا ماحول پیدا ہو تاکہ اس بار وہ غالب اکثریت میں آجائیں ۔ انہیں اعتماد تھاکہ اگر دوبارہ الیکشن ہواتو عوام وآپ کو غالب اکثریت سے انہیں اقتدار سونپینگے۔
مگر اس دوران میں جمنا میں پانی کافی بہہ چکاتھا ۔ مرکز میں کانگریس نے اقتدار کھودیا تھا اور مودی کی قیادت میں بی جے پی غالب اکثریت سے اقتدار میں آچکی تھی۔ مودی لہر میں کئی ریاستوں کی مقامی پارٹیاں خس و خاشا کی طرح بہہ گئیں ۔ لہٰذا، بی جے پی کو امید تھی کہ اس بار دلی میں عوام بی جے پی کو ہی اقتدار سونپیں گے۔ میڈیا نے بھی بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ بڑے بڑے صحافی مودی کے ساتھ سیلفی لینے کو باعث فخر سمجھنے لگے ۔ مودی کے سارے گناہ دھل گئے۔ کوئی صحافی اب مودی اور امیت شاہ کے کالے کارناموں کاذکر کرنا نہیں چاہتاتھا۔اس دوران دلی انتخابات کا وقت قریب آگیا۔میڈیا نے مودی کی تقریروں کی لمبے لمبے فوٹیج نشر کرنا شروع کردئیے اور ایسا محسوس ہوا کہ مودی کا مخالف اس کے آگے ٹک نہیں پائے گا۔ اس کے بعد مرحلہ آیا اتخابی سروے کا اس میں بھی تقریباً تمام میڈیا چینلوں نے اگرچہ کیجریوال کو اکثریت ملنے کی پیش گوئی کی مگر بی جے پی کو بھی تیس کے آس پاس نشستیں ملنے کے امکانات ظاہر کئے جبکہ نتائج آنے پر ان کی ساری پیشینگوئی اوندھے منہ گرگئی۔اور وہ صرف تین سیٹوں پر سمٹ گئی۔ یہ بی جے پی کے لئے ایک سانحہ عظیم تھا۔ بڑے بڑے سیاسی تجزیہ نگار ان نتائج پر دنگ رہ گئے ،۔ مودی جو سمجھتے تھے جہ ہندوستان کے ہندو ان کا چہرہ دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں اسلئے دلی کے تمام ہندو انہیں ہی ووٹ دینگے اور کیجریوال کا کوئی حامی و مددگار بھی نہ ملیگا۔
میڈیا کی اڑائی ہوئی اس لہر میں عام آدمی پارٹی کی فاؤنڈر ممبر شاذیہ علمی بھی بہہ گئیں اور اور وہ بی جے پی کے جھانسے میں آکر عین الیکشن سے قبل آپ کو چھوڑ کر بی جے پی میں چلی گئیں ۔ بنگال میں بھی اس لہر کا اثر ہوا اور ترنمول کانگریس کے کچھ بزرگ اور نئے لیڈران میں بھی بی جے پی میں شامل ہوگئے ۔کچھ فلم اداکار اوراداکارائیں بھی اس میں شامل ہوگئیں۔ بہرحال، الیکشن کے نتائج نے مودی کی مقبولیت کی پول کھو ل کر رکھ دی ۔
فقیہِ شہر تھا خانہ خراب کیسے ہوا
بتاؤ اتنا بڑا نقلاب کیسے ہوا
(رونق نعیم )

واقعی یہ انقلاب نہیں ہے تو کیا ہے کہ ایک ایسی پارٹی کی ناک کے نیچے جو فرقہ پرستی ، ہندو راشٹر اور مسلم مخالفت کے ایجنڈے پر سوار ہوکر آئی تھی کو ایک ایسی پارٹی نے نہ صرف غالب اکثریت حاصل کی بلکہ بی جے پی کو جڑ سے اکھاڑ کی پھینک دیا اور مذہبی جنون کے بجائے ترقی، بدعنوانی اور بنیادی عوامی سہولیات کی دستیابی کو اپنی پالیسی کے طور پر اپنایا اور بی جے پی کے ہندوتواوادیوں کو یہ بتادیا کہ عوام کو خالی بینک اکاؤنٹوں کی بجائے سستی بجلی ، مفت پانی اور بدعنوانی سے پاک انتظامیہ چاہئے ۔
عام آدمی پارٹی روز اول ہی سے عوام کو ایک ایسی حکومت دینے کی کوشش کرتی رہی ہے جو عوام کی سہولتوں کا خیال رکھے ان کی ضروریات اور ترجیحات کا ادراک کرے اور انہیں بڑے بڑے خواب دکھانے ا ور لچھے دار وعدوں میں الجھانے کے بجائے زمینی حقیقتوں پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھے۔ مودی نے ترقی کا جھانسہ دیکر ملک کو مذہبی منافرت کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا اور پورے ملک کو فرقہ واریت کے زہر سے بیمار کردیا۔ بی جے پی کے لیڈران قانون اور دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے فرقہ پرستانہ ہی نہیں بلکہ قوم مخالف بیانات دینے لگے۔ گاندھی کی جگہ کوڈسے کی مدح سرائی کھلے عام ہونے لگی ، کیجریوال کو بھی گاندھی کی طرح قتل کرنے کی دھمکی دی جانے لگی ، پورے ملک کی مسجدوں میں مورتیاں رکھنے کے عزم کا اظہار کیا جانے لگا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جس کے خلاف مودی حکومت نے کوئی کاروائی نہیں کی اور نہ ہی اس کی مذمت کی۔عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو جلایا گیا تو مسلمانوں کے گاؤں پر حملہ کیا گیا۔ ان تمام واقعات نے نہ صرف مسلمانوں کو خوف وہراس میں مبتلا کردیا بلکہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ بھی بی جے پی مخالف ہوگیا کیونکہ انہیں محسوس ہوا کہ مودی کی قیادت میں ملک اور معاشرہ صدیوں پیچھے جارہاہے۔
لہٰذا، مسلمانوں اور سیکولر اور ترقی پسند ہندوؤں نے فیصلہ کرلیا کہ ملک کو فرقہ پرست ذہنیت سے پاک کرکے ایک سوچھ بھارت کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ ایک ایسی پارٹی کو اقتدار کی باگ ڈور سونپی جائے جو مذہبی جنون سے بالا تر ہوکر ترقی ، شفافیت اور عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیحی درجہ دیتی ہو۔ نتیجہ سبھوں کے سامنے ہے۔
ہندوستان کے دل دلی میں جہاں وزیر اعظم نریندر مودی وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان ہیں ان کی پارٹی کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہندوستان کے عوام خصوصاً نوجوان طبقے کو ان کے ہندوراشٹر کے نعرے اور ہندوتوا کے ایجنڈے میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی ہندومذہب کو کوئی خطرہ ہے ۔ اس لئے ضرورت ہے تو اس بات کی کہ ہندوتوا کے پردے میں ملک کو دقیانوسیت کی کھائی میں دھکیلنے والے پاکھنڈیوں کو درکنار کرکے ترقی پسند اور مثبت سوچ رکھنے والی پارٹی کو اکیسویں صدی کے ہندوستا ن کی باگ ڈور سونپی جائے ۔ یہ شکست بی جے پی اور خصوصا فرقہ پرست مودی کی شکست ہے اور ہندوستا ن کے سیکولر اور جمہوری اقدار کی فتح مبین ہے۔ اس فتح نے ہندوستان کے مسلمانوں کا ملک کے سیکولر کردار پر اعتماد اور مضبوط ہوگیا ہے اور سیاستدانوں کو اپنا رویہ اور نقطہ نظر بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔آخرمیں مودی کی شکست پر اپنا ہی ایک شعر نقل کرتاہوں۔

قدموں میں ایک روز ہو میرے گراہوا
دشمن کا ہو برا مگر اتنا برا نہ ہو

***
Sohail Arshad
Mob.: 09002921778
s_arshad7[@]rediffmail.com

The political charisma of AAP. Article: Sohail Arshad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں