تلنگانہ - رواں مالیاتی سال صرف 65 فیصد بجٹ کا استعمال ممکن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-28

تلنگانہ - رواں مالیاتی سال صرف 65 فیصد بجٹ کا استعمال ممکن

حیدرآباد
ایجنسیاں
نو تشکیل شدہ ریاست تلنگانہ کی اسمبلی میں ٹی آر ایس حکومت نے مالیاتی سال2014-15کے لئے اگرچہ ایک لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ31مارچ تک اس کا صرف65فیصد حسہ ہی ااستعمال کیاجاسکے گا ۔ گزشتہ سال انتخابات کے باعث حکام نے نئی حکومت کی تشکیل کے بعد 10ماہ کے لئے یہ بجٹ پیش کیا تھا۔ حکومت نے جو بجٹ پیش کیا تھا اس کا مکمل استعمال نہ ہوپانے کی اصل وجوہات میں مقررہ نشانہ کے مطابق آمدنی کا نہ ہونا ہے ۔ حکومت نے کمر شیل ٹیکسس اور دیگر ذرائع سے36ہزار کروڑ روپے کی آمدنی کا نشانہ مقرر کیا تھا ۔ حکومت تلنگانہ نے مرکزی محاصل مٰں اپنے حصہ کے تحت13ہزار کروڑ روپے کی آمدنی کی توقع کی تھی جب کہ نئی ریاست کی تشکیل کے پیش نظر حکومت کو مرکز سے5ہزار کروڑ روپے کے خصوصی پیاکیج کی بھی امید تھی۔ اسی طرح حکومت نے سرکاری اراضیات کی فروخٹ کے ذریعہ6500کروڑ روپے کی آمدنی کا نشانہ مقرر کیا تھا لیکن ان میں ایک بھی نشانہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔ جس کے نتیجہ میں آمدنی میں زبردست گراوٹ آئی اور مختص کردہ بجٹ کے لئے فنڈس حاصل نہ ہوسکے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں اقلیتوں کے بشمول سماج کے کمزور طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ اقلیتوں کے لئے1034کروڑ روپے مختص کیے گئے تاہم یہ حقیقت ہے کہ10ماہ کے دوران حکومت نے اقلیتوں کے لئے بہ مشکل230کروڑ روپے جاری کیے۔ اس کی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ حکومت نے شادی مبارک اسکیم کے تحت20ہزار غریب مسلم لڑکیوں کی شادیوں کا نشانہ مقرر کرتے ہوئے100کروڑ روپے مختص کیے تھے تاہم حکومت نے2ہزار سے بھی کم لڑکیوں کو اسکیم کے تحت فی کس51ہزار روپے کی ادائیگی عمل میں لائی۔ اسی طرح اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کے تحت خود روز گار اسکیم بھی توقع کے مطابق اپنے نشانے پورے نہیں کرسکی ۔ اقلیتوں کی فلاح و بہبود سے متعلق سرکاری اسکیموں کی مناسب تشہیر نہ ہونے، افرادی قوت کی کمی اور اضلاع میں اقلیتی محکمہ کا کمزور موقف بجٹ کے عدم استعمال کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ۔ اضلاع میں کوئی میناریٹی ویلفیئر آفیسر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دفتر اور ارکان عملہ کا وجود ہے۔ یہاں تک کہ زائد از 5ماہ تک محکمہ اقلیتی بہبود کی سربراہی کرنے کے لئے پرنسپال سکریٹری بھی مقر ر نہیں کئے گئے تھے ۔ اسپیشل سکریٹری کا حال ہی میں تقرر عمل میں لایا گیا ۔ پسماندہ طبقات کی ترقی اور فلاح و بہبود کا بھی کم و بیش یہی معاملہ ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے تیقن دیا تھا کہ پسماندہ طبقات کے لئے ہر سال10ہزار کروڑ روپے ، اسی طرح5برسوں میں50ہزار کروڑ روپے مختص کئے جائیں گے تاہم جاریہ سال پسماندہ طبقات کی بہبود کے لئے بمشکل2ہزار کروڑ روپے خرچ کئے گئے ۔ حکومت نے اقلیتوں ، ایس سی ایس ٹی اور بی سی طلباء کی تعلیمی سال2014-15کی اسکالر شپ اور فیس ری امبرسمنٹ بھی جاری نہیں کی ہے حالانکہ تعلیمی سال ختم ہونے کے قریب ہے۔ حکومت اس معاملہ کو مقامی اور غیر مقامی کے بہانہ طول دے رہی ہے۔ دیگر اسکیمیں جیسے کمزور طبقات کے لئے امکنہ( چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے مستحق خاندانوں کو125مربع گز پر دو بیڈ روم ، ہال اور کچن پر مشتمل مکان دینے کا وعدہ کیا تھا۔)کی بھی شروعات نہیں ہوسکی۔ حالانکہ بجٹ میں اسکیم کے لئے ایک ہزار کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے ۔ حکومت ہنوز مکانات کے ڈیزائن وغیرہ کے انتخاب کے مرحلہ میں ہے۔ دوسری طرف125مربع گز تک کے غیر مجازی قبضوں کو رجسٹریشن چارجس کی وصولی کے ذریعہ باقاعدہ بنانے کی اسکیم کے بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ۔ بتایا گیا ہے کہ سروے وغیرہ پر جو رقم خرچ کی گئی تھی وہ بھی واپس حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔ دیگر معنوں میں کہاجاسکتا ہے کہ حکومت کے پاس مالیہ کی شدید قلت ہے ۔ حکومت، مختلف ذرائع سے آمدنی کے نشانے مقرر کررہی ہے لیکن توقع کے مطابق سرکای خزانہ میں فنڈس نہیں آرہے ہیں ۔ نتیجہ میں حکومت سالانہ بجٹ میں مختص کردہ رقومات جاری کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ حکومت کی آمدنی کا بڑ حصہ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں چلاجاتا ہے ۔ ایسے حالات میں عوام بالخصوص کمزور طبقات کے فلاح و بہبود کے لئے متعارف کردہ اسکیمیں چلانا انتہائی دشوار ہوگیا ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں