ولی عالم شاہین کی غزلیہ شاعری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-04

ولی عالم شاہین کی غزلیہ شاعری

Wali-Alam-Shaheen
کینیڈا میں مقیم ولی عالم شاہین ؔ کی غزلیہ شاعری پر دنیائے اُردو کی چند شخصیتوں نے یوں اظہارخیال کیا ہے :
شاہینؔ کا منفرد اسلوب ان کی ہر غزل میں نمایاں ہے (احمد ندیم قاسمی)
شاہینؔ کے منظومات میں ، خواہ وہ غزلیں ہوں یا نظمیں، دلچسپ افسانوں کی سی کیفیت ہے۔پڑھنا شروع کیجئے تو پڑھتے ہی چلے جائیے۔ (عندلیبؔ شادانی)
شاہینؔ کی طرز فغاں سب سے الگ ہے ۔ (ممتاز حسین)
وہ مجھے ایسے شاعر نظر آتے ہیں جو دل کی ہرلرزش کو شاعری کا پیکر عطا کرنے کا فن جانتے ہیں۔(انور سدید)
جب کسی شاعر کے لئے اتنے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کے ایسے توصیفی الفاظ نظرآتے ہیں تو قار ی کے دل میں لا محالہ پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ شاعر ایسے سنہرے الفاظ کا واقعی مستحق ہے یا اس توصیف کے پس پشت کچھ دوسرے محرکات ہیں۔ ساتھ ہی اس کا دل یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ اس شاعر سے واقفیت حاصل کرے اور اس کے کلام کے مطالعہ سے مستفید و محظوظ ہو۔ بدقسمتی سے اُردو میں تبصرہ نگاری ہمیشہ معروضی اور بے لاگ نہیں ہوتی ہے بلکہ اس میں اکثر ذاتیات اورشخصیا ت کارفرما ہوتی ہیں، اس لئے ایک سنجیدہ قاری ایسے تبصروں کو حقائق کی روشنی میں پرکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔بہ الفاظ دیگر وہ یہ متعین کرنا چاہتا ہے کہ کیا ان ادیبوں نے شاہینؔ کے غزلیہ کلام کے بالاستیعاب مطالعہ کے بعد اپنی رائے قائم کی ہے یا مروت، سفارش اور ذاتی تعلقات کی بنا پر محض اُن کادل خوش کرنے کے لئے کتاب کو ایسے سنہر ے الفاظ سے مزین کیا ہے؟ یہی تجسس اور اشتیاق تھا جو راقم الحروف کو شاہین ؔ کی غزل کے مطالعہ کی جانب کھینچ کر لے گیا اور جس کا نتیجہ زیر نظر مضمون ہے۔
غزل اُردو کی مقبول ترین صنف ہے۔ دُنیا کی کسی دوسری زبان میں اتنے شاعر نہیں گزرے ہیں جتنے اُردو میں صرف غزل کے شاعر ہیں۔کسی شاعر کی غزل کا تجزیہ کرنے کی ضرورت پڑے تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اس کی غزل میں کون سے اساتذہ کا یا کس مدرسۂ فکر کا رنگ نمایاں ہے۔ہمارے نقاد بھی یہی انداز فکر رکھتے ہیں،شاید اس لئے کہ اس طرح ان کا کام نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہاں میرؔ ، غالبؔ ، داغؔ وغیرہ کے حوالے سے غزل کو پرکھنے کے چند ٹکسالی پیمانے رائج ہو گئے ہیں۔ اگر کسی شاعر کے یہاں حزن وملال زیادہ ہے تو اسے میر تقی میرؔ کے ساتھ ٹانک دیا جاتا ہے ، اگر اس کی غزل میں پیچیدہ خیالی ہے تو مرزا غالبؔ سے اس کا سلسلۂ نسب ملا دیا جاتا ہے اور اگر اس میں سادہ بیانی ہے تو وہ مرزا داغؔ سے جوڑ دیا جاتا ہے، علیٰ ہٰذ القیاس۔ ان پیمانوں میں پچھلی صدی سے جگرؔ مرادآبادی، حسرت ؔ موہانی، فانیؔ بدایونی اور اصغرؔ گونڈوی کو مزید شامل کر لیا گیا ہے ، گویا اس طرح تنقیدی پیمانوں کی تعداد میں چار پیمانوں کا اضافہ ہو گیا ہے لیکن تنقید کے بنیادی اصول جیسے کے تیسے ہی رہے ہیں۔ شاہینؔ کی غزل پر ایک سرسری نگاہ ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ وہ اکثر ایسے سپاٹ اور بیانیہ انداز میں غزل کہتے ہیں کہ ان کے کلام کو مذکورہ بالا پیمانوں پر پرکھنا بیسود ہے، چنانچہ قاری ان کی غزل کو گہری نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں اس پر کئی دلچسپ باتیں منکشف ہوتی ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ شاہینؔ کی غزل روایتی اُردو غزل سے اپنے رنگ و آہنگ،زبان وبیان اور مضامین میں اتنی مختلف ہے کہ دونوں میں مشترک قدریں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لہٰذہ شاہینؔ کی غزل کو اس حوالے سے ہم جدید غزل کے خانے میں رکھ سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ زندگی کے ہر پہلو کی طرح شاعری بھی بدل رہی ہے۔غزل بھی اپنا چولا بدل رہی ہے، اس کے مضامین اور اسالیب تبدیل ہورہے ہیں اور غزل اپنی روایتی جڑوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ کوئی اعتراض یا تردد کی بات نہیں ہے۔ ادب اپنے معاشرہ کا عکس ہو اکرتا ہے ۔ وقت،زمانے اور حالات کے تقاضوں سے جیسے جیسے معاشرہ بدلتا ہے ادب کا بدلنا بھی ضروری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شاہینؔ ان بدلتی ہوئی قدروں سے کس حد تک عہدہ برآ ہو سکے ہیں اور اس کوشش میں انہوں نے کون سی راہ اختیارکی ہے۔ مزید یہ کہ روایت سے اُن کا اختلاف کس بنیاد پر قائم ہے ،اس اختلاف کی کیا صورت ہے اوراس اختلاف کے کیا اثرات ان کی غزل پر مرتب ہوئے ہیں۔
غزل کے متعدد معانی میں ایک ’’محبوبہ سے گفتگو کرنا‘‘ بھی ہے۔اسی حوالے سے عاشقانہ مضامین ہمیشہ سے غزل کا خا ص مضمون رہے ہیں۔ غز ل میں اشعار کی دو مصرعی شکل، قافیوں کی پابندی، شعرکے دونوں مصرعوں اور پھر ساری غزل کا ایک ہی وزن اور بحر میں ہونا، ہر شعر کے آخر میں ردیف کی تکرار، یہ سب مل کر غزل کو جس ترنم اور موسیقیت سے متصف کرتے ہیں وہ حسن و عشق کی واردات اور اس کی دلپذیر داستان نیز عام انسانی جذبات بیان کرنے میں بہت معاون ہیں۔غم زندگی، غم روزگار، غم دُنیا، غم جاناں ، انسانی تجربات و مشاہدات، معلومات ومحسوسات، جذبات و خیالات وغیرہ سبھی انسانی زندگی کا اہم اورناگزیر حصہ ہیں۔ زندگی انہیں سے بنتی اور بگڑتی ہے ۔ شاعری اگر انسانی زندگی کی عکاس ہے تو ان چیزوں کے ذکر وفکر سے اُسے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔شاعری میں اسی وجہ سے اشاروں اور کنایوں کی بہت اہمیت ہے کیونکہ ان کی وساطت سے شاعر اپنی فکر و تصور کا جال دور تک پھیلا کر بہت سی ایسی باتوں کا احاطہ بھی کر لیتا ہے جو کسی نہ کسی حد تک فرضی اور مصنوعی ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں۔ چنانچہ گل وبلبل کی دلفریب داستان، شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھا کے عشق کی کہانیاں،بہار وخزاں کے قصے،ہجر ووِصال کی واردات، صیاد وقفس کی صورت گری اور ایسی ہی دوسری باتیں اب غزل کے روایتی مضامین میں شامل ہو چکی ہیں اور اچھی شاعری کے لئے ان سے فرار ممکن نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر بڑا شاعر ، خواہ وہ جدید شاعری کا علم بردار ہو یا روایتی غزل کا پاسدار ،ان سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُردو شعرا نے اس سلسلہ میں انتہائی زیادتی سے کام لیا ہے اور روایتی غزل عاشقانہ مضامین کا پشتارہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال کے رَدّ عمل میں کچھ لوگوں نے جدید غزل اختیار کر کے ان مضامین کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ اکثر یہ رد عمل اتنا سخت ہو گیا ہے کہ شعرا نے روایتی مضامین سے مطلق دامن کشی اختیا رکر لی ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ اگر غزل کے مذکورۂ بالا مضامین کو بالائے طاق رکھ دیا تو پھر غزل میں کہنے کے لئے بہت کم باتیں رہ جاتی ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا ہے۔ ولی عالم شاہینؔ ایسے ہی جدید شاعروں میں سے ہیں۔انہوں نے بھی جدیدغزل کی پاسداری میں روایات کو اس طرح نظر انداز کیا ہے کہ اُن کے یہاں غزل کے روایتی مضامین ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں اچھے اشعار کی کمی ہے لیکن ان اشعار کی شیرازہ بندی کرنا اور ان کو جذبات و خیالات کے مختلف سانچوں میں سجانا نا ممکن ہو کر رہ گیا ہے ۔ شاہینؔ کے یہاں عشق ومحبت کی روداد، حسن وعشق کی کشمکش اور ہجر ووِصال کی کہانی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ نہ وہ خود کسی کے غم میں روتے ہیں اورنہ ہی کسی اور کو رونے دیتے ہیں۔ انہیں کسی دلربا کی یاد تک نہیں ستاتی ہے،وہ کسی کوچے کے چکر نہیں لگاتے ہیں،صحرا اور بیابان سے وہ نا آشنا ہیں، محفل رقص و سرود کا کیا ذکر اُن کی شاعری لفظ محفل سے ہی واقف نہیں ہے،شمع اُن کے یہاں فروزاں نہیں ہوتی،پروانے ان کے یہاں نثار ہونے نہیں آتے، نہ بہار کی خوشبو سے ان کی شاعری مہکتی ہے اور نہ خزاں کی گرم ہوا کے تھپیڑے کہیں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ان کے یہاں چند اشعار ایسے ضرور ملتے ہیں جن میں حسن و عشق کی بو باس محسوس کی جا سکتی ہے:
ایک نا آشنا پہ مرتے ہیں

ہم بھی کیا کاروبار کرتے ہیں
ہم سنبھل ہی نہیں پائے کسی حالت میں بھی

زندگی میں رہے ناکام ، محبت میں بھی
اس شہر کم آگاہ کو حیران تو کر جائے

اک شام یہاں وہ مری خاطر ہی ٹھہر جائے
خوش ہوں کہ تری پرسش احوال بہت ہے

تہمت یہ جئے جانے کی ا ب میرے ہی سر جائے
ہنر سکھا دئے جینے کے تیری یادوں نے

مرا شعار اب اک زیر لب تبسم ہے
یہ شاہینؔ کے عشق کی انتہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ا س کو کسی طرح بھی جذبہ کی شدت یا خیال کی تازگی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ شاہینؔ عشق کی خود سپردگی اور حسن کی کج ادائی سے مطلق نا واقف ہیں ۔ غزل کے شاعر کااول وآخر اس کا محبوب ہوتا ہے ۔ اس کے سارے خواب ، سارے غم، ساری خوشی، سار ے ارمان، ساری زندگی محبوب سے ہی وابستہ ہوتی ہے ۔ شاہینؔ اگر خواب بھی دیکھتے ہیں تووہ ساری دنیا سے الگ ہوتا ہے اور غم محسوس کرتے ہیں تو وہ بھی اپنا رنگ اور اپنا روپ زمانہ سے جدا رکھتا ہے۔ ان کے تقریباً ہر شعرکو سمجھنے اور محسوس کرنے کے لئے اس سے کھلواڑ کرنی پڑتی ہے کہ شاید اسی طرح اس کے پس پشت جو راز کی بات کہنا چاہتے ہیں وہ ظاہر ہوجائے۔ لیکن اکثر یہ راز ایسا معمہ ثابت ہوتا ہے جس کو نہ وہ ظاہر کرنے کو تیار نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کو یہ پسند ہے کہ اپنے قاری کو اس کی کنجی دے دیں۔ اشعار پڑھنے کے بعد ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کہ آخر اس شاعری کا اول وآخر کہاں ہے،کس طرح اس کی گرہیں کھولی جائیں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس گورکھ دھندے کی کوئی گرہ ہی نہیں ہے؟ معلوم نہیں کیوں شاہینؔ بھول بھلیوں کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔
دیکھے ہیں خواب تیرے تعلق سے اس قدر

اب تو مری نگاہ میں بس اک خیال ہے
ترے فراق میں کیا حال اپنا کر رکھوں

کہاں کہاں تری چیزیں سنبھال کر رکھوں
ترے غم سے کہ اب ہے یوں گریزاں

ہماری واقفیت تو رہی ہے
شاہینؔ کی غزلاپنی مثال آپ ہی معلوم ہوتی ہے۔ اس کا ہرشعر ایک بیانیہ ہے، سیدھا سادا اورسپاٹ۔ شعریت ، تغزل، اثر پذیری، شدت جذبات، گرمئ زبان و بیان، مختصر یہ کہ غزل جن خصوصیا ت سے غزل بنتی ہے وہ سب کی سب شاہینؔ کے لئے شجر ممنوعہ معلوم ہوتی ہیں ۔ عام شاعر جہاں جذبات و تصورات سے اپنی غزل آباد کرتے ہیں وہاں شاہینؔ ایسے اشعار پر اکتفا کرنا کافی سمجھتے ہیں جن میں ایک گو مگو کی سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے یہاں صرف مجازی محبوب کا کوئی تصور نہیں نظرآتا ہے بلکہ عشق حقیقی، تصوف، عارفانہ خیالات وفلسفہ کا بھی فقدان ہے۔ لاکھ ڈھونڈنے پر بھی خیالات وجذبات کا کوئی تسلسل ،کسی نقطۂ نگاہ کی کوئی لڑی، کسی سو چ یا فکر کی کوئی زنجیر ایسی نظر نہیں آتی ہے جس میں ان کے اشعار کو پرویا جا سکے اور اس طرح ان کی خانہ بندی کی جا سکے۔ گویا ان کے اشعار انفرادی طور پر تو معنی رکھتے ہیں لیکن زندگی یا اس کے کسی پہلو سے متعلق شاعر کے کسی انداز نظر یا طریق فکر کی جانب کسی قسم کا اشارہ نہیں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شاہینؔ کی وہ بیزاری اور الجھن ہی جو اکثر سامنے آتی ہے ان کی غزل کی پہچان ہو۔ اس کے علاوہ ان کے یہاں کوئی با ربط اوربا معنی شعورزندگی دکھائی نہیں دیتا ہے۔
روح کی رکھتے ہیں پہچان،نہ تن کی پہچان

روح کی آڑ لئے تن سے الجھتے ہوئے لوگ
اب اس قدر تو نہ الجھوں میں دیدہ و دل سے

کہ آپ اپنا ہی جینا محال کر رکھوں
کسے جواب ملا ہے، جواب دے گا کون

سوال کرنا ہے لازم، سوال کر رکھوں
جس پہ اب چلنے کو بیتاب ہے ساری دنیا

جان کر چھوڑ دی اپنی وہ ڈگر ہی میں نے
خواب وخیال وخواہش و خوباں کے خدو خال

اور آس پا س کتنے ہی پیچیدہ تر سوال
کن وسوسوں کے بوجھ سے تو یوں نڈھال ہے

اپنا تجھے خیال نہ میرا خیال ہے
صبح کابوجھ ہے اور شام کی سرشاری ہے

درد کا سلسلہ ۂ ناز یونہی جاری ہے
کون جی پایا ہے شاہینؔ یہاں اپنی طرح

زندگی اصل میں بس ایک اداکاری ہے
اور پھر اس اداکاری سے بدحواس ہو کر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں:
اٹک کر رہ گئی لب پر دعا بھی

نہ تھا آساں خدا سے مانگنا بھی
شاہینؔ کو فطرت فیاض نے طبع موزوں عطا کی ہے اور صلاحیت شعر گوئی بھی۔ وہ شاعری کی تفصیلات و جزویات ، زبان وبیان اور الفاظ ومحاورہ سے واقف ہیں۔البتہ انہوں نے غزل کی روایات سے مکمل احتراز کر کے خود کو جا بجا قافیہ پیمائی تک محدود کر دیا ہے اور معنی آفرینی کے تمام دروازے اپنے اوپر بند کر لئے ہیں۔ ان کی شاعری میں جو کچھ لطف ہے وہ اُن کی چھوٹی بحر کی غزلوں تک محدود ہو کررہ گیا ہے۔ چھوٹی بحر میں کامیاب شاعری کرنا آسان کام نہیں ہے۔ کم الفاظ میں اپنا مطلب اس طرح ادا کرنا کہیں قاری کی انگلی پکڑ کر اس کے آگے لے جانے کی ضرورت نہ پڑے شاعر سے دلسوزی اور محنت کے علاوہ شعر گوئی میں اچھی اور مستحکم استعداد کا طلبگار ہوتا ہے۔ شاہینؔ کی چھوٹی بحر کی اکثر غزلیں دلکش ہیں اوران میں زبان وبیان کی بے ساختگی اور شائستگی اپنے د امن میں قاری کے لئے بہت سامان فکر رکھتی ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجئے:
کوئی باقی نہیں پرسان حال اب

ہم اتنے ہوگئے ہیں محترم کیا ؟
اوڑھ لیتا ہوں، بچھا لیتا ہوں

میرے کاندھے پہ ہے مسکن میرا
خود بڑھا لیتا ہوں مشکل اپنی

مجھ سے عاجز ہے بہت فن میرا
کیوں غم دل کا مداوا چاہئے

پاس اتنا کچھ ہے، اب کیا چاہئے
لا مکاں جیسی ہیں یہ پہنائیاں

اے غم دل ! اور اب کیا چاہئے
اپنی شرطوں پہ جی رہا ہوں میں

اور باقی تمام تہمت ہے
ایک دستار کی حقیقت کیا

شکر کیجئے کہ سر سلامت ہے
دھیان دے پائے تری دھڑکن پر

میر ے دل! کس کو اتنی فرصت ہے
رَت جگے چن رکھے ہیں آنکھوں میں

عمر بھر اک یہی کمائی کی
اپنے ہی آگے ہاتھ پھیلا یا

ہم نے اس طور بھی گدائی کی
اوپر کہا جا چکا ہے کہ شاہینؔ نے غزل کی روایات سے چشم پوشی کر کے اپنے اوپر خیال آفرینی کے بیشتر دروازے بندکر لئے ہیں اور اس نادانی کی اُن کو بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب غزل کے روایتی مضامین سے مطلق چشم پوشی اختیار کی جائے گی تو غزل میں معنی آفرینی کے امکانات اسی نسبت سے کم ہوجائیں گے۔ غور سے دیکھا جائے تو غزل کے روایتی مضامین انسانی زندگی کے ہر گوشے اور ہر تجربے پر حاوی ہیں۔ ان سے کنارہ کشی خود انسانی زندگی کے بیشتر پہلوؤں سے کنارہ کشی کے مترادف ہے۔ غم دنیا،
غم روزگار، غم جاناں، غم زندگی کو چھوڑ دیجئے تو باقی رہ ہی کیا جاتا ہے جس کو شاعری کا موضوع بنایاجا سکے؟ روٹی، کپڑا اور مکان، مزدور اور سرمایہ دار کی کشمکش، معاشرہ کے غریب اور کمزور طبقہ کا اہل ثروت کے ہاتھوں استحصال اور ایسے ہی دوسرے موضوعات نظم کے لئے تو یقیناًموزوں ہیں لیکن غزل کی فطرت ان کو قبول کرنے سے قاصر ہے۔ موضوع سخن کی اس خطرناک کمی کو پورا کرنے کے لئے جدید غزل گو شاعر کو کرتب اور مختلف ’’ٹوٹکوں‘‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے جو کسی طرح بھی اچھی غزل کہنے میں ممد ومعاون نہیں ہو سکتے ہیں۔
قلت مضمون کی اس کمی کوشاہینؔ نے بھی مختلف طریقوں سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب طریقے مل کر قاری کا ذہن کسی اورجانب منتقل کرکے مضامین کی اس کمی کو صرف یک گونہ چھپا سکتے ہیں ۔ ان طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ غزل کے لئے غیر مانوس اور بعض اوقات نہایت مشکل زمینیں (یعنی قافیوں اور ردیف کے مجموعے) استعمال کئے جائیں ۔ مشکل زمین کا استعمال کوئی عیب نہیں ہے۔اچھے کہنہ مشق شاعروں اور مشاہیر کے یہاں بھی مشکل زمینیں بکثرت نظر آتی ہیں۔ اچھے شاعروں اور معمولی شاعروں کے درمیان غیر مانوس یا مشکل زمینوں کے استعمال میں اصل فرق یہ ہے کہ جہاں بڑا شاعر ایسی زمینوں کو کامیابی سے نبھا جاتا ہے وہاں ایک معمولی شاعر صراط مستقیم سے بہ آسانی بھٹک جاتا ہے اور زمین کا حق ادا نہیں کر پاتا ہے۔اگر غزل کی زمین مشکل ہونے کے علاوہ بے معنی، بے ڈول یا عجیب وغریب بھی ہو تو یہ کام مزید مشکل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات مضحکہ خیز صورت اختیار کرلیتا ہے۔ شاہینؔ کی غزلوں میں یہ صورت حال نمایاں ہے۔زمینوں کے انتخاب میں انہوں نے اکثر دانشمندی سے کام نہیں لیا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ دیدہ و دانستہ بے ڈول اور بے لطف زمین منتخب کرتے ہیں۔ خدا معلوم انہیں یہ کیوں نہیں نظر آتا کہ ایسی بے فیض غزلوں کی جانب قاری زمین کی عجیب الخلقتی کے باعث ملتفت توہو سکتا ہے لیکن ایسی غزل اس کے لئے سامان تفنن طبع فراہم کرنے کے علاوہ کوئی اور اچھا تاثر چھوڑنے سے مطلق عاجز وقاصر رہتی ہے۔چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
خزاں کی شام کے منظر کوبھر ڈالا پرندوں نے

افق کو اوربھی تاریک کر ڈالا پرندوں نے
تھکے ہارے جہاں شب بھر بسیرا کرنے آتے تھے

چرندوں کی طرح وہ کھیت چر ڈالا پرندوں نے
یہ کوشش تھی کہ باہم دام کو ہی لے اڑیں لیکن

تنے حلقوں کو اتنے میں کتر ڈالا پرندوں نے
میلے سے جہاں تہاں لگے بھی

برباد گئے وہ رَت جگے بھی
آنکھوں میں سفر کی وہ تھکن تھی

چلتے ہوئے راہ میں ٹگے بھی
تھے لیل و نہار ہی نہ حائل

رستے تھے اور واہگے بھی
بظاہر میر ے ذوق جستجو کو ٹھپ نہیں کرتی

مگر چنچل ہے اتنی بیٹھ کر گپ شپ نہیں کرتی
زباں کے ذائقے پر منحصر ہے کب سرور اپنا

مری پہچان کو رَد چائے کی یہ کپ نہیں کرتی
کبھی جینے کا نشہ بھی بڑھا دیتی ہے تنہائی

یہ اپنے چاہنے والوں سے تولپ جھپ نہیں کرتی
خرابے سے خبر پہنچی ہے یہ جھمری تلیا میں

عجب وحشت ہے اب کے کول کاتا کے جویا میں
زمین کی پیاس ہی شاہینؔ بادل بن کے برسے گی

دراڑیں پڑ گئی ہیں کس قدر اب کے تلیا میں
شاید ایسی شاعری کے لئے ہی کہا گیا ہے کہ : مگر اُن کا کہا وہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے !
جدید غزل کا شاعر قلت مضامین کے ازالہ کے لئے ایک دوسرا ’’ٹوٹکا‘‘ بھی استعمال کرتا ہے یعنی اپنے اشعار میں بے حد ثقیل اور دور از کار الفاظ، تراکیب اور استعاروں کے استعمال سے خلط مبحث کردیتا ہے۔ قاری الفا ظ کی اس بھول بھلیاں میں سرگرداں اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا ہے اورجب اس کے ہاتھ معنی کا گوہر مقصود نہیں آتا ہے تو تو صبر وشکر کر کے خاموش بیٹھ جاتاہے۔ اگر تھوڑا بہت مطلب سمجھ میں آ بھی جائے تو اس کے لئے قاری کو جیسی ذہنی قلابازیاں لگانی پڑتی ہیں ان کا تصور بھی دل خوش کن نہیں ہے۔ اس آزمائش کے بعد اگر اس کی نگاہوں میں غزل کی (اور ساتھ ہی شاعر کی!) قدروقیمت کم ہو جائے توحیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ اچھی شاعری سے تو قاری کو ذہنی فرحت حاصل ہونی چاہئے نہ کہ کوفت اورتکدر۔مندرجہ ذیل اشعار دیکھئے اور خود ہی فیصلہ کر لیجئے:
مغز ہر دانۂ گندم میں ہے برق کشتہ

خاک ہو جائیں گے خرمن سے الجھتے ہوئے لوگ
یہ جادۂ جنوں ، یہ جبل ، یہ جریدہ رَو

جانکاہ جستِ جذب کی جِق جِق اورایک چال
آپس کی بے وفائیاں ، سیمون کابھی دھیان

وہ بوڑھا سارتر تو رہا عمر بھر جوان
اُڑتا ہے تیر بن کے ہوا میں خزاں کے بعد

اک دق زدہ پرند کی ہجرت ہی کتنی ہے
اس کارگاہ شیشہ و آہن خصال کو

میرے خیال کا جسد عنصری پڑھو
کوئی سمجھاؤ کہ ہم سمجھائیں کیا ؟
مرزا غالبؔ ؔ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’شاعری قافیہ پیمائی نہیں معنی آفرینی کا نام ہے‘‘ گویا معنی آفرینی کے بغیر شعر ایک کار ثواب تو ہو سکتا ہے لیکن شعرکہلانے کا مستحق نہیں رہ جاتا ہے۔ چنانچہ جب شاعر اس بیش بہانکتہ سے نا آشنا ہوتا ہے یا آشنا ہوتے ہوئے بھی جدیدیت کی عاقبت نا اندیش شہہ پر اس سے چشم پوشی اختیار کر لیتا ہے تو اس کا کلام معنی آفرینی سے یکسر محروم ہوجاتا ہے اورمحض قافیہ پیمائی بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی غزل کو قاری کے لئے ایک معمہ یا بھول بھلیاں بنتے دیر نہیں لگتی ہے۔ منشی برج نارائن چکبستؔ لکھنوی نے شاعری کی تعریف یوں کی ہے :
شاعری کیا ہے؟ دلی جذبات کا اظہار ہے

دل اگر بیکار ہے تو شاعری بیکار ہے
دلی جذبات کا یہ اظہار اگر دوسروں تک نہ پہنچے تو شاعری کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔شاعر کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنا مافی الضمیر قاری تک موثر پیرائے میں پہنچا دے ورنہ اس کا شعر کہنا یا نہ کہنا برابر ہے۔ ایسی زبان یا بیان، ایسی تشبیہات واستعارات اور ایسی ہیئت وبنت جو قاری کے سر پر سے گزر جائیں شاعر اور قاری دونوں کے لئے بیسود اور بے فیض ہیں۔یہ تو یقیناًضروری نہیں ہے کہ کسی شعرمیں شاعر جوکچھ اپنے طورپر کہے وہ ہو بہو قاری پر بھی منکشف ہو جائے۔ لیکن یہ یقیناًضروری ہے کہ شعر پڑھ کرقاری پر ا س کاایک مناسب اور
پر لطف مطلب ظاہر و واضح ہو۔ بصورت دیگر شاعر کواپنے ہر شعر کے ساتھ ایک وضاحتی حاشیہ لگانا پڑے گا تاکہ اس کی بات سمجھی جا سکے۔ ظاہر ہے کہ ایسی شاعری تحصیل لا حاصل کے مترادف ہوگی اور اس سے احتراز ہی بہتر ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھئے اور خود ہی فیصلہ کیجئے کہ شاہینؔ کی غزل کے ایک معمہ بننے میں کیا کسر رہ گئی ہے:
تنہائی میں یہ تیرہ شبی آٹھ پہر کی

یہ نظم قفس ہے کہ کھلے بادریہ کم
گہن میں ہے ابھی شاہینؔ سورج

پناہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں سائے
ورد اناالحق ہو کہ ’’شبوہم‘‘

ہم ہیں اپنے وجود کا ایندھن
غالب پیکر حیرت و حسرت

آہن دل ہر ایک فرنگن
ساحل پہ کوئی غول نہ اس پر جھپٹ پڑے

ڈھونڈا ہے جو خزینہ تہِ آب باندھ لیں
ملک شمال میں ہے اک ہم قبیلہ اپنا

یوشیج نے کہا تھا اک دن توللّی سے
یہ معمہ آسانی سے حل نہیں ہوتا ہے اورنہ ہی ہو سکتا ہے۔غز ل کو اس کی روایتوں سے کھینچ کر الگ کرنے کی کوشش شاعرکو اس منزل پر پہنچا دیتی ہے جہاں اس کے لئے اپنے کلام کو زمینی یا عوامی بنانا لازمی ہو جاتا ہے۔غزل اب ہاتھ پیر ڈال دیتی ہے ، قافیہ پیمائی اور معمولی شاعری کی چوکی سے بھی اُتر جاتی ہے اورانتہائی مایوسی کے عالم میں سرجھکا کر’’تک بندی‘‘ کے لبادے میں منھ چھپا نے پر مجبورہوجاتی ہے۔ اگردرج ذیل اشعارکوتک بندی نہ کہا جائے تو پھر کس لقب سے ان شہ پاروں کونواز ا جائے؟
قمقموں کے بجھتے ہی ملگجی نگاہوں سے

اپنے ہر پڑوسی کو تولتی ہیں دیواریں
مقابل دھوپ کے ہے برف کی سل

کشا کش میں ہے لکڑی کا برادہ
چائے میں گھول کے پی جاؤں میں دیوان ترا

لاکھ الہام ہو، الہام میں کیا رکھا ہے
احوال چھپاتے ہیں کیا جانئے کیا جی کا

چہرے سے بڑی عینک، ماتھے سے بڑا ٹیکا
اب عمر کے خیمے میں پیوند ہی لگتے ہیں

صحرائے عرب ہو یا بازی گہ امریکا
جنگل میں ہوں شاید ہم کچھ کم ہی سراسیمہ

شہروں میں تو نافذ ہے قانون سفاری کا
؂؂سایہ مرا بھاری تھا بدن سے بھی زیادہ

باہر نکل آیا دل صد چاک سے پیوند
اٹھا کے آپ ہی طوفاں درود پڑھتی ہے

جنم جلی! تجھے کچے گھڑے کی چڑھتی ہے
پنکھ پھیلائے ہوئے صورت فردا سرشام

اک پرندہ نکل آیا تھا بدن سے باہر
شاہینؔ کے یہاں وزن کی غلطیاں بھی کافی تعداد میں ملتی ہیں۔ علم عروض شعر گوئی کے لئے مطلق ضروری نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شعرا کی ایک عظیم اکثریت علم عروض سے قطعی بے بہرہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی ذوق سلیم اورموزونئ طبع کو بروئے کار لا کر اچھے اور فنی اعتبار سے صحیح شعرکہنے پر قدرت رکھتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جو شاعر اس علم سے نا واقف ہوتاہے وہ نہ تو دوسروں کے کلام پر علم افزا تنقید یا اصلاح کر سکتا ہے اور نہ ہی خود اپنی شاعری کی عروضی خامیوں کی شناخت اور اصلاح پر قادر ہوتا ہے۔علم عروض ایک خشک اور محنت طلب علم ضرور ہے لیکن ایسا مشکل ہرگز نہیں ہے کہ محنت او ر وقت لگا کر اس سے مناسب واقفیت حاصل نہ کی جا سکے۔ جو لوگ اچھی اور صحیح شاعری کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے علم عروض سے واقف ہونا ضروری ہے۔ شاہینؔ کے کلام کے سرسری مطالعہ سے یہ ظاہر ہے کہ موصوف علم عروض سے نا واقف ہیں حتیٰ کہ وہ وزن اوربحر کے رموز سے بھی بے بہرہ ہیں۔ قدرت فیاض نے انہیں ذوق سلیم اور طبع موزوں سے نوازا ہے چنانچہ وہ اٹکل سے ہی شعرکہہ لیتے ہیں۔ ا س صورت میں بہر کیف قدم قدم پر لغزش کا امکان تو رہتا ہی ہے لہٰذہ شاہینؔ بھی وزن کی بہت سی ایسی غلطیاں کرتے ہیں جو عروض پر ذرا سی دسترس سے بہ آسانی دور کی جا سکتی تھیں۔ ان غلطیوں سے موصوف کی شاعرانہ حیثیت مجروح ہوتی ہے اوران کاکلام پایۂ اعتبار سے گرجاتا ہے۔مثال کے طور پر یہاں ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘دو غزلوں کے اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔
دل کو عجب بیمار ی ہو گئی

مفت میں اپنی خواری ہو گئی
کیا ہی سبک زنجیر تھی رقص میں

بیٹھ گئے تو بھاری ہو گئی
وہ تحریر جو تیری نذر تھی

آج وہی دیواری ہو گئی
اپنے غیض و غضب کو دیکھ کے

وحشت خود پہ طاری ہو گئی
اس غزل کا وزن فعلُ فعولُ فعلُن فعلُن ہے۔ تقطیع سے ظاہر ہے کہ مطلع کے علاوہ دئے گئے اشعار ساقط الوزن ہیں۔
دن چھوٹا اور رات بڑی ہے

مہلت کم اور شرط کڑی ہے
دل میں چبھن ہے لیکن ہاتھ میں

نازک سی پھولوں کی چھڑی ہے
ایک دیا شاہینؔ ہے طاق میں

اور سرہانے رات کھڑی ہے
اس غزل کا وزن فعلُن فعلُن فاع فعولُن ہے ۔یہاں بھی مطلع کے علاوہ باقی دونوں شعرساقط الوزن ہیں۔ ایسی متعدد مثالیں شاہینؔ کے کلام سے دی جا سکتی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ وزن کی بیشتر اغلاط الفاظ کی معمولی سی ہیر پھیر سے درست کی جا سکتی ہیں بشرطیکہ شاعر کو عروض کا علم ہو۔
شاہینؔ نے ایک نئی صنف سخن ’’آزادغزل‘‘ بھی پیش کی ہے ۔ آزاد نظم سے تو اہل اردو واقف ہیں لیکن آزاد غزل کا نام آج سے قبل سننے میں نہیں آیا تھا۔ شعر وادب میں اجتہاد ایک خو ش آئندبات ہے اور ہر نئی چیز کا استقبال کرنا نیز اس کے اصول وجزویات سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے حسن وقبح پر با معنی اور سنجیدہ گفتگو کی جا سکے۔ اگر شاہینؔ آزاد غزل کی بنیادی ہیئت اور بنت کے اصول و جزویات پر روشنی ڈال سکیں تو بہت اچھا ہوگا۔موصوف نے آزاد غزل کے ہر شعر میں مختلف اوزان کے دو مصرعے باندھے ہیں اورروایتی غزل کی طرح ردیف اور قافیہ کی پابندی بھی کی ہے۔ غزل کا مطلع ، ایک شعر اور مقطع یہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔
پتھر دن میں لحظہ لحظہ آگ سی چمکی ہے اور آگے رات ستم کی ہے
بھیگی ہوئی شبنم پلکوں سے دن کی جانب لوٹ گئی رات نے حجت کم کی ہے
جان بڑی الجھن میں تھی سو دل ہی رَن میں کام آیا شکر کا یہ موقع ہے اور شاہینؔ گھڑی ماتم کی ہے ان تین اشعار کی تقطیع حسب ذیل ہے۔ شاہینؔ تقطیع کی روشنی میں ممکن ہے کوئی تبدیلی کرنا چاہیں اور آزاد غزل کے اصول اور مقتضیات پر ہماری رہنمائی کریں۔ عروض کے لئے وہ کسی صاحب علم سے مددلے سکتے ہیں۔
(۱) پت تر (فعلن)، دن مے (فعلن)، لح ظہ (فعلن)، لح ظہ (فعلن) ، آگ (فاع)، س چم کی (فعولن)، ہے (فع)
اَو (فع)، راگے (فعلن)، رات (فاع)، س تم کی (فعولن)، ہے (فع)
(۲) بی گِ (فعلُ)، ہ ئی شب (فعولن)، نم پل (فعلن)، کو سے (فعلن)، دن کی (فعلن)، جانب (فعلن)، لوٹ (فاع)
گ ئی (فعَل)
رات (فاع)، ن حج جت (فعولن)، کم کی (فعلن)، ہے (فع)
(۳) جان (فاع)، بڑی ال(فعولن)، جن مے (فعلن)، تی سو (فعلن)، دل ہی(فعلن)، رن مے (فعلن)، ؂ کاما(فعلن)، یا (فع)
شک ر(فاع)، ک یے مو(فعولن)، قع بے (فعلن)، اُر شا (فعلن)، ہی ن (فاع)، گ ڑی ما(فعولن)، تم کی (فعلن)، ہے (فع)
آخر میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ شاہینؔ کے کلام میں ترقئ معکوس کی صورت نظر آتی ہے ۔ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر شاعرکا کلام زیادہ پختہ ،بلند اور بہتر ہوتا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جیسے جیسے شاعر کا مطالعہ ، تجربہ، علم اور مشق سخن میں پیش رفت اور ترقی بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے اس کی شاعری کی پختگی ، بہتری اور نکھار میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنا کلام اشاعت کے لئے مرتب کرتے وقت اکثر وبیشتر شعرا اپنے ابتدائی کلام کو نظرانداز کردیتے ہیں تاکہ اس کی کمزوری اور نیم پختگی سے کتاب کا معیار اور رنگ مجروح نہ ہو۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ نہ صرف شاہینؔ کے پہلے مجموعۂ غزلیات ’’دہلیز پر پھول ‘‘( مطبوعہ ۲۰۰۵ء) کا شعری معیار اُن کی دوسری کتاب ’’کھلا دروازہ‘‘( مطبوعہ ۲۰۰۹ء) کے معیار سے بلند اور بہتر ہے بلکہ عروضی اور فننی غلطیاں بھی پہلی کتاب میں دوسری کتاب کے مقابلہ میں کم ہیں۔ اس معمہ کو شاہینؔ خود ہی حل کر سکتے ہیں!
ولی عالم شاہینؔ کی غزلیہ شاعری کے مطالعہ اور تجزیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے غزل کے روایتی مضامین سے چشم پوشی اختیار کر کے اپنے اوپر موضوعات کا ایک وسیع میدان بند کر لیا ہے۔ اسکی وجہ سے ان کی شاعری بہت تنگ حدود میں محصور ہو گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کیا جائے تاکہ شعر گوئی میں وسعت اور تنوع پیدا ہو۔ ساتھ ہی ان کو چاہئے کہ علم عروض کی بنیادی باتوں سے واقفیت حاصل کریں تاکہ وزن کی وہ معمولی غلطیاں آئندہ نہ ہوں جو اس وقت اُن کے کلام میں نظر آتی ہیں۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ شاہینؔ کی غزل پر اُن تبصروں کو کیا کہا جائے جو اِس مضمون کے شروع میں دئے گئے ہیں؟ ا س سے انکارممکن نہیں ہے کہ تبصرہ نگار ادیبوں نے شاہینؔ کی غزل کا بغور مطالعہ نہیں کیا ہے ورنہ وہ ایسی بے فیض رائے نہ دیتے۔ ان کی رائے ذاتی تعلقات،سفارش، مروت یا شاعر کی ہمت افزائی کی خواہش کی مرہون منت معلوم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم ان بلند مرتبہ ادیبوں کی رائے کو ایسی تحریر سے توتعبیر نہیں کر سکتے ہیں جس کو مشہور مزاح نگار شفیق الرحمن نے ’’محض کتاب سونگھ کر تبصرہ لکھنا‘‘ کہا ہے !
طے کر چکا ہوں راہ محبت کے مرحلے
اس سے زیادہ حاجت شرح وبیاں نہیں
(رازؔ چاندپوری)

A Review on Ghazal poetry of Wali Alam Shaheen. Reviewer: Sarwar Alam Raaz Sarwar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں