غیر بی جے پی اقتدار کی ریاستوں سے انصاف کیا جائے - اسدالدین اویسی کا انٹرویو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-18

غیر بی جے پی اقتدار کی ریاستوں سے انصاف کیا جائے - اسدالدین اویسی کا انٹرویو

حیدرآباد
اعتماد نیوز
صدر کل ہندمجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کی تمام غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے ساتھ انصاف کرے۔ ان ریاستوں کی ترقی کے لئے درکار فنڈ جاری کرے ۔ انہوں نے آندھرا پردیش تنظیم جدید ایکٹ 2014کے تحت ریاست تلنگانہ اور آندھرا پردیش سے کئے گئے وعدوں کو روبہ عمل لانے کا بھی مطالبہ کیا۔ ایک قومی ٹیلی ویژن نیوز چیانل کے نمائندوں کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے بیرسٹر اویسی نے کہا کہ حکومت ہندکا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ کسی سیاسی امتیازات کے خلاف تمام ریاستوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرے اور جو ریاستیں پسماندہ ہیں ان کے ساتھ فراخدلی کا مظاہرہ کرے ۔ تلنگانہ ریاست میں بر سراقتدار ٹی آر ایس پارٹی کے بی جے پی کے ساتھ امکانی اتحاد سے متعلق سوال پر انہوں نے راست تبصرہ سے انکار کیا۔ تاہم یہ واضح کیا کہ مجلس اتحاد المسلمین ہمیشہ سے بی جے پی کی مخالف رہی ہے اور مخالف رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ عام انتخابات میں تلگو دیشم اور بی جے پی کے درمیان اتحاد رہا ۔ مجلس نے اس اتحاد کی پرزور مخالفت کی تھی۔ یہی نہیں اس سے قبل بھی متحدہ آندھرا پردیش میں بی جے پی کی حلیف بنی رہی تلگو دیشم پارٹی کو انتخابی شکست دلانے میں مجلس نے سرگرم رول ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سیکولر جماعت بی جے پی کے ساتھ مفاہمت کرتی ہے تب مجلس اس وقت کھل کر اپنا موقف واضح کرے گی ۔ محض قیاس آرائیوں کو بنیاد بناکر وہ کوئی رائے دینا نہیں چاہتے ۔ حسین ساگر جھیل کی صفائی سے متعلق چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے منصوبے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ کوئی فنی ماہر نہیں ہیں جو اس خصوص میں اپنی تجاویز دے سکیں تاہم ان کا یہ ماننا ہے کہ حسین ساگر کی صفائی کے لئے سب سے پہلے اس میں گرنے والے صنعتی فضلہ کو روکا جائے ۔ کس طرح صفائی کی جانی چاہئے، ماہرین بہتر رائے دے سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس جھیل کو ہر سال بڑے پیمانے پر آلودہ کیاجاتا ہے اور ہر سال عدالت اس جھیل کی صفاءئی اور حفاظت کے لئے حکومت کو احکامات دیتی ہے ۔ لیکن حکومت اس جھیل کی صفائی اور حفاظت کے لئے درکار اقدامات کرنے سے قاصر ہے ۔ شہر حیدرآباد میں بہار سے تعلق رکھنے والے بچہ مزدوروں کی رہائی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچہ مزدوری قانوناً جرم ہے ۔ کسی بھی طرح وہ بچہ مزدوری کی تائید نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً300سے زائد بہاری بچوں کو نکالا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر حیدرآباد اس کے اطراف واکناف کے علاقوں میں بہار سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بچے مختلف صنعتی و تجارتی یونٹس میں کام کررہے ہیں لیکن صرف چوڑیاں بنانے والے یونٹس سے ہی ان بچوں کو نکالا گیاہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جہاں جہاں یہ بچے کام کررہے ہیں انہیں وہاں سے آزاد کیاجائے ۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے حقوق سے متعلق کئی رضاکارانہ تنظیمیں و ادارے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ان رضاکارانہ تنظیموں و اداروں کے ذمہ داروں سے کہا کہ وہ ریاست بہار کا دورہ کریں ۔ وہاں بڑے پیمانے پر عوامی بیداری شعور کیمپس منعقد کریں ۔ جن بچوں کو بازیاب کیا گیا ہے ان کے والدین سے گفتگو کریں ۔ ان بچوں کے مستقبل اور ان بچوں پر پلنے والے خاندانوں کی بہبود کے لئے وسائل تلاش کریں ۔ بیرسٹراویسی جو21فروری کو بنگلور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، ان کے جلسہ کو روکنے کی کوششوں کی اطلاعات پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک میں کانگریس برسر اقتدار ہے ۔ کانگریس پر ان سے ایک خوف طاری ہے ۔ اس لئے ان کے جلسوں کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ وہ عوام سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ تب انہیں دفعہ144کے تحت پولیس کے ذریعہ نوٹس دی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان پر اشتعال انگیز تقاریر کا جھوٹا الزام لگایاجارہاہے ۔انہوں نے یا ددلایا کہ مہاراشٹرا سمبلی انتخابات کے دوران تقریباً40بڑے جلسوں وریالیوں سے انہوں نے خطاب کیا۔ ان کے خلاف کہیں بھی ایک چھوٹا سا کیس بھی درج نہیں کیا گیا۔ حتی کہ ان کے کٹر مخالفین سیاسی جماعتوں نے بھی ان پر مختلف الزامات لگاتے رہے ہیں نے الیکشن کمیشن یا پولیس کو ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں کی ۔ پولیس یہ تیقن حاصل کرنا چاہتی ہے کہ وہ کوئی اشتعال انگیز تقریر نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہی پیمانہ ہو تو کانگریس، بی جے پی اور دیگر قائدین سے بھی ایسا ہی تیقن حاصل کریں کہ وہ کوئی جلسہ عام یا ریالی میں شرکت کے وقت کوئی اشتعال انگیز تقریر نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ امتیاز صرف ان ہی سے کیوں کیاجارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بنگلور میں ان کے جلسہ کی اجازت کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیاہے اور انہیں امید ہے کہ انہیں بنگلور میں جلسہ کرنے کی اجازت حاصل ہوگی ۔ بنگلور پولیس کے اس استدلال پر کہ وشوا ہندو پریشد کے قائدین پراوین توگڑیا کو اجازت نہیں دی گئی اس لئے انہیں(بیرسٹر اویسی) کو بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ صدر مجلس نے پراوین گوڑیا سے ان کا تقابل کرنے پر سخت اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک رکن پارلیمنٹ ہیں اور ایک سیاسی جماعت کے صدر ہیں اور وہ ملک کے دستور پر عمل کرتے ہیں ۔ وہ عوام اور قانون کو جوابدہ ہیں جب کہ پراوین توگڑیا نہ کوئی سیاسی قائد ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت سے ان کا تعلق ہے اور نہ وہ کسی عوام کو جوابدہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پراوین توگڑیا بائیں بازو نظریات پر ایقان رکھتے ہیں جبکہ وہ دستور ہند پر پورا ایقان رکھتے ہوئے ملک کی مذہبی رواداری ،متنوع کلچر کے حامی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں جلسوں سے خطاب کرنے سے روکنا آزادی اظہار خیال کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں