دلی کی کہانی - اعداد و شمار کی زبانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-06

دلی کی کہانی - اعداد و شمار کی زبانی

delhi
باشندگانِ دہلی کی حفاظت دلی پولس کی اولین ترجیح ہے پھربھی گزشتہ سال ہر چار گھنٹے کے درمیان دارالحکومت دہلی میں آبروریزی کی ایک شکایت درج کی گئی۔دلی پولس کے کمشنرکی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمارکوپیمانہ بناتے ہوئے ذرائع ابلاغ میں جو خبریںآئی ہیں اور اُن سے دہلی کی جو تصویر اُبھرتی ہے،وہ ہمیں رسوا کرنے کیلئے کافی ہے۔گویاان خبروں کو پڑھنے کے بعدمجھ جیسا کم فہم یہی نتیجہ اخذکرنے پر مجبورہوگاکہ اب دلی دل والوں کے رہنے کی جگہ ہو یا نہ ہوالبتہ ہر گھنٹہ آبرولٹانے والی جگہ ضروربن گئی ہے، جہاں اب سر عام آبروؤں کالٹ جانابڑی خبر نہیں بن سکتی،لیکن کسی گھنٹہ کے دوران آبروکاسلامت رہ جانا بہت بڑی خبرہوسکتی ہے۔جبھی تو2014میں ہر 4گھنٹہ کے درمیان ایک بنت حواکو پولس میں یہ شکایت درج کرنے کا حوصلہ کرنا پڑ گیاکہ بری نظر ڈالنے والوں نے اُن کی عصمت تار تار کر دی جبکہ کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ ہر گھنٹہ آبروریزی کی ایسی کتنی واردات رونماہوئیں،جن کی رپورٹ مخصوص اسباب کی بناء پردرج ہی نہیں کرائی گئی۔ 2013 میں آبروریزی کے کل1571معاملے درج ہوئے تھے، جو 2014 میں بڑھ کر2,069ہو گئے۔ پولس کمشنر نے چونکہ خود ہی یہ اعداد و شمار جاری کئے ہیں،اس لئے ان کی صحت پر سوال کھڑاکرنے کی گنجائش نہیں نکلتی۔البتہ یہ سوال ضرور کھڑا ہوجاتا ہے کہ آبروریزی کے واقعات میںیہ اضافہ کیوں ہو رہاہے؟ حالانکہ پولس کمشنریہ بتانا نہیں بھولتے کہ لڑکیوںیا مستورات سے متعلق چھیڑ چھاڑکے 68 فیصد مقدمات میں پولس نے ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن یہ سوال بھی غیر فطری نہیں کہ آبروریزی کے ساتھ ہی ساتھ عورتوں پر بری نظر ڈالنے اور ان کے ساتھ بدتہذیبی کا مظاہرہ کرنے کے معاملہ میں بھی دہلی والوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران زیادہ فراخ دلی دکھائی ہے۔پولس کمشنرکے ذریعہ جاری اعدادوشمارکے مطابق 2014 میں چھیڑ چھاڑ کے 4179 معاملے درج کئے گئے جبکہ اس سے قبل 2013 میں اس طرح کی 3345 شکایات درج کی گئی تھیں۔
دہلی کو جرائم کی دنیا کی بھی راجدھانی قرار دینے والوں کے مطابق سال 2014 میں سنگین مجرمانہ واردات میں بھی چونکہ دہلی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے لہٰذایہ کہناغلط نہ ہوگاکہ دہلی میں جان و مال و عزت و آبرو کی حفاظت سبھی کچھ ایک طرح داؤں پر ہے۔سال 2013 میں جہاں پوری دہلی میں 80,184 کیس درج ہوئے تھے، وہیں 2014 میں1,47,230مقدمات درج کئے گئے۔یعنی یوں سمجھئے کہ دہلی میں پچھلے ایک سال کے دوران 1,47,230لوگوں نے مقدمات درج کرانے میں کامیابی حاصل کی۔دہلی میں مجموعی طور پرتقریباًایک کروڑ70لاکھ لوگ آباد ہیں۔جو مقدمات گزشتہ ایک سال کے دوران درج کئے گئے ہیں،وہ اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کہ اوسطاً دہلی کے11.65فیصد لوگوں نے دہلی میں جرائم سے متعلقہ شکایات درج کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں یہ تذکرہ غیر ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی شکایت ایک سال کی مدت میں درج کی گئی۔ جبکہ پولیس کی نفسیات پرگہری نظر رکھنے والے لوگوں کامانناہے کہ دلی پولیس اگرعوام دوست طریقہ اختیارکرلے،دھونس اوردھمکیوں کاسہارالینابندکردے اورشکایات درج کرانے کے خواہاں افراد کے تعلق سے شفقت اور حلیمی کا مظاہرہ کرنے لگ جائے تومقدمات درج ہونے کی شرح کم از کم تین گنی بڑھ جائے گی۔ دلی پولیس کی نفسیات کا جائزہ لینے والے کچھ لوگوں کایہ بھی مانناہے کہ دہلی میں مختلف نوعیت کے جرائم سے متعلقہ شکایت کنندگان جب تھانوں کارخ کرتے ہیں توعمومی حالات میں ہرتین میں سے ایک ہی شکایت کنندہ کی شکایت درج ہوپاتی ہے۔ جبکہ ہر تین میں سے دو شکایت کنندگان اس وجہ سے رپورٹ درج کرانے میں ناکام ہوجاتے ہیں کیونکہ پولیس کارویہ ناشائستہ ہواکرتاہے۔یہ بھی بتایاجاتاہے کہ شکایت درج کرنے کیلئے جب لوگ تھانوں کارخ کرتے ہیں توان سے رشوت بھی طلب کی جاتی ہے اوربعض اوقات جن کے خلاف لوگ شکایات درج کرانا چاہتے ہیں ، پولس کا رویہ ان کے دفاع کابھی ہوتاہے ۔نتیجتاًایک اندازہ کے مطابق ہرتین میں سے دوشخص پولیس چوکیوں اورتھانوں سے نامراد لوٹتاہے۔ اگر اس خیال کو درست تصورکرلیاجائے تو اس کا واضح مطلب یہ نکالاجاسکتاہے کہ 2014میں اوسطاً تین لاکھ لوگوں کو پولس کے رویہ کی وجہ سے شکایات در ج کرانے میں کامیابی نہیں مل سکی جبکہ تقریباًڈیڑھ لاکھ لوگ ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب ہوئے۔ جرائم کی رپورٹوں پرنگاہ رکھنے والے صحافیوں کاخیال ہے کہ دہلی واقعی کرائم کی راجدھانی ہے۔ ان کی دلیل یہ بھی ہے کہ دلی پولس نے جواعدادوشمار جاری کئے ہیں، صرف اس کو بنیادبناکر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسے لوگوں کوبھی اسی زمرہ میں لا ناضروری ہے، جنہوں نے مختلف معاملات ومسائل کے تعلق سے شاکی ہونے کے باوجود پولیس میں شکایت درج کرانے کابوجہ خاص فیصلہ نہیں لیایا جنہیں کسی وجہ سے مقدمات درج کرانے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ اس نظریے کو بھی کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ دہلی میں گزشتہ ایک سال کے دوران آبروریزی کے 2,069مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ جبکہ عمومی طورپر یہ خیال پایاجاتاہے کہ آبروریزی کے مقدمات درج کرانے کے معاملے میں ہندوستانی معاشرہ کی سوچ کچھ مختلف ہے۔ اتفاقی طورپر آبرو پرحملہ کے معاملوں میں خواتین یہ سوچ کر پولس میں شکایت درج کرانے سے گریز کرتی ہیں کہ ایک تو ان کی عصمت تارتارکی گئی جس سے انہیں شدید صدمہ پہنچااور اب اگر وہ اس سلسلے کی شکایات لے کر پولیس اسٹیشنوں کاچکرلگائیں گی تو معاشرتی سطح پرمزید ان کی عزت وناموس خاک میں مل جائے گی ۔ چنانچہ بہت سی خواتین ایسے معاملوں میں خاموش رہنا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں۔ ماہرین نفسیات اس ضمن میں کیاکہتے ہیں ،پولیس کا موقف اس حوالے کیا ہے ، دہلی والے اس تعلق سے کیانظریہ رکھتے ہیں؟ ان نکتوں کوبحث کاموضوع بنایاجائے یانہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں ۔ معاشرتی مزاج وانداز اورطریقہ کار پر نگاہ رکھنے والے لوگوں کے اس خیال کو بہرحال نظراندازکرنے کی گنجائش نہیں نکلتی کہ جرائم کے تعلق سے خصوصاً جنسی تشدد کے معاملے میں جو مقدمات درج کئے جاتے ہیں،وہ صحیح صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے ۔ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو جنسی تشدد کے معاملے میں معاشرتی رویوں کو سامنے رکھ کر پولیس میں شکایات درج کرنے سے گریز کرتے ہیں ،یہ ایک مسلمہ بلکہ ناقابل تردید سچائی ہے ۔ چنانچہ دلی پولیس کی جانب سے درج کئے گئے آبروریزی کے بحیثیت مجموعی 2,069درج مقامات کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ نہیں نکالاجاسکتاکہ دہلی میں ہر چار گھنٹہ پر صرف ایک صنف نازک کی آبرولوٹی گئی بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ ہر چار گھنٹہ پر آبروؤں کے لٹنے سے متعلق صرف ایک مقدمہ درج کیاگیا ۔ ان درج مقدمات کو دیکھنے کے بعد ہرکوئی یہ اندازہ لگاسکتاہے کہ دہلی جیسے شہر میں صنف نازک کی آبروکتنی سلامت ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ حکومت سے لے کر پولیس تک اس بات کیلئے کوشاں ہے کہ دہلی کو ہرلحاظ سے محفوظ شہر قراردلایاجائے۔ یہ صورتحال ارباب اقتدار کیلئے بھی دعوت محاسبہ ہے اورمحکمہ پولس سے وابستہ افراد کیلئے بھی دعوت غوروفکر کہ وہ مذکورہ اعداد وشمارکی روشنی میں یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ کیا دہلی کوخواتین کیلئے محفوظ ومامون شہرقراردلانے کی جوکوشش کی جارہی ہے، وہ درست سمت میںآگے بڑھ بھی رہی ہے آیانہیں۔ پولس میں درج مقدمات کی شرح میں خاطرخواہ اضافہ کو دیکھنے کے بعد بادی النظر میں یہ پیغام ابھرتاہے کہ تمام ترکوششوں کے باوجود صنف نازک کو تشدد سے نجات دلانے میں کمی کے بجائے اضافہ ہواہے۔2013میںآبرو ریزی کے 1571مقدمات درج کئے گئے تھے جبکہ 2014 میں ایسے مقدموں کی تعدادبڑھ کر 2,069ہوگئی۔ یعنی شکایت درج ہونے کے لحاظ سے تقریباً پانچ ہزار کااضافہ پہلی نظر میں ہی یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔ پولیس کمشنر کی اس دلیل کو حق بجانب قرار دیاجائے یانہیں کہ مقدمات درج کرانے کے معاملوں میں بیداری آئی ہے اوراسی وجہ سے تعداد میں یہ اضافہ دیکھاجارہاہے،کہاں تک درست ہے؟یہ نہیں کہاجاسکتا۔ بحیثیت مجموعی پولس کے ذریعہ جاری ہونے والے اعدادوشمار کودہلی کاایک آئینہ تصور کیاجاسکتاہے ۔اس آئینہ میں باہر کے لوگ بھی دہلی کامجرمانہ چہرہ بآسانی دیکھ سکتے ہیں، جہاں ہر چار گھنٹہ میں ایک خاتون کی آبرو کو دہلی میں بودوباش اختیارکرنے والے بھیڑیے اپناشکاربناتے ہیں۔ دہلی کے تقریباً 11.65فیصد عوام اگر اپنی شکایت تھانوں میں درج کرانے میں آج بھی کامیاب ہیں تواندازہ لگایاجاسکتاہے کہ بھاگتی دوڑتی دلی کا حال کیا ہے اور یہ بھی کہ یہاں کا نظام کس طرح چرمرا کر رہ گیاہے۔کسی بھی آبادی کااگر11.65فیصدطبقہ تھانوں کے چکر لگاتا نظر آئے یااُسے ایف آئی آر درج کرانے میں کامیابی مل جائے تو اُس معاشرہ کی حقیقی صورتحال کااندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ دلی پولیس کل تک’’ ستیہ میو جیتے‘‘کانعرہ بلند کرتی رہی تھی لیکن اس نے حال کے دنوں میں اپنا چہرہ تبدیل کرتے ہوئے ’’ستیہ میو جیتے‘‘ کی جگہ ’’امن،خدمت اورانصاف ‘‘کو اپناکلید سمجھ لیا ہے۔ نعرہ خوبصورت ضرور ہے کہ دلی پولس دہلی والوں کو پرامن زندگی گزارنے کا موقع دیناچاہتی ہے ،وہ پولس جس سے لوگ کل تک خوفزدہ دکھائی دیتے تھے ،ظاہری لحاظ سے خدمت کے جذبہ سے بھی معمور ہے اور انصاف کی بالادستی میں بھی یقین بھی رکھتی ہے ۔ نعروں کی تبدیلی سے دہلی والوں کی زندگی کس حد تک تبدیل ہوئی ہے؟ اس پر کسی تلخ وتند تبصرے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کیونکہ پولس کمشنر نے خود ہی2014کی تفصیلات کو منظرعام پر لاکر یہ بتادیا ہے کہ دلی پولس کی ترجیحات میں تبدیلی کے باوجود عمومی سطح پر رویوں میں کیاتبدیلی آئی ہے۔ امن کسی بھی ملک ،ریاست یا خطۂ ارض کیلئے ترقی کی کلید ہے۔ دہلی میں امن وآشتی کا ماحول حال کے دنوں میں کس طرح خراب ہوا ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ دہلی کے پولس کمشنر نے امن کے ماحول کو خرا ب کرنے کے حوالے سے درج ہونے والے مقدمات کی تفصیل جاری کردی ہے جس کی روشنی میں یہ اندازہ لگایاجا سکتاہے کہ دہلی میں نقض امن کی کیسی کیسی کوششیں کہاں کہاں جاری رہیں اور ان سے دہلی والوں کو کتنی اذیتیں پہنچیں۔جہاں تک دلی پولیس کو کمیونٹی پولس میں تبدیل کرنے کا تعلق ہے تویہ کہنے میں کوئی ہچک نہیں کہ آج بھی دلی پولس ’’باادب‘‘ نہیں بن سکی ہے۔ اگر اس خیال سے کسی کو اتفاق نہ ہوتو وہ خود دلی پولس سے راہ ورسم بڑھاکر یا پولس چوکیوں کی خاک چھان کر حقیقی صورتحال کاادراک کرسکتاہے اور یہ نتیجہ اخذکرسکتا ہے کہ دلی پولس اورشرافت میں بعدالمشرقین کااحساس اب بھی باقی ہے یانہیں۔ پولیس کامحکمہ یوں ہی بدنام نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ پولس کے اہلکار اورجوان آج بھی اعلانیہ طورپر اپنی بدتمیزی اور بیہودگی کا مظاہرہ کرتے دہلی کی سڑکوں پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ دلی پولس عوام کو’’ عوام دوست ‘‘خدمات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ جہاں تک انصاف کی فراہمی یاانصاف کی بالادستی کا تعلق ہے تویہ کہاجاسکتاہے کہ جب تک پولس اپنے آپ کو مزاجاً تبدیل نہیں کرے گی ،انصاف کو مقدم ٹھہرانا ممکن نہیں ہوسکے گا۔
دہلی کی مجرمانہ تصویر کوبے نقاب کرنے والی مذکور ہ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد کئی ایسے سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں جن کا جواب تلاش کیاجاناضروری ہے ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جس معاشرہ میں ہم زندگی گزاررہے ہیں،وہاں امن وقانون کا خوف پایا جاتاہے یانہیں ۔ پولیس کانظام خواہ کسی قدر مضبوط کیوں نہ ہوجب تک عوام میں قانون کا خوف نہیں رہے گاجرائم کی واردات متواتر ہوتے ہی رہیں گے۔ چنانچہ یہ بھی دیکھاجاناچاہئے کہ دہلی میں جرائم کی واردات میں اضافہ کیلئے صرف اور صر ف محکمہ پولیس ہی ذمہ دار ہے یادہلی کا عام معاشرہ بھی کہیں نہ کہیں اس کیلئے ذمہ دار اور جوابدہ ہے۔ پولیس واردات کے بعد کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کانشانہ بن سکتی ہے لیکن واردات کا ہونا اپنے آپ میں معاشرہ سے متعلق حقیقی صورتحال کو منعکس کرتا ہے۔ مثلاً ہر چار گھنٹہ پر دہلی میں صنف نازک کی آبرو لوٹی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ آبروؤں پرحملہ کرنے والے لوگ کون تھے؟یہ دہلی کے وہی عام لوگ تو تھے جن کی تعداد ایک سال کے درمیان 20ہزار سے زائد درج کی گئی ۔ کیااس اعدادوشمار سے یہ اندازہ نہیں ہوتا دہلی کے عام لوگ کہیں نہ کہیں اخلاق باختگی کی راہ پر گامزن ہیں؟یہ سوال اس وجہ سے کھڑا ہوتا ہے کیونکہ آبروریزی کے زیادہ ترمقدمات میں ماخوذقرارپانے والے لو گ عادی مجرم کے زمرہ میں جگہ نہیں پاتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب معاشرہ میں اخلاقی زوال بڑھتاچلاجائے توکیایہ ممکن ہے کہ کسی ریاست کی پولس گلی محلوں، سڑکوں اور دفتروں یاعوامی مقامات پر آبروریزی کے معاملات کوروک سکے۔ نہیں،ہرگزنہیں ۔ پولس کانظام خواہ کسی قدر متحرک، فعال اور عوام دوست بن کر کیوں نہ ابھرے ،یہ ممکن ہوہی نہیں سکتا کہ وہ اس طرح واقعات کو روک سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ بھی پولس کمشنر کی رپورٹ کو دہلی کاآئینہ تصور کرتے ہوئے اپنی ذمہ داروں کااحساس کرے۔ صرف پولس پر تنقید سے نہ دہلی کی تصویر بدل سکتی ہے اورنہ ہی حکومتوں کوبراکہنے سے دہلی سنورسکتی ہے ۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ جرائم کی واردات میں اضافہ کے اسباب وعلل کا بھی گہرائی کے ساتھ جائز ہ لیاجائے اوراس کی روشنی میں دہلی کو عالمی معیار کا شہر قرار دلانے والے عناصر اپنے مقصدکی جانب قدم بڑھائیں ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ دہلی کے جرائم کی تصویر ہمیں ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیابھرمیں ہمیں رسوا کرے گی۔

(مضمون نگار روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی" کے نیوز ایڈیٹر ہیں )
موبائل : 08802004854 , 09871719262
shahid.hindustan[@]gmail.com
شاہد الاسلام

Delhi story according to statistical figures. Article: Shahidul Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں