گورنر بہار پر جنتادل یو کے حلیفوں کی برہمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-02-16

گورنر بہار پر جنتادل یو کے حلیفوں کی برہمی

پٹنہ
پی ٹی آئی
جیتن رام مانجھی کے خط اعتماد حاصل کرنے کی20فروری کی تاریخ سے قبل اتحاد کے مظاہرہ میں جنتادل یو اور اس کے حلیفوں نے آج اکٹھاہوکر گورنر بہار کیسری ناتھ ترپاٹھی اور بی جے پی کو ریاست میں سیاسی عدم استحکام کے لئے نشانہ تنقید بنایا ۔ جنتادل یو کے ریاستی صدر بششٹ نارائن سنگھ نے پٹنہ میں پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں سے کہا کہ گورنر نے بی جے پی کی ایما پر چیف منسٹر مانجھی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے جو طویل مہلت دی ہے اس کے نتیجہ میں ریاست سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگئی ہے ۔ انہوں نے ریاست کی غیر معمولی سیاسی صورتحال کے لئے گورنر کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ بہار میں مالیاتی لاقانونیت کا دور دورہ ہے ، اور چیف منسٹر یکے بعد دیگرے خوش کن اعلانات کرتے جارہے ہیں ۔ جس کے سرکاری خزانہ پر سنگین اثرات ہوں گے۔ سنگھ نے کہا کہ مانجھی، عوام کو خوش کرنے والے کئی اعلانا ت کرتے ہوئے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں جب کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ان اسکیموں کو روبہ عمل لانے کے لئے زیادہ دن بر سر اقتدار رہنے والے نہیں۔ سنگھ نے ترپاٹھی سے مطالبہ کیا کہ وہ چیف منسٹر کو فوری ہدایت دیں کہ وہ خط اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے تک پالیسی اعلانات کرنا بند کردیں ۔ سنگھ نے کہا کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے مانجھی کو دی گئی 20فروری تک کی مہلت کی مدافعت کی ہے اور سینئر جنتادل یو قائد نیتش کمار پر طنز کیا ہے کہ وہ اقتدار کے لئے بے تاب ہیں ۔ سنگھ نے مزید کہا کہ ترپاٹھی دستوری عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود سیاسی بیانات دے رہے ہیں۔ ترپاٹھی بہار کے بی جے پی قائد سشیل کمار مودی کی زبان بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کو سیاسی بیان بازی سے گریزکرنا چاہئے۔ آر جے ڈی ریاستی یونٹ کے صدر رام چندپروے نے مانجھی کو نشانہ تنقید بنایا کہ پارٹی کے کہنے کے باوجود عہدہ نہ چھوڑ کر انہوں نے نافرمانی کی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ گورنر اس حقیقت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مانجھی کی حکومت کو بڑھاوا دے رہے ہیں کہ ان کے پاس در کار نمبر نہیں ہیں ۔ پروے نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ مانجھی ، بہار کو مالیاتی لاقانونیت میں ڈھکیل رہے ہیں ۔ حکومت کے اقلیت میں آنے کے بعد عوام کو کوش کرنے والی جن اسکیموں کا اعلان کیا گیا اس سے سرکاری خزانہ پر50ہزار کروڑ سے زائد کا بوجھ پڑا ہے ۔ کانگریس کے ریاستی صدر اشوک کمار چودھری نے جو دلت برادری سے تعلق رکھتے ہیں، مانجھی کے اس دعویٰ پر تنقید کی کہ انہیں جنتادل یو اور اس کے حلیفوں نے اس لئے بے عزت کیا کہ وہ مہادلت ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دستوری عہدہ پر فائز شخص اپنے طرز عمل سے جانا جاتا ہے ، اپنے پس منظر سے نہیں۔ چودھری نے گورنر کو بھی یہ کہتے ہوئے نشانہ تنقید بنایا کہ انہوں نے مانجھی کو طویل مہلت دیتے ہوئے دستور اور جمہوری طریقوں کو مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔انہوں نے راج بھون سے مطالبہ کیا کہ وہ چیف منسٹر کو ہدایت دے کہ پالیسی فیصلے نہ کریں کیونکہ مانجھی کو حکومت چلانے کا خط اعتماد حاصل نہیں ہے۔ ان کی پارٹی ان سے لاتعلق ہوچکی ہے، سی پی آئی قائد جتیندر ناتھ نے گورنر ترپاٹھی اور بی جے پی پر تنقید کی کہ وہ مانجھی کی ملی بھگت سے آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں ۔ انہوں نے مانجھی سے مطالبہ کیا کہ وہ بی جے پی کی تائید کے عوض مہادلتوں کے مفادات رہن نہ رکھیں۔
جنتادل یو کے ریاستی صدر بششٹ نارائن سنگھ نے اسی دوران ترپاٹھی کے اس طنز پر اعتراض کیا جو انہوں نے راج بھون اور نئی دہلی میں راشٹر پتی بھون میں نتیش کیمپ کی جانب سے130ارکان اسمبلی کی پریڈ کے تعلق سے کیا تھا ۔ سنگھ نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو دستوری اتھاریٹی کے سامنے اس لئے پیش کیا گیا تھا کہ ان پر اخلاقی دباؤ پڑے اور وہ نتیش کمار کو بہار میں تشکیل حکومت کی دعوت دیں ۔ سنگھ نے جو راجیہ سبھا کے رکن بھی ہیں ، گورنر پر تنقید کی کہ انہوں نے خط اعتماد کے لئے پہلے مانجھی کو مدعو کیا ۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت مانجھی کی تائید نہیں کررہی ہے ۔ مانجھی کو صرف12ارکان اسمبلی کی تائید حاصل ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ راج بھون اس سے اچھی طرح واقف ہے اور بتایاجاتا ہے کہ وہ نتیش کمار کو حاصل اکثریت سے مطمئن ہے۔جنتادل یو قائد نے کہا کہ مانجھی حکومت مقبول سیاسی جماعت کی حیثیت سے نمائندگی نہیں کرتی ایسے میں یہ مذاق ہی ہوگا کہ گورنر20فروری کو بجٹ اجلاس کے پہلے دن اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں اقلیتی حکومت کا تیارہ کردہ خطبہ پڑھیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر اور دستوری ماہر رہ چکے ترپاٹھی کے لئے ضروری تھا کہ وہ ملت دینے سے قبل مانجھی حکومت کے سیاسی موقف کا حقائق سے آگاہ ہوجاتے ۔

Bihar: JD(U), allies blame Gorvernor, BJP for political crisis

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں