رسول اسلام ﷺ کی شان میں گستاخیاں آخرکیوں ؟؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-11

رسول اسلام ﷺ کی شان میں گستاخیاں آخرکیوں ؟؟

mohammad-best-role-model
انسانیت کی سب سے محترم شخصیت--محسن انسانیت حضرت محمدﷺ-- جن کا احترام ان کے ماننے والوں ہی کے نزدیک نہیں، غیر جانب دار یا انصاف پسند مستشرقین کے ہاں بھی مسلّم ہے؛ نہیں معلوم آخر کیوں بعض نا ہنجار اور اسلام و مسلمانوں کو دیکھ کر پیچ و تاب کھانے والوں نے آپﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنا اپنا شیوع بنا رکھا ہے، جب کہ رسول اللہﷺ نے اپنے متبعین کو بھی اغیار کے مطابق قابل احترام سمجھے جانے والوں کی شان میں گستاخیاں کرنے سے روکا تھا۔ آج اس اخلاق و وفا کے پیکر کی تضحیک کی ناپاک کوششیں کی جاتی ہیں، جن کے ناموس کی حفاظت خود اللہ سبحانہ و تعالی کررہا ہے۔ہمارے عقیدے کے مطابق خلاصۂ کائنات، افضل المخلوقات، ختم الرسل، سید الانبیاء، سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، محبت، اطاعت اور احترام ایمان کا لازمی جزو ہے، جب تک مسلمان اپنے اہل و عیال سے زیادہ بلکہ اپنی جان سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ کرے، اُس کا ایمان درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔ آپﷺ سے محبت کے بغیر ایمان کا دعویٰ باطل و مردود ہے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ اللہ تعالی نے اس کا خوب انتظام فرمایا ہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے، لیکن گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی رسول اللہﷺ کی شان میں ادنی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا، خواہ یہ گستاخی صراحتاً ہو یا کنایۃً، مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر ہمیشہ ایےے ہرمردود و مکروہ فعل کی ہمیشہ مزاحمت کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ کی شان میں ادنیٰ گستاخی، خواہ کسی نوعیت کی ہو، مسلمانوں کے لیے نا قابل برداشت ہے۔ اس کے باوجود کبھی ڈنمارک تو کبھی ناروے اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک میں رحمۃ للعالمینﷺ کے خاکے بنا کر رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخیاں کی جاتی رہتی ہیں، جو کہ خلاصۂ کائنات کی تضحیک و تنقیص کی ناپاک کوشش ہے۔ مغربی اقوام کا یہ شنیع فعل باربار عالمِ اسلام کے جذبات کو مجروح کرتا ہے،اُنھیں تکلیف پہنچاتا ہے، پھر آخر کیوں اس قبیح فعل پر سختی سے پابندی عائد نہیں کی جاتی۔ جب سیکولر ملکوں میں کسی عام انسان کی عزت کو تحفظ حاصل ہے کہ کوئی اس پر ہتک آمیزی کی کوشش نہیں کرسکتا، تو کروڑوں بلکہ اربوں کے دلوں میں بسنے والی اس قدر محترم شخصیت کے لیے عزت کاتحفظ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اقوام متحدہ کے ۱۹۴۸ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دفعہ ۱۸ کے مطابق ’’ہر انسان کو خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق‘‘ دیا گیا ہے، تو کیا اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایک یا چند افراد ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کے لیے آزاد ہیں؟ آخر کیوں وقتاً فوقتاً رسول اللہﷺ کے ناموس پر ضربلگائی جاتی اور آپﷺ کے مقامِ عالی پر رکیک حملوں کی کوشش کی جاتی ہے؟
حال ہی میں پیرس میں اہانت رسولﷺ کی مرتکب ہفت روزہ اخبار چارلی ہیبڈو کے دفتر پر جو حملے ہوئے ہیں، لوگ اس کی تو باتیں کر رہے ہیں، لیکن یہ جس عمل کا رد عمل ہے، اس سےصرف نظر کی جا رہی ہے۔ ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ آخر ایسا دو غلا پن کیوں اپنایا جاتا ہے؟ اب تک گو کہ یہ متحقق نہیں ہو پا یا ہے، لیکن جیسا کہ مغربی اقوام کا وطیرہ ہے، مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے، حالاں کہ بعض دوسری باتیں بھی کہی گئی گئی ہیں۔ جمعرات کو خبر موصول ہوئی کہ دفتر پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کر لی گئی ہے، جو تیں ہیں اور ان میں سےایک نے خود سپردگی کردی، جب کہ دیگر دو کی تیزی سے تلاش جاری ہے۔ پولیس نے انھیں خطرناک دہشت گرد بتایا ہے۔ اس دوران فرانس میں ایک طرف مسلمانوں کے ساتھ خیر سگالی کے مظاہرے ہو رہے ہیں، وہیں دوسری طرف مساجد پر حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔ بلکہ مسلم آبادیوں میں توڑ پھوڑ کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔
قطع نظر محض اس حالیہ واقعہ کے اس شنیع عمل پر رد عمل کے طور پر ایک مناسب حکمتِ عملی کے تحت پُر زور کوشش کی جانی لازمی ہے، سیکولرزم کے پس پردہ ایسی ناپاک کوششوں کو جواز فراہم کرنا کسی طور مناسب نہیں، اگر سیکولرزم واقعی اسی طرح انسان کو بے مہار چھوڑ دینے کا قائل ہے، تو کل کوئی انسان اس کا فائدہ اٹھا کر کسی کی ماں کی برہنہ تصویر کو سر عام کسی شرم ناک فعل کا مرتکب دکھا سکتا ہے، کسی کی بہن اور بیٹی کی عزت کو آزادی کے نام پر آزادی کی آڑ میں بھرے بازار نیلام کر سکتا ہے---کیا کوئی عقل مند ایسے سیکولرزم کو برداشت کرسکتا ہے؟ اگر نہیں تو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے رگ و ریشے میں جس رحمۃ للعالمینﷺ کی محبت خون کی طرح گردش کرتی ہے، بار بار اُس عظیم و برتر ہستی کو کیوں نشانے پر لیا جاتا ہے، کیوں اُس کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہیں، کیوں اُس سے منسوب کارٹون بنائے جاتے ہیں، کیوں اُس کے نام پر خاکے تراشے جاتے ہیں؟ جن ملکوں میں وقتی وزیر اعظم کی شان میں گستاخی کرنا جرم ہے، وہاں کیوں سید الکل فی الکل کی شان میں گستاخیاں روا رکھی جاتی ہیں؟
عامۃ ایسے کارٹون بنانے والے اسے تفریح کا ذریعہ بتاتے ہیں، تو ہمیں بتائیے کہ کیا کروڑں لوگوں کی دل آزاری کرکے چند لوگوں کی تفریح طبع کا یوں سامان کرنا کسی طرح جائز ہو سکتا ہے، کیا مذہبی شخصیات کی اس طرح ہتک آمیزی کے سوا آپ کے پاس تفریح طبع کا کوئی اور سامان نہیں ہے۔ یہ سب تو کہنے کی باتیں ہیں، ورنہ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر ، ایک منصوبہ کے تحت کیا جاتا ہے، اس کے بعد بھی اگر اس پر کوئی رد عمل ظاہر کرتا ہے، تو اس میں حیران ہونے والی کیا بات ہے، جب آپ اپنے عمل میں آزاد ہیں،تو وہ اپنے رد عمل میں کیوں آزاد نہیں؟ یہ چند ضروری باتیں اسی آزادی کے تحت رقم کی جا رہی ہیں، جس آزادی کے تحت آپ غیر ضروری باتوں کو فروغ دے کر فضا کو مسموم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم تو اس سب کے بعد بھی یہی کہیں گے کہ اسلام کسی مسلمان کو محض جذباتی ہوکر بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اس موقع پر مناسب رد عمل ظاہر ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام کبھی بے قابو ہوکر سرکاری و غیر سرکاری املاک کو ضائع کرنے، دکانوں و مکانوں کو آگ لگانے اورکاروں و موٹر سائیکلوں کو جلا ڈالنے کا روادار تو نہیں، لیکن اس طرح کی ناپاک حرکت کرنے والوں کی حد درجہ حوصلہ شکنی کرنی بھی ضروری ہے، تاکہ آئندہ کوئی ایسی شنیع حرکت نہ کر سکے۔
واضح رہے! رسول اللہﷺ کی حیثیت اسلام میں محض پیام بر کی نہیں، بلکہ مخدوم و مطاع کی ہے۔ خالق پر ایمان لانا، اس کی عبادت کرنا اور اس کے ہاں قرب جوئی حاصل کرنا ،اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک رسول اللہﷺ پر ایمان نہ لایا جائے، آپﷺ کی اطاعت نہ کی جائے اور آپﷺ کا قرب نہ حاصل کیا جائے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نےفرمایا”کان خلقہ القرآن“ یعنی آپ کی برگزیدہ ہستی مجسم قرآن تھی، لہٰذا اگر قرآن حجت ہے ،اور بلا ریب وشک حجت ہے، تو پھر اس کا بیان بھی حجت ہوگا، آپﷺ نے جو بھی کہا ،جو بھی کیا ، وہ حق ہے، دین ہےاور نیکی ہے، اس لیے کہ آپﷺ کی زندگی مکمل تفسیر کلام ربانی ہے،ارشاد ربانی ہے”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَةٌ“اللہ کا رسول تمھارے لیے نمونہٴ عمل ہے، یہی نہیں بلکہ آپﷺ کو بارگاہ رب العزت سے رفعت وبلندی کا وہ مقام ملا ہے، جس کے آگے تمام رفعتیں سرنگوں ہیں ۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت دنیا کے نقشہ سے جہاں مسلمانوں کے وجود تک کو ختم کرنے کی بہیمانہ کوششیں کی جا ر ہی ہیں، وہیں مسلمانوں کا ایمانی وجود بھی سخت امتحان سے دو چار ہے اور ایک عرصہ سے مسلمانوں کے ایک کے بعد ایک امتحان لیے جا رہے ہیں، کبھی ان پر آگ وبارود برسا کر ان کی دین پر استقامت کا امتحان لیا جاتاہے، تو کبھی شعائرِ اسلام ، مقدس مقامات کے خلاف اہانت کرکے مسلمانوں کی دینی حمیت اور اسلامی غیرت کو للکارا جاتاہے۔ظاہر ہے کہ ان تمام مراحل میں امت مسلمہ کو سست اور غافل پاکر دشمنانِ اسلام اور شیطان لعین؛ دونوں کی ذریت رسول اللہﷺ کے نام لیواؤں پر پے در پے حملے کیے جا رہی ہے ۔ یہ بھی مسلمانوں کی ایمانی غیرت ودینی حمیت کا گویا امتحان ہی ہے کہ ایک بار پھر خلاصئہ کائنات، محسنِ انسانیت ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کا گھناؤنا ارتکاب کیا گیا! دل اس لیے اور دکھتا ہے کہ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں، بلکہ بار بار خبثِ باطن کااسی طرح برملا مظاہرہ کیا جاتا ہے، لیکن ۶۰/ کے قریب اسلامی ممالک اور ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں سے سوائے چند مقامات اور مخصوص اشخاص کے، کسی کی طرف سے کوئی مثبت ومؤثر رد عمل دیکھنے میں نہیں آتا، حالانکہ اس قسم کی گستاخانہ حرکت اگر کوئی انسان ہماری اپنی ذات، ہمارے والدین اور ہمارے عزیزوں میں سے کسی کے خلاف کرتا، تو ہمارے جذبات میں لازماً ارتعاش آجاتا، ہم اس کے در پہ ہو جاتے، اب سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہمیں ہماری جانیں ،عزیز واقارب اور دنیوی مال ومتاع محسن انسانیت ﷺ سے زیادہ عزیز ہوچکے ہیں؟ اگریہ حقیقت ہے تو، ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا ہوگا اور اگر ایسا ہو گیا، تو پھر ہمیں دنیا میں مظلومیت، مقہوریت اور مذلت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہم ایمان کی سلامتی،کامیابی اور آخرت کے عذاب سے حفاظت چاہتے ہیں، تو ہمیں اتباعِ رسول اور محبتِ رسول ا کا سچا وپکا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور یہ سچا وپکا راستہ وہی ہے، جو منشاء خداوندی کے مطابق حضور ﷺکے طرز عمل اور آپ ﷺکے دین کی عملی تصویر یعنی صحابہ کرام  سے میل ومناسبت رکھتا ہو۔اس لیے کہ یوں تو پورا قرآن کریم حرمتِ رسول اللہ ﷺکا بیان ہے، کیونکہ آپ ﷺکی حرمت وتقدس کے بغیر قرآن کریم کی حرمت وتقدس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، جبکہ قرآن کریم میں بطور خاص دو درجن سے زائد آیات مبارکہ ایسی وارد ہوئی ہیں ،جن میں آپﷺ کی حرمت وتقدس کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے اور آپ ﷺکی بے ادبی،گستاخی اور ایذاء رسانی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
جس طرح کسی ملک میں وہاں کے وزیر اعظم کی ہتک آمیزی جرم تصور کی جاتی ہے، اسی طرح ہم اپنی حکومتِ وقت اور اقوام متحدہ سے یہ عرض کرتے ہیں کہ وہ ملکی وبین الاقوامی سطح پرانبیاء کرام علیہم السلام، اسلام کی محترم شخصیات اور شعائر اسلام کی توہین کرنے والوں کے خلاف ہرممکن اقدام اور اپنی حیثیت کے مطابق بھر پور کردار ادا کرے۔ہم کسی کا بے جا خون بہانے کو جرم عظیم سمجھتے ہیں، اسلام کسی قسم کی دہشت گردی کا روادار نہیں، لیکن شان رسولﷺ میں گستاخی کرنے والوں کو بھی حکومت کی جانب سے سزا دی جانی چاہیے۔ایسے موقع پر عالمی عدالت میں ، ایسے مجرموں کو بین الاقوامی مجرم ثابت کرتے ہوئے ان پر لگام لگانا ضروری ہے،اگر ایسا نہ ہو سکے تو جن ممالک کے باشندے اس گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوں،ان ممالک پر سفارتی دباؤ ڈالتے ہوئے انھیں سے ان مجرموں کی سر کوبی کی جائے۔یا ان مجرموں کی تحویل کے لیے حتی الامکان کوشش کی جائے۔ تاکہ قیامت کے روز احکم الحاکمین کی عدالت میں انسانیت ہمارے حق میں گواہ بن سکے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی پر مقدور بھر ایمانی قوت اوردینی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کیا تھا اور ہم اس قسم کے واقعات سے ناخوش اور آزردہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حبیب ﷺ کا حقیقی عشق ومحبت نصیب فرمائے۔آمین

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

Why abusing the dignity of Islam's Prophet Muhammad s.a.w.? Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں