بھارتیہ جنتا پارٹی کا تضاد - ایک قدم منگل پر دوسرا روی پر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-11

بھارتیہ جنتا پارٹی کا تضاد - ایک قدم منگل پر دوسرا روی پر

پہلی ہی کوشش میں منگل یان کو مدار میں داخل کرنے والی ہندوستانی برادری جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اینی پیش قدمی کیلئے احساس فخر میں مبتلا ہونے کی اہل ہوگئی ہے۔ وہیں ہندوستانی برادری کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں داخلی فکری تضاد پس روی کی طرف بھی مائل کررہا ہے۔ سرکار ایک قدم منگل پر رکھتی ہے اور پارٹی کے لیڈر پیچھے ہٹ کر روی میں چلے جاتے ہیں۔ پس روی ،مراجعت،ماضی پرستی، سائنسی فکر سے انکار اور معقول ڈھنگ سے سوچنے کی اہلیت کا فقدان ہندوستان کو ایک ایسی جگہ لے آیا ہے جہاں ہونے نہ ہونے کی کشمکش کافی بڑھ گئی ہے۔ حکومت میں ہونے کا مطلب ملک کے ہر علاقے، ہر آبادی، ہر فرقے، ہر طبقے کے لوگوں کی فلاح ہے لیکن بی جے پی کے سادھو سنت سماج کے لیڈروں نے اس کی بالکل نئی تعریف پیش کی ہے۔ ضد، حسد،نفرت ، جارحیت اور شاونیت ان کے مزاج کا اٹوٹ انگ ہے۔ مودی سرکار بننے کے بعد سمجھدار ہندوستانی عوام کے ایک بڑے طبقے کو اپنے ترددات دور کرنے کا موقع اپنی ہی خیر اندیش فکر سے ملا تھا کہ نریندر مودی کی قیادت میں جو حکومت آئی ہے وہ گجرات تجربہ اور گجرات ایجنڈا سے الگ ہوگی کیونکہ گجرات میں مودی کا کام پوری دنیا میں جس رد عمل کا مستحق تھا اسی رد عمل سے نوازا گیا۔ دوسری غلطی نہیں ہوگی، لیکن جس ماحول سازی سے بی جے پی اور مودی برسر اقتدار آئے ہیں اس ماحول میں دریدہ دہنی ،نفرت انگیزی، اشتعال انگیزی اور قرون وسطی میں جینے کی للک پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہندوستانی کی آبادی( 1.282.390.000)ایک ارب اٹھائیس کروڑ تیئس لاکھ نوے ہزار ہے۔جس میں 80 فیصدہندو ہیں۔ یقیہ 20فیصد میں 14فیصد مسلمان اور مزید بقیہ 6فیصد میں دوسری اقلیتیں ہیں۔ ہندوستان میں آبادی میں جو اضافہ ہوا ہے اس سے متعلق آنند بازار پترکا گروپ کے ایک میگزین کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی آباد ی بڑھنے کا فیصد کم ہوا ہے۔ عیسائی، سکھ، جین،پارسی ،بودھ اور دوسری اقلیتوں میں بھی آبادی بڑھنے کی شرح کوئی تیز نہیں ہے۔ 1999 میں جب اٹل بہاری واجپئی کے دور اقتدار میں ملک کی آبادی ایک ارب چھو چکی تھی اور ایک ارب کے بعد جو بچہ پیدا ہوا تھا اس کی پیدائش کا جشن منایا گیا تھا اور اس وقت ملک میں ہندوؤں کی آبادی ( 827,578,868) تھی۔ اس لئے یہ مان لینا کہ کسی وقت ہندوستان میں مسلمان اکثریت میں آجائیں گے سوائے ایک گھٹیا ، غیر سائنٹفک اور ضدی نظریے کے کچھ اور نہیں۔ آبادی میں جو اضافہ ہورہا ہے وہ مسلمانوں کی وجہ سے نہیں ہورہا ہے ۔ پارسی قوم تقریبا ختم ہورہی ہے ۔ عیسائی ہندو آبادی میں بری طرح گھل مل گئے ہیں۔ سکھ اپنی شناخت کے ساتھ موجود ہیں لیکن ان کے یہاں آبادی میں اضافے کی شرح ایسی نہیں کہ ملک کے وسائل میں دوسروں سے زیادہ حصہ سمیٹیں، لیکن ہندو سنت سماج کے نمائندہ سیاسی لیڈر اور بی جے پی کے ایم ساکشی مہاراج اس پر تلے ہوئے ہیں کہ کسی بھی حال میں بڑھتی ہوئی آبادی مسلمانوں کے سر تھوپی جائے ۔ دو دن پہلے میرٹھ میں انہوں نے ایک مذہبی مہا اتسو میں انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ بات کہی کہ چار بیویوں چالیس بچوں کے دن لد گئے۔ ظاہر ہے کہ چار بیویاں کہتے ہی آپ کا اشارہ مسلمانوں کی طرف ہو جاتا ہے۔ چالیس بچے بھی مسلمان کی طرف آتے ہیں، لیکن ساکشی مہاراج کو اس طرح کی بیان بازی کے ذریعہ پورے ہندوستان میں گھوم کر کم از کم ایک ایسا مسلم گھرانہ ضرور تلاش کرلینا چاہئے تھا جس میں ایک مرد کے پاس چار زندہ یا با حیات بیویاں ہوں اور ان سے اس نے چالیس بچے جنے ہوں۔ شاید یہ مثال نہیں ملے گی۔ مسلمانوں کے یہاں آزادی کے بعد سے چھوٹے کنبے کا رجحان بنا ہے ۔ جتنا زیادہ پڑھا لکھا اور خوشحال گھرانہ ہے بچے اتنے کم ہورہے ہیں۔ ایک بیوی سے چار بچے کی مثالیں تو مل جائیں گی کیونکہ اسقاط حمل اسلام میں جرم ہے۔ لیکن مانع حمل طریقوں اور دواؤں کا استعمال کسی بھی فرقے کے مقابلے میں مسلمانوں کے یہاں کم نہیں ہے۔ بچوں کی زیادہ تعداد میں پیدائش ان گھرانوں میں ہوتی ہے جہاں غریبی ہے، تعلیم نہیں ہے، بیداری نہیں ہے۔ تو غریبی ، جہل اور اندھیرے کا ٹھیکہ مسلمان نے نہیں لے رکھا۔ ساکشی مہاراج ہر ہندو عورت کو کم سے کم چار بچے پیدا کرنے پر مجبور کررہے ہیں تاکہ ہندوستان میں ہندو مذہب کا دفاع ہو سکے۔ ملک کی آبادی میں 80فیصد ہونے کے باوجود اگر ساکشی مہاراج اپنے فرقے کا مستقبل خطرے میں نظر آتا ہے تو جس کی آبادی 14فیصد ہے اس کا مستقبل خطرے میں کیوں نظر نہیں آئے؟ ۔گو کہ نریندر مودی نے اپنی پارٹی کے لیڈروں سے کہا ہے کہ وہ اس طرح کی بیان بازی سے گریز کریں جوانہیں زیب نہیں دیتی ہے لکشمن ریکھا پار نہ کرنے کا مشورہ شاید دوسرے لیڈروں نے مانا ہو ساکشی مہاراج کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں وہ حسب سابق زہر اگلتے رہیں گے اور حکومت سابقہ موقعوں کی طرح ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم کی مثال بنے رہے گی۔ ساکشی مہاراج اور اس طرح کے لوگ قطعی اس لائق نہیں ہیں کہ ایک جمہوری ملک کے ایوان عام کی نمائندگی کریں۔ ساکشی پر مختلف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے جرم میں اب مقدمہ ہونا چاہئے۔ مسلمان ہندوستان کی آبادی کا ایک ذمہ دار ایک قابل قدر جزء ہے۔ یہ آبادی کا وہ حصہ ہے جس نے تقسیم کے وقت زیادہ بہتر زندگی آزادی اور اکثریت کے لالچ میں اپنی زمین نہیں چھوڑی۔ بہت کڑے حالات میں بھی اس کا حب وطن پوری شدت کے ساتھ برقرار رہا اور جس نے آزاد ہندوستان میں حکومتوں کا احسان اٹھائے بغیر عزت کے ساتھ سر اٹھا کر جینے کا ہنر سیکھا اور دنیا کو سکھایا ہے ۔ مسلمان کے یہاں کسی طرح کا احساس جرم نہیں اور نہ ہی مسلمان اس طرح نفرت انگیز باتوں سے متاثر ہونے کو تیار ہے ملک میں ترقی میں مسلمان کی شرکت پہلے کی طرح جاری رہے گی اور ہر آنے والا دن ساکشی مہاراج جیسے نفرت کے پرچارکوں کے منہ پر تھپڑ مارتا جائے گا۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

The Contrariety of BJP. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں