آر کے لکشمن - تاریخ نے جس پر اپنا در کھول دیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-30

آر کے لکشمن - تاریخ نے جس پر اپنا در کھول دیا

R-K-Laxman
طنز و مزاح کا اپنا ایک الگ مزہ ہے۔ نثر اورشاعری ہی میں نہیں یہ کسی بھی فن میں اور کسی بھی طرح سے ایک نمونہ بن سکتا ہے فنکار کا ماہراور اپنے فن پر قادر ہونا شرط ہے۔ طنز ہی نہیں مزاح بھی ایک طرح کا ہتھیار ہوتا ہے اگر فنکار کمزور ہے یا وہ کہیں چٗو کا تو اس کی یہ تلوار اسی پر اُلٹ جاتی ہے۔
بہت مشہور واقعہ ہے کہ شیخ سعدی شیرازی ایک سفر سے لوٹ رہے تھے کہ راستے ہی میں انھیں شدید تھکن ہی نہیں بھوک کا بھی احساس ہوا ، اْنہوں نے ایک سایہ دار درخت کے نیچے ٹھکانہ بنایا اور اپنی زنبیل میں ٹٹولا کہ کچھ ہے ،تو صرف روٹی ملی وہ بھی سوکھی اور نمک کی ڈِبیہ ہاتھ لگی۔ وہ سوکھی روٹی اور نمک سے اپنے شکم کی اگنی ٹھنڈی کر رہے تھے کہ وہیں سے پورے تام جھام کے ساتھ درباری شاعرکاگزر ہوا۔ اْس نے شیخ کو اس حالت میں دیکھا کہ چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں اور وہ تپتی دھوپ میں ایک درخت کے نیچے سوکھی روٹی نمک سے کھا رہے ہیں۔ وہ اپنے شاہی طمطراق کے ساتھ شیخ کے قریب پہنچا اور کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہی۔ شیخ نے جواباً کہا کہ تٗو تو شاہی شاعر ہے تجھے اجازت کی کیا حاجت۔۔۔بول بھائی کیا چاہتا ہے۔ ؟
شاہی شاعر نے کہا: شیخ !اگر آپنے شاہی دربار میں کبھی حاضری اورسلام کا طریق اختیار کیا ہوتا تو آج آپ کو سوکھی روٹی اور نمک نہ کھانا پڑتا۔ شیخ سعدی نے اس کی بات سنی اور پھر پوچھا کہ تٗونے اپنی کہہ لی۔۔۔ اب اگر تٗو اجازت دے تو میں کچھ عرض کروں؟ جواباً اس نے کہا یا شیخ آپ فرمائیں۔۔۔ شیخ سعدی نے کہا: تٗو نے سوکھی روٹی اور نمک پر اگر قناعت کی عادت ڈالی ہوتی تو تجھے سرکار دربار میں سلامی کیلئے حاضر نہ ہونا پڑتا۔۔۔شاہی شاعر ، شیخ سعدی کے اس جواب پر خجل ہوا اور اس نے وہاں سے راہِ فرار کیلئے اپنے گھوڑے کو ایڑ دی اور یہ جا اور وہ جا۔۔۔
اس واقعے میں شاہی شاعر کا طنز اور شیخ سعدی کا مسکت جواب تاریخ کا حصہ بن گیا ہے کہ شیخ نے اسی کے لفظوں کو اسی پر کیسے اْلٹ دیا۔ صاحبِ فہم حضرات برسوں پرانے اس واقعے سے آج بھی لطف اْٹھاتے ہیں۔
ذہانت اور فنکاری کے بیشمارطَور ہیں۔ ۔۔ کون،۔۔۔کون سا پیرایہ اور کیسا اسلوب ا ختیار کرتا ہے اس کیلئے وہ آزادہے۔ اسی ہفتے یعنی گزشتہ پیر کو ہمارے ملک کاایک ایسا فنکار رْخصت ہوا ہے۔ جس کیلئے تاریخ نے اپنا سینہ کھول کر اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ آر کے لکشمن ہمارے دَور کے فنکاروں میں اپنی مثال آپ تھے۔ معاصرٹائمز آف انڈیا میں اْنہوں نے پچاس برس سے زائد مدت تک اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
ٹائمز کے صفحۂ اوّل پر اْن کا بنایا ہوا کارٹون اکثر، لوگ پہلے دیکھتے تھے اور کچھ قارئین ہیڈ لائین کے فوراً بعد ان کے کارٹون ہی پر نظر ڈالتے تھے۔
ایک بات یہ بھی تاریخ کا حصہ بن گئی کہ اْنہوں نے ابتدا میں آرٹ کی باقاعدہ تعلیم کیلئے ممبئی کے جے جے آرٹس کالج میں داخلے کی درخواست کی۔ لکشمن کے ابتدائی فن پاروں کو دیکھا تو مذکورہ کالج کے سربراہ نے اْنھیں جواب دِیا کہ" آپ کی بنائی ہوئی تصویروں میں وہ بات نہیں ہے کہ جس کے سبب آپ کو کالج میں داخلہ دِیا جائے۔۔۔"
عروس البلاد ممبئی کے روزنامہ فری پریس جرنل سے لکشمن نے ایک کارٹونسٹ کی حیثیت سےباقاعدہ اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھاجہاں اْنکے ساتھ بال ٹھاکرے بھی کام کر رہے تھے۔ نئی نسل کیلئے اطلاعاً عرض ہے کہ ٹھاکرے بھی اپنے زمانے میں ایک ممتاز کارٹونسٹ کی حیثیت کے حامل شخص تھے۔ انھیں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ ان کا ہفت روزہ’ مارمک‘ انہی کے بنائے ہوئے سیاسی کارٹونوں کا نہایت دِلچسپ مجلہ ہوا کرتا تھا۔
ہم اس وقت لکشمن کو یاد کر رہے ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے کارٹون ( کامن مین)’ عام آدمی‘ ہی کیلئے ہوتے تھے مگر خواص بھی اس سے مجتنب نہیں رہے۔ وہ صاحب ِاسلوب کارٹونسٹ تھے۔ یہ وصف ہر فنکار کو نصیب نہیں ہوتا۔ لکشمن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جس اسکول آف آرٹس نے انھیں داخلہ نہیں دیا اسی اسکول سے چند قدم کے فاصلے پر ٹائمز آف انڈیا جیسے مؤقر اخبار کے وہ نصف صدی تک ایک انتہائی اہم رْکن بنے رہے۔
لکشمن کی فکر صرف لکیروں کے ذریعے کارٹون ہی نہیں بنتی تھی بلکہ اس کے نیچے جو عبارت ہوتی تھی وہ بھی ان کی فکر کا ایک نمونہ ہوتی تھی یاد آتا ہے کہ ایک کارٹون میں انہوں نے نہایت بھری پْری سڑک دِکھائی اور نیچے درج تھا کہ ’’ کار تو میرے پاس بھی ہے مگر سڑک نہیں ہے۔‘‘۔۔۔ اْردو اخبارات میں بھی کسی زمانے میں باقاعدہ کارٹونوں کا ایک سلسلہ ہوتا تھا۔ اِس وقت وہاب حیدر یاد آئے کہ مرزا غالبؔ کے اشعار پربنائے ہوئے ان کے کارٹونوں کا ایک سلسلہ بنام’شعر پر شوشہ ‘خاصی مدت تک معاصر اخبار میں چھپتا رہا۔ مگر ہم اْردو والوں نے شاید اس فن اور اس کے فنکاروں کی وہ قدر نہیں کی جس کا وہ حق رکھتے تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ لکشمن کی قدر اْن کی زندگی میں بھی ہوئی اوراْن کے بعد بھی۔ انہوں نے عام آدمی ہی کو اپنے فن کا موضوع بنایا اور خود بھی ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزاری۔
پتہ چلا کہ آنجہانی لکشمن اپنے فن اور اپنی زندگی میں یکساں تھے۔۔۔ہم ان کے فن اور انکے کردار کو سلام کرتے ہیں۔

***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

An obituary of R.K.Laxman. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں