بھگوا رنگ گاڑھا ہونے کا سال - سنگھ کی اقلیت دشمنی کھل کر سامنے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-31

بھگوا رنگ گاڑھا ہونے کا سال - سنگھ کی اقلیت دشمنی کھل کر سامنے

deepening-saffron-color-on-national-horizon
2014کسی بڑے کارنامہ کیلئے تو تاریخ میں یاد نہیں رکھا جائے گا۔ لیکن ہندوستان میں بھگوا رنگ کے گاڑھا ہونے کیلئے ضرور جانا جائے گا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار فرقہ پرستی ، فساد اور فسطائیت کیلئے جو سیاسی سماجی گنجائش نکلی ہے اس کا اس سے پہلے اندازہ نہیں تھا۔ بدلتی ہوئی دنیا میں لوگوں کی ترجیحات اور توقعات بدلتی رہتی ہیں۔ پسند بدلتی ہے اور اظہار کی صورتیں بھی بدلتی ہیں۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مایا وتی کا وزیر اعلی بننا بقول نرسمہا راؤ ایک کرشمہ ہے۔ چندر شیکھر کا وزیر اعظم بننا بھی ایک کرشمہ تھا۔ اور دیو گوڑا کا وزیر اعظم کے عہدہ پر آنا ایک نئے امکان کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ ہر ر جحان اور امکان کا ایک عہدہوتا ہے اس عہد میں اس سے جتنا کچھ ممکن ہو کرکے گذر جاتا ہے۔ چندر شیکھر یا دیو گوڑا کسی باضابطہ سیاسی پارٹی کی واضح اکثریت کے بل پر وزیر اعظم کے عہدہ پر نہیں آئے تھے وہ ایک سیاسی مجبوری کے تحت آئے تھے لیکن اپنا اپنا نقش چھوڑ کر گئے ہیں۔ ہندوستانی جمہوریت اس لحاظ سے قابل احترام ہے کہ سچ مچ اس ملک میں پانچ سال کے بعد ایک انقلاب آتا ہے اور یہ انقلاب عوام لاتے ہیں۔ جو کوئی عوام کی پرکھ میں پورا نہیں اترتا ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ دوسرا تجربہ ناکام ہوا تو پہلے کی واپسی کا اہتمام ہوجاتا ہے۔ لیکن ان 67برسوں میں یہ کبھی نہیں ہوا تھا کہ دائیں بازو کی کسی رجعت پسند پارٹی کو ہندوستانی عوام نے بھر پور اکثریت دے کر اس وقت گدی پر بٹھایا ہو جب اس پارٹی کا پہلے سے اعلان کیا ہوا پی ایم امیدوار گجرات کے فسادات میں راج دھرم نہ نبھانے کیلئے جانا جاتا ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نریندر مودی، آر ایس ایس اور بی جے پی دونوں شاخوں کے ملنے کی جگہ پر قیادت لے کر کھڑے ہیں۔ پارٹی ان کی بات مانتی ہے۔ اور سنگھ بھی ان کی بات مانتا ہے۔ وہ جتنا پارٹی کے ساتھ ہیں اتنا ہی سنگھ کے ساتھ ہیں۔ ان کی یہ سیاسی اور تنظیمی حیثیت 16 مئی 2014کو ایک آئینی حیثیت میں بدل گئی ۔ اس تبدیلی کو مودی نے خوب محسوس کیا ہے۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ کا دورہ کرنے تک نریندر مودی کی زبان سے لفظ مسلمان ایک بار بھی نہیں نکلا۔ لیکن اپنی شبیہ بدلنے کی کوشش ان کی آئینی مجبوری تھی۔ مودی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ایک موٹے ، جامع، با معنی نعرہ سے اپنا وہ چہرہ بدلنے کی کوشش کی جو گجرات 2002کا چہرہ تھا۔ ایک بہت چالاک سیاست داں کی حیثیت سے مودی نے رفیق ذکریا (سی این این) کے ایک سوال کو ان کے منہ پر یہ کہتے ہوئے دے مارا کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے حب وطن کو شک وشبہ سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ امریکہ سمیت پوری دنیا کو لگا کہ مودی کا قلب بدل گیا ہے ۔ بدلا ہے، قلب نہیں قالب۔ آج وہ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور ملک کے آئین کو جوابدہ ہیں۔ لیکن آئین میں یا قانون میں اس قدر گنجائش ہے کہ آر ایس ایس کا 90سال پرانا ایجنڈا نافذ کرنے میں نئی حکومت کو کوئی دشواری نہیں ہے۔ ہندوتوا کا بھگوا رنگ ہندوستان پر 2014 میں مسلسل گاڑھا ہوا۔ نہرو کے بنائے ہوئے آئینی ادارے توڑنے کی بات چلی، پلاننگ کمیشن پر ضرب لگائی گئی۔ اور اداروں کو توڑنے کی اس عملی کوشش کے پیچھے چھپا ہوا گوشہ نہ کسی کی سمجھ میں آیا نہ کسی نے اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ جس کی سمجھ میں آیا اس کی چلتی نہیں ہے۔ گاندھی جینتی کو جھاڑو لگانے کا دن بنا دیا گیا۔ 25دسمبر کو اچھی حکمرانی کے دن کے طور پر منایا گیا۔یعنی قومی تقریب چاہے جو ہو اس کو اس کی اصل صورت میں چھوڑنے کیلئے مودی سرکار تیار نہیں ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ جو دن بچ گئے ہیں۔ان میں کیا کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ کہ سنگھ کی ناپسندیدہ روایت کو یکسر مسترد کرنے یا بالائے طاق رکھ کر ہنگامہ کرانے سے بچتے ہوئے سنگھ اور سرکار اس کی صورت بدل رہے ہیں۔ گاندھی جی کو ہر کسی بڑے آدمی کی طرح صفائی سے بہت پیار تھا۔ گاندھی کے عینک کے ایک شیشے پر صفائی دوسرے شیشے مہم لکھ کر سنگھ اور سرکار نے گاندھی پر اپنا ایجنڈا تھوپ دیا۔ ٹھیک اسی طرح عیسائیوں کے سب سے متبرک دن کو جسے آج بھی ہندوستان میں بڑا دن کہا جاتا ہے۔ اچھی حکمرانی کا دن قرار دے کر اسے اٹل بہاری واجپئی اور مدن موہن مالویہ سے منسوب کردیا گیا۔ تبدیلیاں ایک ایسے ڈھرے پر چل رہی ہیں جس میں وزیر اعظم کے کپڑوں کے رنگ سے لے کر تقریبات کے ڈائز پر لگی ہوئی فلیکسی تک ہر چیز پر بھگوارنگ پہلے سے زیادہ گاڑھا ہورہا ہے۔ دوسرے رنگ پس منظر میں جارہے ہیں۔ کیونکہ مودی کے ساتھ جو سیاسی نظریاتی کارواں چل رہا ہے اس میں گجرات گاندھی کے بجائے گوڈسے کے حوالے سے اپنی شناخت بنانے کو بے چین ہے۔ گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دینے کی بات چل رہی ہے۔ لو جہاد کا، گھر واپی کا، بہو لاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ اسی طرح لگ رہا ہے جس طرح انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگتا رہتا تھا۔ لیڈروں کے بیانات زیادہ سے زیادہ عوام پھوٹ ڈالنے والے الفاظ سے چمک رہے ہیں۔ اعتدال اور سمجھداری کی آوازیں پس منظر میں جارہی ہیں۔ اور پورا ہندوستان ایک اسی تبدیلی سے دو چار ہونے جارہا ہے جو ہندوستان کی اصل پہچان سے مطابقت نہیں کرتا۔ ووٹروں کا ایک طبقہ اگر یہ سوچتا ہے کہ اس نے مخلوط حکومت کی مصلحتوں اور مجبوریوں کے آگے جھکنے والی کمزور پارٹیوں سے نجات حاصل کرکے بی ج پی کو بھر پور اکثریت اس لئے دلائی کہ مودی کا ترقیاتی ایجنڈا ملک کو آگے بڑھا سکے اور انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ملی ہے۔ تو اس طبقے کی سوچ غلط نہیں۔ ہندوستان جیسا ملک امن اور ہمہ گیر ترقی کے ساتھ سماجی ہم آہنگی کے فروغ کی طرف سے غافل ہو کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اور اس حکومت میں یہ کام ہورہا ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پارٹی کو جیت تک لانے والی طاقتیں اقتدار میں اپنا حق اور سماج میں اپنا حصہ مانگیں گی۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ دیش کے تین نمایاں رنگوں میں سے دو دھندلا کرتے چلیں اور ایک کو گاڑھا؟؟

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

deepening saffron color on national horizon in 2014. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں