آگرہ میں مسلمانوں کا جبری تبدیل مذہب - اترپردیش میں برہمی اور اشتعال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-12

آگرہ میں مسلمانوں کا جبری تبدیل مذہب - اترپردیش میں برہمی اور اشتعال

agra-conversion-incident
آگرہ میں گزشتہ دنوں ساٹھ خاندانوں کے تقریباً ڈھائی سوافراد کو تبدیل مذہب کراکے اسلام کے دائرے سے باہر نکال کر ہندو ازم میں شامل کرنے کاایک پروگرام بڑے تزک واحتشام کے ساتھ کیاگیا۔گوکہ یہ ڈھائی سو لوگ دوبارہ اسلام میں واپس آگئے ہیں اورایک مقامی عالم دین نے دوبارہ کلمہ پڑھاکر ان کو مشرف بہ اسلام کیاہے۔اس تبدیل مذہب کااہتمام آر ایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیموں جیسے بجرنگ دل نے کیاتھا ۔جو لوگ مرتد بنائے گئے تھے ان کاکہناہے کہ انہیں دھوکے میں رکھ کر یہ کام کرایاگیا۔ بجرنگ دل کے کارکنوں نے انہیں راشن کارڈ اورآدھارکارڈ کے لئے فوٹو کھنچوانے کی غرض سے کیمپ میں بلوایاتھا اوروہاں جانے کے بعد ان کی شدھی کرائی گئی ۔ان بیچاروں کایہ بیان بہت بامعنی ہے کہ وہ کسی طرح کاہنگامہ ہونے نہیں دیناچاہتے تھے اورسماجی خلفشار کے خوف سے انہوں نے وہ کیا جوان سے کہاگیا۔پورے اترپردیش میں اس واقعے کا مسلمانوں نے بہت سخت نوٹس لیاہے یہ جبری تبدیل مذہب کامعاملہ آگرہ کے ایک محلے سے پارلیمنٹ تک پہنچا اور اپوزیشن نے اس سوال پر ایوان میں حکومت کو گھیرا جب کہ آرایس ایس کاکہنا ہے کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیاہے۔قانون کامعاملہ یہ ہے کہ گجرات میں اڑیسہ میں ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ میں تبدیل مذہب کے روک تھام کاقانون ہے جس کے تحت اس شخص کوضلعی حکام کے پاس جاکر یہ بیان دینا پڑتاہے کہ وہ اپنا مذہب بدلنے کاخواہشمند ہے۔ یوپی میں ایسا کوئی قانون نہیں۔لیکن مختلف مذہبی گروپوں کے درمیان نفرت اوردشمنی کے فروغ کی روک تھام کاایک قانون بہرحال موجود ہے جس کے تحت جبراً کسی سے تبدیل مذہب کرانے والوں کو تین سال کی سزائے قید بھی ہوسکتی ہے اوراس پرجرمانہ بھی لگ سکتاہے۔یہ تعزیرات ہندکی دفعہ 153A ہے۔ایک اور دفعہ415 ہے جس کے تحت دغابازی کے لئے سزا مقرر کی گئی ہے۔آگرہ کے یہ جو مسلمان راشن کارڈ اورآدھار کارڈ جیسے اپنے آئینی حقوق کے لئے بجرنگ دل کے کارکنوں کے پاس جاتے ہیں ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ سیدھے ان سرکاری دفتروں تک نہیں پہنچ پاتے ہیں جہاں یہ کارڈ بنتے ہیں۔ یارشوت خوری کی وجہ سے ان کاکام نہیں ہوتا ۔دیگرپارٹیوں کے سماجی کارکنوں پرفرض ہوتاتھا کہ وہ انہیں یہ آئینی سہولتیں دلانے میں مدد کرتے۔ آرایس ایس کی ایک شاخ ایسے کمزور اورمجبور لوگوں کو تلاش کرلیتی ہے جو تھوڑے سے فائدے کے لئے ان کی بات ماننے کو تیارہوجائیں۔ ہوسکتاہے کہ مذہبی جبری طورپر تبدیل کرانے کاکام بڑے پیمانے پر مختلف مقامات پر ہورہاہو اورآگرہ میں یہ بے نقاب ہوگیا لیکن ہرحال میں یہ مذہبی آزادی کی آئینی شق کے خلاف ہے ۔ بجرنگ دل کے ان کارکنوں کے خلاف فوراً مقدمہ ہوناچاہئے جنہوں نے ڈھائی سو لوگوں کو گمراہ کیا ۔آگرہ ایک ایسامرکز ہے جہاں کے مسلمان اپنے ماضی پر فخر کرتے ہیں۔اپنے مذہب پر ثابت قدم ہیں۔اپنی تہذیبی روایتوں کااحترام کرتے ہیں۔ان کا یا ان میں سے کچھ کا راشن کارڈ کے لئے مذہب چھوڑنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اس کی تحقیقات زیادہ شدت سے ہونی چاہئے کہ پس پردہ وہ کون سے عوامل ہیں جن سے مجبور ہوکر یہ لوگ اپنی شدھی کرانے کے لئے باضابطہ منعقد کئے گئے پروگرام میں شامل ہوئے۔مسلمان بجا طورپر ناراض ہیں اورانہوں نے نہ صرف احتجاج کیاہے بلکہ اپنے فرقے کے کمزور اورمخدوش عناصر کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ آرایس ایس اوربجرنگ دل نے اپنا پروگرام ڈھکے چھپے انداز میں نہیں کیا۔ کھلے میدان میں اہتمام کیاگیااورپروگرام کانام بھی پرکھوں کی گھرواپسی رکھاگیا یعنی اس پروگرام میں شرکت کے لئے آنے والے ہر شخص کو معلوم تھا کہ یہ تبدیل مذہب کے لئے ہی ہے اس کے باوجود یہ ڈھائی سو لوگ آئے اوران سے جو کہاگیاانہوں نے کیا۔یہ سیدھی سی بات نہیں ہے ایسا لگتاہے کہ اس کے پیچھے ان متاثر لوگوں کو بہت دنوں سے نہ صرف لالچ دے کر بلکہ ڈرا دھمکاکر بھی اس کے لئے تیارکیاگیاکہ وہ اس تقریب میں آئیں اورجیسا کہاجائے کریں۔یہ لوگ آگرہ کے مضافات میں جھگی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور ان میں سے بیشتر معاش کی تلاش میں بنگال یا بہار سے اپنے گھر بار چھوڑ کرآگرہ آئے ہیں۔یہ سمجھنا بعید از عقل نہیں کہ غریب مسلمانوں کو تاک کر نشانہ بنایاگیا۔ انہیں راشن کارڈ ، آدھار کارڈ ، پانی کی سپلائی جیسی چیزوں سے للچایااورورغلایاگیا۔خوف کاپہلو اس سے اُجاکر ہوجاتاہے کہ جہاں شدھی کاپروگرام کیاگیا وہاں بجرنگ دل کے ورکرہتھیاروں کے ساتھ نہ صرف موجود تھے بلکہ پورے تقریب گاہ کو گھیرے ہوئے تھے ۔ ایک مسلم تنظیم کے سربراہ حاجی جمال الدین قریشی کابیان سامنے رکھیں تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ ان لوگوں کو دھوکہ دے کر بلایاگیا اورہتھیاربند بجرنگ دل کارکنوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر کرمذہب تبدیل کرنے پرمجبورکیا۔حکومت ہند پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے اورجبراً تبدیل مذہب کی روک تھام کے اقدامات کرے اورآگرہ واردات کے ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کرے کیوں کہ ان لوگوں نے ہندستان کے سیکولر اورجمہوری آئین کی دھجیاں اڑائیں ہیں لیکن اسی کے ساتھ مسلمانوں پر بھی فرض ہوجاتاہے کہ وہ اپنے سماج میں کمزور اوربے سہارا لوگوں کی طرف سے غفلت نہ برتیں بلکہ ان کی ہر طرح سے مدد کریں۔ آگرہ بی جے پی کاگڑھ نہیں ہے۔ وہاں کی سیاسی زندگی میں کانگریس اورسماج وادی پارٹی دونوں بڑی طاقتیں ہیں ۔ ان دونوں پارٹیوں کے اراکین کو چاہئے کہ وہ کمزور بے سہارا محتاج اور مخدوش مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق دلانے کے لئے سرکاری دفتروں کی بے حسی ختم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ جو مسلمان دوبارہ مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں ان کی ضرورتوں کی تکمیل پر فوری توجہ دی جائے اورہرممکن کوشش کی جائے کہ ان کی طرف اب بجرنگ دل اورسنگھ کے لوگ آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہوگیاہے کہ اترپردیش میں تبدیل مذہب کی روک تھام کا ایک سخت قانون ریاستی سطح پر بنایاجائے تاکہ اس قانونی سقم کافائدہ اٹھاکر بجرنگ دل یادوسری تنظیموں کے کارکن مسلمانوں کو گمراہ نہ کرسکیں۔اگر ان جھگیوں میں بجرنگ دل کے مسلح کارکنوں نے خوف اوردہشت کاماحول گرم کررکھاہے تو آگرہ پولس مرتد بنائے گئے مسلمانوں کے بیانات حاصل کرکے ان کے خلاف تمام موجودہ لائق عمل قوانین کے تحت فوری کارروائی شروع کردے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Agra Muslim conversion incident. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں