دہلی میں آبروریزی کی وارداتیں - ذہنیت بدلنے پر زور دینا ضروری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-09

دہلی میں آبروریزی کی وارداتیں - ذہنیت بدلنے پر زور دینا ضروری

rapes-necessity-to-emphasize-on-mentality-change
دہلی میں آبروریزی کے واقعات مسلسل اخبارات کی زینت بنے رہتے ہیں۔ میڈیا میں ایسی کسی واردات کا آنا اور اس پر رد عمل کا ہونا اس لئے زیادہ لگتا ہے کہ دہلی قومی راجدھانی ہے اور یہاں میڈیا دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ سرگرم ہے۔ اور کوئی بھی خبر بہت تیزی کے ساتھ نہ صرف ترسیل ہوجاتی ہے بلکہ اس پر رد عمل بھی بننے لگتا ہے۔ سماجی، قانونی اور دیگر سطحوں پر اس کی مذمت ہوتی ہے ، کارروائی ہوتی ہے، کچھ فیصلے کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد پھر چیزیں وہیں پہنچ جاتی ہیں جہاں سے ان کا آغاز ہوا ہوتا ہے۔ کرائے کی ٹیکسی میں ایک 25سالہ عورت کی آبروریزی ان دنوں قومی راجدھانی کے ذرائع ابلاغ میں نمایاں آنے والی ایک خبر ہے۔ ارون جیٹلی جیسے سینئر لیڈران نربھے ہولناک آبروریزی و قتل کیس کو چھوٹی سی واردات کہ کر ٹال جانا چاہتے ہیں لیکن شہر میں انسانی جانوں اور آبرو کی حفاظت کیلئے فکر مند طبقہ اس سے بہت پریشان ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ریپ کی وارداتیں رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ اس کا ایک سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ دہلی کو رزق حصول کیلئے چن کر جو لوگ باہر سے آتے ہیں وہ اس شہر کے ساتھ اپنا ذہنی اور قلبی تعلق پیدا نہیں کرسکتے اور لوٹ کی ایک ذہنیت کام کرتی ہے۔لوٹ لو ان کا موٹو ہے۔ صرف مالی سطح پر نہیں۔ بلکہ ہر سطح پر شہر کا استحصال ان کا مزاج ہے۔ اس مزاج کی وجہ سے عام حالات میں ایک ذمہ دار شہری دہلی میں مجرم بن جاتا ہے۔ اگر آبروریزی ،لوٹ، قتل، دھوکہ دہی اور دیگر جرائم میں ملوث مجرموں کے سماجی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو بیشتر صورتوں میں ایسے لوگ قصور وار ملتے ہیں جو شہر میں یا تو اکیلے رہتے ہیں یا پھر گروپ میں کام کرتے ہیں۔ یعنی ان کی ذاتی سوجھ بوجھ خاندان کے دائرے میں رہ کر بڑے چھوٹے کی تعظیم اور شفقت سے متاثر نہیں رہتی، بلکہ وہ شہر کے مالی وسائل کا اسحصال کرنے کے ساتھ دیگروسائل بھی لوٹنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دہلی آکر بسنے والے لوگوں میں دہلی اس کے مزاج اس کے کلچر، اس کے وسائل اور اس کی آبرو کا احترام سکھایا جائے۔ ہر معاشرے میں بدکردار لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی بدکرداری ہم مزاج بدکردار لوگوں کے ساتھ مل کر جو بھی گل کھلاتی ہے۔ وہ سماجی اصولوں سے ٹکرانے کے باوجود قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ لیکن آبروریزی کی ان تمام کیسوں میں قانون کا کھلواڑ بڑا صاف نظر آتا ہے۔ نربھے کیس میں دہلی کی مقامی شمولیت برائے نام تھی کیونکہ مجرموں کو قومی راجدھانی کے باہر دیگر ریاستوں جیسے کہ بہار سے پکڑ لایا گیا۔ اسی طرح جنوبی دہلی میں نارتھ ایسٹ کی ایک ملازمہ کی آبروریزی کے تمام مجرم میوات کے تھے۔ ایسی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ جن میواتیوں کو اجتماعی آبروریزی کے کیسوں میں پکڑا گیا تھا ا ن کے گھر والے اپنے لاڈلوں کی اس حرکت سے بھونچکے رہ گئے تھے۔ کیونکہ انہیں اندازہ نہیں ہوا تھا کہ جن سیدھے سادھے محنت کش بچوں کو انہوں نے محنت مزدوری کرکے دو پیسے کمانے کیلئے دہلی بھیجا تھا وہ قانون اور اخلاقیات دونوں کی سرحدیں پار کرکے ایک بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے کے اہل بن چکے تھے۔ نربھے کیس میں بدترین بربریت کا مظاہرہ جس مجرم نے کیا اس کی عمر 17سال تھی۔ پولیس نے آج تک اس کا نام ظاہر نہیں کیا ہے۔ نہ یہ بتایا ہے کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے ار کہاں کا ہے۔ لیکن جو باتیں چھن کر آئی ہیں وہ یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ اسے دہلی سے کوئی ایسی محبت نہیں تھی جو اسے اس بربریت کے مظاہرہ سے روکتی۔ دہلی میں گاڑی کھڑی کرنے کیلئے بھی قتل ہوجاتا ہے۔ روڈ ریج عام ہے۔ کرائے دار مالک کے درمیان مار پیٹ ہر تھانے میں روز کا کیس بن کر آتی ہے۔ گھریلو تشدد کی وارداتیں اپنے عروج پر ہیں۔ جو مقامی آبادی ہے وہ اپنی تہذیب اور اپنی آبرو دونوں کی حفاظت کیلئے پریشان ہے۔ جو آبادی باہر سے آئی ہے وہ دہلی کو رزق کے حصول کیلئے کو استعمال کرتی ہے۔ لیکن اس رزق کے اسباب کا احترام نہیں کرتی ۔ یہی جو کیب ڈرائیور پکڑا گیا ہے یہ عادی مجرم ہے۔ 2011میں بھی اسے آبروریزی کے ایک مقدمہ میں پکڑا گیا تھا لیکن وہ چھوٹ گیا۔ اب اسے ایک ذمہ دار کام سونپا گیا یہ دیکھے بغیر کہ اس کا ماضی کیا ہے۔ لیکن جو لوگ باہر سے دہلی آتے ہیں ان میں سے ہر کسی کا ماضی لائق احترام نہیں ہوتا۔ وہ شہر آنے کے بعد اپنا رویہ بدلتے ہیں اور ذمہ دار شہری کے حیثیت سے زندگی گذارنا چاہتے ہیں لیکن یہاں کی زندگی میں کوئی انکش نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اندر کا بگڑا ہوا آدمی دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے اور جرم کرنے کا پہلا موقع ہاتھ آتے ہی وہ اپنا کارنامہ انجام دے دیتا ہے۔ اس کیلئے لازمی ہے کہ شہر میں سرکاری نگرانی میں ایک بھر پور مہم شروع کی جائے جس میں کردار سازی اگر بنیادی موضوع نہ ہو تو بھی لوگوں کو ذمہ دار ضرور بنایا جائے۔ یہ احساس جگانے کی ضرورت ہے کہ دہلی صرف غلط صحیح ڈھنگ سے رزق کمانے کی جگہ ہی نہیں بلکہ ایک ایسامرکز ہے جس کا احترام ہر حال میں ہونا چاہئے۔ جب تک شہر سے ذہنی، جذباتی، قلبی، اخلاقی، روحانی محبت نہیں ہوگی دہلی میں آبروریزی ،قتل، لوٹ جیسے واقعات جرائم اوسط سطح سے زیادہ بڑے پیمانے پر ہوتے رہیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ ذہن نہیں بدلے جاتے ۔ مہم چلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کون سے لوگ بہکی ہوئی راہ چھوڑ کر ذمہ دار زندگی گذارنے کے اہل ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ پولیس اور قانون کو بھی اپنا کام پوری دیانت داری کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اس طرح کے مجرموں کے خلاف کیس کی تحقیقات میں کسی طرح کی نرمی یا تساہل کی گنجائش نہیں ہے۔ مقدمہ کی پیروی میں ذرا سی بھی ڈھیل کیس کے فیصلے پر اثر انداز ہوتی ہے اس لئے پیروی زیادہ شدت کے ساتھ کی جائے اور ایسے ہرمجرم کو عبرتناک سزا دی جائے۔ اگر قانون کہیں آڑے آتا ہے تو قانون بدل دیا جائے۔ نربھے کیس کا 17سالہ مجرم صرف قانون کی ایک کمزوری کی وجہ سے تین سال کی سزا حاصل کرکے آزاد ہوجائے گا۔ بقیہ زندگی وہ یا تو تاسف میں کاٹے گا یا جتنا بڑا کارنامہ اس نے 17سال کی عمر میں کیا ہے اس سے بڑے کارنامے کرے گا اور کیفر کردار کو پہنچے گا۔اس لئے اسلاح کی گنجائش ہر حال میں رہتی ہے اس کی کوشش ایک مہم کے طور پر ہونی چاہئے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Delhi rapes, necessity to emphasize on change of mentality. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں