25/دسمبر تجزیہ (بشکریہ: روزنامہ قاصد دہلی) اشہر ہاشمی
جہاں ایک طرف آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور ہندوتوا کی علمبردار دیگر سنگھی تنظیموں کے لیڈران جیسے کہ دھرن جاگرن سمیتی کے سربراہ ہندوستان کو ہندو راشٹر کہنے ، بنانے اور منوانے پر لگے ہیں، وہیں دوسری طرف مودی سرکار کیلئے مشکل یہ ہے کہ وہ ان کا ساتھ نہیں دے پارہی ہے۔ 16مئی کو نریندر مودی نے وزیر اعظم کا عہدہ اختیار کیا 1991کے بعد یہ پہلی حکومت تھی جو مرکز میں کسی سیاسی اتحاد کی مخلوط حکومت نہیں تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی واضح اکثریت لے کر اقتدار میں آئی اور وزیر اعظم کے عہدہ کیلئے پہلے سے مقرر کئے گئے امیدوار نریندر مودی کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف دلایا گیا۔ ہندوستان میں ایک سے زیادہ فکری دھارے چلتے رہے ہیں۔ ہندوتوا کا دھارا نام بدل کر شروع سے موجود رہا ہے اسی طرح ایک سیکولر دھارا ہے جس کی موجودگی ہمیشہ محسوس ہوئی ہے ۔ آزادی کے بعد ہندوستان کو اس کی کھلی چھوٹ حاصل تھی کہ اگر تب کے لیڈر چاہتے تو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا سکتے تھے لیکن لیڈروں نے ملک کی کثیر مذاہبی، کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی پہچان کا احترام کرتے ہوئے ایک ایسا جمہوری نظام اپنانے کا اعلان کیا جس میں تمام مذاہب کا یکساں احترام ہوگا۔ بحیثیت مملکت ہندوستان سیکولر جمہوریت ہے۔ جب تک اس کی اس پہچان کو آئینی اعتبار سے تبدیل نہ کردیا جائے تب تک ہندوستان سیکولر جمہوریہ ہی رہے گا۔ 67سال کے بعد ایسے حالات بنے ہیں جن میں ہندو کی طاقت کو متحد اور مرکوز کرکے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف بھارتیہ جنتا پارٹی کو واضح اکثریت ملی ہے۔ ظاہر ہے کہ حکمران پارٹی میں شامل یا اس سے الگ رہ کرکے اس کی حمایت کرنے والے لوگ، ادارے، انجمنیں، افراد اور اس کے ہمدرد سماج میں اپنی عزت دارانہ جگہ تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس عمل میں جو اوزار ان کے ہاتھ لگے گا اسی کو استعمال کریں گے۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ وی ایچ پی ، آر ایس ایس ، بجرنگ دل اور دیگر سنگھی تنظیمیں اگر بہت بڑے پیمانے پر فرقہ واریت پھیلانے میں مصروف ہیں تو یہ ان کی مجبوری ہے جب کہ بی جے پی کے سامنے کوئی مجبوری نہیں۔ وہ ایک جمہوری اعتبار سے منتخب کی گئی پارٹی ہے جسے عوام نے اقتدار سونپا ہے اور یہ جان کر کہ بی جے پی کو اقتدار دینے کا مطلب وزیر اعظم بنانا ہے۔ کچھ جلدی میں وزیر اعظم بھی ہیں۔ کچھ جلدی میں بی جے پی بھی ہے۔ لیکن یہ دونوں آئین کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بی جے پی سے باہر یا حکومت سے باہر سنگھی تنظیموں پر قانون کا احترام لازمی ہوتا ہے ، پھر بھی وہ قانون شکنی کریں تو قانون جواب طلب کرسکتا ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے مودی یا بی جے پی آئین کی بے حرمتی نہیں کرسکتے۔ اس لئے سنگھی تنظیموں سے الگ بی جے پی اور مودی کا ایک موقف ہے جس کا بیان کرنے میں عجلت سے کام نہیں لیا جارہا ہے۔ نریندر مودی نے سرمائی اجلاس کے دوران راجیہ سبھا میں خود حاضر ہو کر تبدیل مذہب پر بحث سننے اور اس کا جواب دینے سے گریز کیا۔ نتیجے میں راجیہ سبھا آخری ہفتہ کے دو دن اور اس سے پہلے کے پورے ہفتے ٹھپ رہی۔ اگر مودی نے راجیہ سبھا میں حاضر ہونے سے گریز نہیں کیا ہوتا تو مودی سرکار کا موقف عوامی اقلیم میں ہوتا۔ مودی سرکار کا موقف گو کہ آیا ہے لیکن وینکیا نائیڈو یعنی وزیر پارلیمانی امور کے حوالے سے ۔ لوک سبھا میں سرمائی اجلاس کے آخری دن شور وغل کے درمیان وینکیا نائیڈو نے اس کا اعلان کیا کہ مودی سرکار سیکولر سرکار ہے ۔ اب وینکیا نائیڈو اور ان کی حکومت سے ہندوستانی عوام کا یہ مطالبہ ہو گا کہ وہ مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کریں۔ مودی نے اس سلسلے میں پر اسرار خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔ مسلمانوں کے سلسلے میں ان کا بطور وزیر اعظم پہلا بیان دورہ امریکہ پر جانے سے پہلے سی این این کے ذکریا کو انٹر ویوں دیتے ہوئے آئے جس میں مودی نے کہا تھا کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے حب وطن پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان دیش کیلئے جئے گا دیش کیلئے مرے گا۔ لیکن اس بیان کا رخ گھریلو سامعین اور ناظرین کی طرف نہیں تھا ۔ تب مودی امریکہ کو خطاب کررہے تھے۔ یہ پیغام دے رہے تھے کہ بطور وزیر اعظم نریندر مودی وہ انتظام کار نہیں جو بطور وزیر اعلی گجرات تھا۔ یہ ہندوستان کی امریکہ میں مارکیٹنگ کی تدبیر کا حصہ ایک سیاسی بیان تھا۔ گو کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اس بیان کا بھی صدق دلی سے خیر مقدم کیالیکن ہندوستان کا مسلمان دل سے یہ چاہتا ہے کہ نریندر مودی مسلمان ، تبدیل مذہب، فسادات او رایسے ہی معاملات پر اپنا پورا موقف کھل کر پارلیمنٹ کے سامنے پیش کریں۔ ہندوستان کی آباد ی کا ایک لازمی بڑاجزء ہونے کے ناطے مسلمان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ نریندر مودی سرکار اپنی سیکولر شناخت کا اعلان وزیر اعظم کی زبان سے کرے۔ وینکیا نائیڈو نے جو اشارہ دیا ہے وہ قانونی حیثیت پر یا آئینی حیثیت پر ٹکے رہنے کا اشارہ ہے ، مودی کا جو بیان آئے گا وہ بطور انتظام کار ان کے کام کاج کے ایجنڈے کواجاگر کرے گا۔
***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
|
اشہر ہاشمی |
Modi government is secular - Naidu announced in Parliament. Article: Ash'har Hashmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں