بھوپال گیس سانحہ کے 30 سال مکمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-03

بھوپال گیس سانحہ کے 30 سال مکمل

ایم آر نارائن سوامی/ آئی اے این ایس
آج سے ٹھیک30سال قبل یعنی2-3دسمبرکی درمیانی شب (1984) کو بھوپال میں گویا ایک قیامت صغریٰ برپا ہوگئی تھی ۔ اس وقت کے یو این آئی کے ڈپٹی جنرل منیجر سینئر صحافی یو آر کالکور نے بھوپال گیس المیہ کے دو ہی گھنٹوں بعد اس المیہ کے تعلق سے رپورٹنگ کی تھی ۔ اس وقت اس تباہی کی شدت پوری طور پر سامنے نہیں آئی تھی اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ گیس المیہ، دنیا کی بدترین صنعتی تباہی تھا ۔ بھوپال کے ہمارے رفقاء جو کچھ یقین کے ساتھ جانتے تھے وہ کالکور کو بتا چکے تھے یہ ایک ایسی آفت تھی جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اور متاثرین کو مدد کی ضرورت ہے ۔’’میں3دسمبر(1984)کی دوپہر کے بعد بھوپال پہنچا ۔ یہ شہر ، ہزاروں نعشوں کے تعفن سے گھرا ہوا تھا ۔ یونین کاربائیڈ کے کیڑا مار دوا پلانٹ سے ہلاکت خیز گیس کا اخراج ہوا تھا۔‘‘ کالکور نے بتایا کہ وہ دو یا تین دنوں کے لئے بھوپال آئے تھے لیکن یہ مدت16روز طویل ہوگئی کیونکہ گیس المیہ کی تباہی کچھ ایسی تھی کہ ہزاروں بے قصور افراد کی زندگیاں تہہ و بالا ہوگئیں۔ کارپوریٹ ادارہ کی لالچ ، اس المیہ کا سبب بنی ۔ چونکہ مدھیہ پردیش کے حکام کو تباہی کے بارے میں غالباً زمینی حقائق کا علم نہیں تھا، دنیا کی اس سب سے بڑی تباہ کن خبر کی رپورٹنگ کو صحافیوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ یقین کے ساتھ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ کتنے لوگوں کی اموات ہوئی تھیں ۔ پولیس کے پاس بھی کوئی ٹھیک ٹھیک تعداد نہیں تھی ۔ بیشتر ہسپتالوں میں بھی اس تعلق سے کوئی یقینی بات نہیں کہی جارہی تھی ۔ اس وقت کے چیف منسٹر ارجن سنگھ اور ان کے نائبین کا بھی کہیں پتہ نہیں چل رہا تھا ۔ جہاں تک خاطی یونین کاربائیڈ (کارپوریشن) کا تعلق ہے ، اس نے محض اپنے ہاتھ اوپر اٹھالینے پر اکتفاکیا ۔ بتایاجاتا ہے کہ زہریلی گیس ایم آئی سی کا اخراج2-3دسمبر کی درمیانی رات1984ء کوہوا تھا ۔ یونین کاربائیڈ کے چند ایک ملازمین کو چھوڑ کر بھوپال کے سارے مکین اس اچانک اخراج پر ہکا بکا رہ گئے ۔ ہزاروں لوگ جو گہری نیند میں تھے، آپنی آنکھوں میں شدید تکلیف لئے ہوئے اچانک بیدار ہوئے ۔ بعض لوگوں کو دورے آنے شروع ہوگئے ۔ کسی ہولناک فلم کی طرح ہزاروں مردو خواتین اور بچے تکالیف کے عالم میں اپنے اپنے گھروں سے چیختے اور روتے ہوئے بھاگنے لگے ۔ انہیں خود یہ پتہ نہیں تھاکہ وہ کس طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ہزاروں افراد تو سڑکوں پر گرکر ہی ڈھیر ہوگئے ۔24تا48گھنٹوں میں3500اموات ہوئیں ۔ جانور اور پرندے بھی ہزاروں کی تعداد میں فوت ہوگئے ۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو بھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ زہریلی گیس کے متاثرین کا فوری علاج کس طرح کیاجائے ۔ کاربارئیڈ پلانٹ( موجودہ تباہ شدہ پلانٹ) کے بالکل باہر ایک بڑی جھونپڑی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ۔
دو فارصلہ پر واقع بھوپال ریلوے اسٹیشن پر بھی بعض ملازمین ہلاک ہوگئے ، بھوپال پہنچنے والی ٹرینوں کا رخ بعجلت دوسری جانب موڑ دیا گیا۔ اس طرح مزید تباہی کو ٹالا جاسکا ۔ گیس کے بیشتر متاثرین جو ہلاک نہیں ہوئے لیکن بینائی سے محروم ہوگئے ۔اور مختلف عوارض میں مبتلا ہوگئے ۔ اس طرح یہ زندگی ان کے لئے جہنم بن گئی ۔ بعد میں متاثرین کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ بہ اعتبار مجموعی 1984سے اب تک مہلوکین کی تعداد زائد از25ہزار ہوگئی ہے ۔ مہلوکین کی تعداد معلوم کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ مین ہسپتالوں کے مردہ خانوں یا ہندو شمشانوں یا مسلم قبرستانوں کو جاکر مہلوکین کی تعداد معلوم کی جائے۔ اس اطلاع کے حصول کا ایک اور ذریعہ بے لوث کارکنوں کا ایک چھوٹا سا گروپ تھا ، جو آج تک بھی اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ مجھے آج تک بھی ایک مسلم گورکن کے وہ الفاظ یاد ہیں جو اس نے کہے تھے ۔ شدید سردی کے باوجود وہ قبریں کھودنے میں مصروف تھا اور پسینہ میں شرابور تھا ۔ اس نے بتایا کہ’’ مجھے اندازہ نہیں ہے کہ کتنے لوگ فوت ہوئے ہیں۔ آج کتنی نعشیں آئی ہیں مجھے اندازہ نہیں ہے۔ میں تو فقط قبریں کھود رہا ہوں ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی نعشیں آئی ہیں ۔ اس ہولناک المیہ ، جرم پریونین کا ربائیڈ نے جو ،اَب ڈوجونس کی ملکیت ہے ۔معمولی سا مالیاتی معاوضہ دے کر دامن چھڑا لیا ۔ کیا ہندوستانیوں کی زندگیاں اتنی سستی ہیں؟

India's Bhopal gas tragedy, 30 years on

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں