بوڈو فرنٹ کے خلاف کڑی کارروائی - پوری قیادت کو ختم کر دینے کا حکم جاری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-29

بوڈو فرنٹ کے خلاف کڑی کارروائی - پوری قیادت کو ختم کر دینے کا حکم جاری

assam-military
آسام میں راج ناتھ سنگھ نے بدھ اور جمعرات کو دو دن قیام کرکے دونوں فسادہ زدہ اضلاع سونت پور اور کوکرا جھاڑ کے حالات کا جائزہ لیا اور سلامتی ایجنسیوں کو یہ ہدایت دی کہ دو مہینے کے اندر نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ (ایس) کی پوری قیادت کو ختم کردیاجائے۔ ان کے اس حکم کے مطابق جمعہ کیصبح سے فو جی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ ایک نظر اس پر ڈالا جائے کہ بوڈو آٹو نومس کونسل میں پڑنے والے چار اضلاع کوکراجھاڑ،بکسا،اودل بڑی اور چرانگ میں فسادات کا سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔یہ چاروں اضلاع سابقہ سات اضلاع کو کرا جھاڑ، بون گائی گاؤں، بھار پیٹا، نل باڑی، کامروپ، دارنگ اور سونت پور کو کاٹ کر بنائے گئے ہیں۔بوڈو انتہا پسندوں نے 2012میں مسلمانوں کے خلاف ایسے ہی حملے کئے تھے ایسے خون بہایا تھا، ایسے ہی انہیں بے گھر کیا تھا۔اور اس علاقے سے نکل جانے پر مجبور کردیا تھا۔ جس طرح آج صرف کوکرا جھاڑ ضلع میں 75000ہزار آدیواسی (سنتھالی) بے گھر ہوئے ہیں۔ سونت پوری میں7500سو لوگ خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ان دونوں اضلاع میں اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پہنچنے میں کوشاں افراد کے رہنے کیلئے عارضی طور پر 60سے زائد کیمپ لگائے گئے ہیں۔ 57کیمپ کوکرا جھاڑ کے دو سب ڈویزنوں میں ہیں، بقیہ سونت پور میں۔بوڈو انتہا پسندوں کا یہ کوئی نیا فرقہ وارانہ حملہ نہیں ہے وہ ا س سے پہلے بھی اسی طرح کی جارحانہ، پرتشدد، ہلاکت خیز اور تباہ کن سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔2012میں انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اسی طرح کی فسادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ جولائی 2012 میں بوڈو انتہا پسندوں اور بنگلہ مسلمانوں کے درمیان بیس جولائی 2012کو اور آٹھ اگست 2012کو فسادات میں، جن میں حملہ آور بوڈو تھے اور حملوں کا شکار مسلمان، کل ملا کر 77افراد ہلاک ہوئے تھے اور 270ریلیف کیمپوں میں چار لاکھ سے زائد مسلمان پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ چار سو سے زائد گاؤں فسادات سے متاثر تھے۔ گیارہ افراد اب بھی لا پتہ ہیں۔ اس وقت مرکزی حکومت کا رویہ اتنا شدید نہیں تھا کیونکہ حملہ آور بوڈو قبائل ہندو تھے۔ اور عذاب جھیلنے والے مسلمان۔ اس بار کرسمس سے پہلے سنتھالوں پر بوڈو فرنٹ کے حملوں کی شدت ویسے ہی ہے اب ہلاک شدگان کی تعداد77,78ہے۔ 75ہزار سے زائد سنتھال کوکراجھاڑ میں پناہ گیر ہیں۔ اور 7500سونت میں ۔ اور سنتھالوں میں بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور اڑیسہ کے اضلاع پر مشتمل آدیواسی علاقوں کے وہ باشندے ہیں جو کئی صدی پہلے انگریزوں کی حکومت آنے کے بعد چائے اور چاول کی کاشت کیلئے ان علاقوں سے لے جا کر آسام میں بسائے گئے۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کا مذہبی عقیدہ آدیواسیوں کا پرانا عقیدہ ہے۔ جس کے تحت انسان جانور، پہاڑ، پتھر، پیڑ پودے سب میں جان ہے، اور سب لائق پرستش ہیں۔ وہ بھی ہیں جو عیسائی ہوگئے اور ان میں سے کچھ سناتنی ہندوبھی ہیں۔ جب کہ بوڈو نیشنل ایسٹ فرنٹ کی قیادت عیسائیوں پر مشتمل ہے یعنی اس بار بھی بوڈو حملہ آور ہیں لیکن قیادت عیسائیوں کے پاس ہے اور مار کھانے والے مسلمانوں کی جگہ سنتھال آدیواسی ہیں اور حکومت کا رویہ یہ ہے کہ وزیر داخلہ نے پوری بوڈو قیادت کو دو مہینے کے اندر ختم کردینے کا حکم جار ی کیا ہے۔ آسام کی آبادی میں بوڈو اور اسی طرح کے دوسرے آدیواسی قبیلے اصل قبیلے ہیں۔ آسام میں مسلمانوں کی آمد 1600کے بعد شروع ہوئی۔ عیسائی اور بعد میں آئے۔ ایک نسل ایک ایسے چینی کی ہے جو تیرہ سال کا سفر کرکے آسام پہنچا تھا اور اس نے آسام میں چینی تکنیک سے چاول کی کاشت شروع کی تھی۔ اس کی نسل کے لوگ بھی خود کو مقامی قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس نے وہاں مقامی عورتوں سے بڑے پیمانے پر شادیاں کی تھیں اور اس کی نسل اب کافی طاقتور ہوچکی ہے۔ وزیر اعلی ترون گوگوئی کی مشکل یہ ہے کہ انہیں ستمبر سے دسمبر تک مرکزسے مستقل یہ خفیہ اطلاع ملتی رہی کہ وہاں کشیدگی پیدا ہورہی ہے اور حملوں کا احتمال ہے۔ لیکن وہ کچھ کر نہیں سکے۔ کیونکہ انہوں نے اقتدار میں برقرار رہنے کیلئے نہ صرف بوڈو انتہاپسندوں بلکہ الفا سمیت تمام انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ ایک سمجھوتہ کررکھا ہے جس میں وہ اب تک اس لئے کامیاب ہیں کہ اجتماعی تشدد یا منصوبہ تشد دکی صورت میں جارح فریق کے ساتھ بڑی کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔ مرکز میں ایک سے زیادہ مصلحتوں کے تحت این ڈی ایف بی ایس کے پوری قیادت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ایک مصلحت یہ ہے کہ سنتھالوں کی حمایت میں کھڑے ہو کر وہ آسام سے باہر ان سنتھالوں کے رشتہ داروں یا ان کی نسل کے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے ہمدردہیں۔ دوسرے عوام کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ گوگوئی حکومت جو اتفاق سے کانگریسی حکومت ہے ناکارہ ہے اور فسادیوں سے ملی ہوئی ہے۔ تیسرا پیغام یہ ہے کہ ہندوؤں پر حملہ آور کسی گروپ کی اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والی قیادت کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ گو کہ بڑے پیمانے پر کارروائیاں چل رہی ہیں۔ اور جمعرات سے اب تک کوئی بڑی واردات نہیں ہوئی ہے لیکن یہ تسلیم کرلینا کہ آدیواسی یا مسلمان بوڈو فرنٹ کی قیادت کی ہندو یا عیسائی حملوں سے بچی رہے گی۔ آسام میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ بنگلہ دیشیوں یا بنگلہ دیشی دراندازوں کے نام پر وہاں ایک باضابطہ تحریک کھڑی رہی ہے جس کی وجہ سے پوری ریاست میں مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست ماحول بنارہا ہے۔ اس کے باوجود یہ عجیب وغریب بات سامنے آئی ہے کہ آسام گنو پریشد کے ایک چھوٹے سے دور کو چھوڑ کر زیادہ تر وقتوں میں ریاستی حکومت کانگریس کے پاس رہی ہے۔ آج بھی ترون گوگوئی کانگریس کے وزیر اعلی ہیں۔ الفا اور بوڈو انتہا پسندوں کے علاوہ کئی تنظیمیں آسام کو مرکز سے آزاد رکرانے کیلئے دہائیوں سے مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس وقت انتہاپسندوں کی طاقت پہلے سے کم ہوگئی ہے۔ جس کا ایک سبب اتنظامی کاررائی ہے ۔ اور دوسرا کانگریسی قیادت کی سمجھوتہ کرنے کی روش ۔ لیکن آسام فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہا ہے ۔ سابقہ فسادات کو چھوڑ دیں تو ادھر کے کئی برسوں میں بوڈو انتہا پسندوں کا عذاب بہت نمایاں ہے۔ 2012میں بوڈو انتہا پسندوں نے بوڈو علاقوں میں آباد مسلمانوں کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لینے کی کوشش کی اور چار لاکھ افراد کو گھر بار چھوڑ کر یہاں وہاں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ مسلم دشمن فسادات میں 77افراد مارے گئے گیارہ آج بھی لاپتہ ہیں۔ کارروائی کے نام پر ایسا کچھ نہیں ہوا جو نمایاں ہو۔ ابھی کرسمس سے پہلے بوڈو لینڈ کے ہی سونت پور اور کوکرا جھاڑ کے علاقوں میں فسادات ہوئے اس بار نشانہ آدیواسی ہیں۔ جو مقامی آدیواسی قبیلوں سے الگ ہیں۔ کیونکہ انہیں کئی صدی پہلے کھیت مزدوروں کے طور پر مشرقی اوروسطی ہندوستان کے آدیواسی علاقوں سے لا کر بسایا گیا۔ اگرچہ انہوں نے آسام کی زبان وہاں کا رہن سہن، وہاں کا کلچر اور وہاں کی زندگی کے دیگر حقائق کو اپنا لیا ہے۔ لیکن اصلا سنتھال ہی ہیں جن کو مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ اور اڑیسہ جیسی ریاستوں میں سنتھال یا سوتال بھی کہا جاتا ہے۔ ہندوستان میں شاید کوئی دوسری ایسی ریاست نہیں جس میں اتنی رنگا رنگی ہو جتنی آسام میں ہے۔ آسام کو ہندواکثریت والی ر یاست کہا تو جاتا ہے لیکن اس کو چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔ آسام کی مقامی آبادی جن آدیواسیوں پر مشتمل ہے ان میں بوڈو ہیں۔ میشنگ ہیں، میری ہیں، اور ایسے ہی کئی دوسرے ہیں۔ یہ سب ایک اعتبار سے ANIMISTہیں۔ جن کو حیات پرست بھی کہا جا سکتا ہے۔جن کے فلسفیانہ مذہبی اور روحانی عقیدے میں یہ شامل ہے کہ روح صرف انسانوں میں نہیں ہوتی بلکہ دوسرے جانوروں، پودوں، چٹانوں اور فطری مظاہر جیسے کہ بجلی کی چمک اور بادل کی گرج ، پہاڑوں اور دریاؤں میں بھی روح ہوتی ہے یعنی انہیں آپ روح پرست بھی کہ سکتے ہیں۔ 1228میں چین کے یونن سے ملک بدر کیا ہوا ایک شخص سو کو پھا تیرہ برس تک پیدل سفر کرکے وادی برہمپتر پہنچا اور وہاں اس نے اپنی ایک مملکت اہوم قائم کی۔ اس کی حکومت چھ سو سال تک رہی ۔ وہ اپنے ساتھ بارش کے پانی میں چاول کی کاشت کی ٹیکنالوجی لے کر آیا تھا اس نے کڑی حکومت بھی کی۔ شنکر دیوا کی صورت میں ہندوازم 1500میں آسام پہنچا اور تین سو سال تک ایک ایک دو دو کرکے ہندو وادی برہمپتر میں پہنچتے رہے۔ 1840تک جب کہ برطانوی حکمران چائے دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے اور آسام کی آب وہوا میں چائے کی کاشت کیلئے موافق ماحول دیکھا ت انہوں نے مقامی غیر ڈسپلنڈ یا گنوار آبادی کی جگہ چائے اور چاول کے کھیتوں میں کا م کرنے کیلئے سنتھالی کارکنوں کو لانا شروع کیا۔ روز گار سے وابسطہ معاملات میں سنتھالوں کی مداخلت کے ساتھ آسام میں مقامی آدیواسیوں اور سنتھالوں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول بن گیا۔ پندرہ سو کے بعد سو کا فا کی قائم کردہ اہوم مملکت کے بادشاہوں اور کوچ بادشاہوں نے ماہر علم مادنیات، پیتل کے مزدوروں اور بندوق بنانے والوں کی حیثیت سے مسلمانوں کو درآمد شروع کیا۔ اس طرح مسلمانوں کی ایک آبادی مقامی آدیواسیوں ، اہوم نسل کے لوگوں اور سنتھالوں کے ساتھ آکر آباد ہوگئی۔ 1947میں تقسیم وطن ہوئی۔ 1970میں بنگلہ دیش بنا ان دونوں تاریخ واقعات میں آسام اور بنگال جیسی سرحدی ریاستوں کے لوگوں کیلئے چین سے رہنا مشکل بنا دیا۔ جنگ سے بچنے کیلئے مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش سے لوگ آسام آئے۔ اس کے علاوہ بھی دونوں طرف کے بنگال سے چاول کی کاشت کے موسم میں مزدور آسام جاتے تھے اور فصل کٹنے کے بعد لوٹ آتے تھے گویا اقتصادی مہاجرت کا سلسلہ آزادی سے قبل کی دہائیوں میں بھی جاری تھا۔ آگے چل کر مزدوری کیلئے آنے والوں نے پلٹ کر جانا بند کردیا۔ اسی کے ساتھ بنگلہ دیشیوں کا سوشہ شروع ہوا۔ سوال یہ ہے کہ آسامی کون ہے۔ اہوم مقامی عورتوں سے مسلسل شادیاں کررہے تھے۔ ان کی اولادیں پیدا ہورہی تھیں۔ بوڈو ہیں جو دو حصوں میں بٹ گئے ایک ہندو ہے۔ ایک حصہ عیسائی ہے۔ آبادی کا ایک حصہ ان بنگلہ بولنے والے مسلمانوں پر مشتمل ہے جو پوری بیسویں صدی میں یعنی آزادی سے پہلے اور اس کے بعد آکر آباد ہوتے رہے۔ اور ان سے بھی پرانی مسلم آبادی آسامی بولنے والے ان مسلمانوں کی جن کے آباء واجداد1600سے آکر آباد ہوتے رہے۔جو سنتھال وسط اور مشرقی ہندوستان سے آکر بسے ہیں وہ نو آبادیاتی زمانے میں بڑے کچلے مسلے ہوئے لوگ تھے کانگریس بنی تو وہ اس میں شامل ہوگئے ۔ آزاد ہندوستان میں جو ابتدائی قوانین بنے ان میں ایک قانون روپائی مزدور قانون 1951 ہے۔ جس نے ان لوگوں کو حقوق ، وقار اور حمایت دی۔ جس سے نو آبادیاتی انتظامیہ انکارکرتی رہی ہے۔ آج بوڈوز کا عیسائی دھڑا سنتھالیوں کو گولیوں سے چھلنی کررہا ہے۔ فرقہ وارانہ سیاست سر اٹھارہی ہے۔ آدیواسی سے ہندو بنائے گئے بوڈوؤں نے اس سے پہلے 2012میں زمینیں چھیننے کیلئے مسلمانوں پر زمین تنگ کی تھی۔ گوگوئی نے رفیوجی کیمپوں میں پناہ گیر لاکھوں مسلمان اور ہلاک شدہ کم وبیش سو مسلمانوں کیلئے کچھ نہیں کیا۔ 2014میں مسلمانوں نے اس کے خلاف غصے کامظاہرہ کرتے ہوئے بدرالدین اجمل کے آل انڈیا یونائٹیڈڈیموکریٹک فرنٹ کو ووٹ دے کر لوک سبھا میں اس کے تین ممبر پہنچا دیئے اور کانگریس کے دو ممبروں کو ہرا دیا۔ بالائی آسام میں بگانی، چائے باغات میں کام کرنے والے یا آدیواسی ورکروں نے اپنے یہاں سے کانگریس کو اکھاڑ پھینکنے کیلئے بی جے پی کی حماتی کی۔ اس وقت جب کہ بی جے پی اپنی جارحانہ فرقہ پرست ہندوتوا تحریک کو آسام میں پھیلانا چاہتی ہے ہندو بوڈو مسلمانوں کو ماررہے ہیں اور کرسچن بوڈو ہندو سنتھالوں کوختم کررہے ہیں اور حکومت بوڈو فرنٹ کی عیسائی قیادت کو ختم کررہی ہے۔ یہ صورتحال آسام کیلئے بہت خطرناک ہے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Army to Intensify Operations Against Bodo Militants in Assam. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں