دہشت گردوں کیلئے دلی دور نہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-08

دہشت گردوں کیلئے دلی دور نہیں

terror-alert
خفیہ ایجنسیوں کایہ الرٹ کہ پارلیمنٹ پرپھرحملہ کاخطرہ ہے،کشمیرکے حالیہ واقعات کے تناظر میں ہوش اُڑانے والی اطلاع

کشمیرمیں خوفناک قسم کے دہشت گردانہ حملوں کے دراز ہوتے سلسلوں کے درمیان یہ خبر بھی آگئی ہے کہ دہلی ہائی الرٹ پر ہے۔خفیہ ایجنسیوں کے دعووں کو اگر درست مان لیاجائے تو اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ہندوستانی ایوان نمائندگان کو دہشت گرد ایک بارپھر نشانہ بناسکتے ہیں کیونکہ بقول خفیہ ایجنسی جمہوریت کے سب سے بڑے مندر پردہشت گردانہ خطرات کے سائے منڈلارہے ہیں۔اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی کے ذرائع کے حوالہ سے ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں میں یہ بتایاگیاہے کہ پارلیمنٹ پر حملہ کی 13 ویں برسی سے پہلے ایک بار پھر ملک میں جمہوریت کے سب سے بڑے مندر پر دہشت گردحملہ کرسکتے ہیں۔ اسی ضمن میں خفیہ ایجنسیوں نے موجودہ پارلیمنٹ سیشن کے دوران لوک سبھا سکریٹریٹ کو سیکورٹی کے انتظامات کو چست اور درست کرنے اور گاڑیوں کی آمدورفت کی خصوصی نگرانی کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کے الرٹ کے بعد یہ خبر بھی آرہی ہے کہ حفاظتی انتظامات آناً فاناً میں چست کئے گئے ہیں اور دہلی کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ 16 ویں لوک سبھا کی تشکیل کے بعد ہی لوک سبھا کی اسپیکرنے سابق داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔اس کمیٹی کو سیکورٹی امور میں خامیاں تلاش کرنے اور سیکورٹی کے معاملات میں بہتری لانے سے متعلق تجویزپیش کرنے کو کہا گیا تھا۔غور طلب ہے کہ 2001 میں پارلیمنٹ پر حملہ میں پانچ دہشت گردوں سمیت 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ بھی محض ایک اتفاق ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے یہ الرٹ ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جبکہ دہشت گردی اور علاحدگی پسندی سے متاثرہ ریاست کشمیرمیں مسلسل دھماکوں کی گونج سنی جارہی ہے۔ چونکہ ریاست میں فی الوقت مرحلہ وار طریقے سے اسمبلی انتخابات کیلئے پولنگ کا سلسلہ جاری ہے،اس لئے دہشت گردوں اور علاحدگی پسندوں کے ذریعہ حملوں کا سلسلہ نئے انداز میں شروع ہو جانا فطری کہلا سکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے دعوے اگر درست ہیں،تو اس بات کے پختہ شواہد بھی مل گئے ہیں کہ حملہ آوروں کو پاکستان کی اعانت و مدد حاصل تھی۔بتایا یہ بھی جارہاہے کہ دہشت گردوں کے پاس سے جو اسلحہ و دیگر ساز و سامان برآمد کئے گئے ہیں،اُن سے بھی اس خیال کی توثیق ہوجاتی ہے کہ حملہ آوروں کا کنکشن پڑوسی ملک پاکستان سے تھا۔قیاس آرائی کی بنیادپرتبصرہ کرنے والوں کا یہ بھی خیال ہے کہ حملہ آورپوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اوراس کوشش میں بھی تھے کہ کئی دنوں تک تصادم کاسلسلہ چلتارہے۔
کشمیر میں دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ قبل سے موجود تھا،یہ صرف مکمل سچ نہیں،بلکہ حقیقی سچائی تو یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کا سایہ ملک پرہمیشہ ہی منڈلاتارہاہے ۔ ایک طرف اگریہ مسلمہ سچائی ہے تودوسری جانب اس سے بھی بڑی اور تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ کشمیر میں بطورخاص دہشت گردی کی سرکوبی کی جوکوششیں ہونی چاہئیں وہ بھی نہیں ہوپائیں اور بالعموم ہندوستان کو دہشت گردی کے حوالے جو خطرات لاحق ہیں،اِن کے حوالے سے بھی ایسی کوئی پیش رفت نہیں دکھائی جاسکی جس کے معنی خیز نتائج برآمدہوتے نظر آئیں ۔
جس طرح حالیہ دنوں میں دہشت گردوں نے کشمیر کو چوطرفہ طریقہ سے نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیاہے اور جس طرح ہندوستانی سیکورٹی جوان اس کی زد میں آتے چلے جارہے ہیں،یہ صورتحال تشویش کاباعث ہی نہیں بلکہ اضطراب کاسامان بھی ہے اور قومی سلامتی کے حوالہ سے خطرے کی بہت بڑی گھنٹی بھی۔ قوم پرستی کے خبط میں مبتلاعناصر کل تک یہ کہتے رہے تھے کہ جو جماعت مرکز یا ریاست میں برسراقتدارہے اس نے قومی سلامتی اور ملک کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش نہیں کی اور سستی شہرت کے حصول کیلئے قومی سلامتی کا بیڑا بھی غرق کرکے رکھ دیا۔ آج کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں کافی بدل چکی ہے اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ خود کوگردن تک قوم پرستی میں ڈوبی ہوئی جماعت قرار دینے والی پارٹی فی الوقت ملک پر حکومت کررہی ہے اورمرکزکی ایک' مضبوط قیادت'کوکشمیر کے'مٹھی بھر'دراندازوں اور دہشت گردوں سے محاذآراء دیکھاجارہاہے۔مرکز میں ایک مستحکم حکومت اِن معنوں میں قائم ہے جو قوم پرستی کا ڈنکابجاتی رہی ہے۔ حکومت کو مکمل اکثریت بھی حاصل ہے جس کی بناپر یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ مودی سرکار کوئی بھی مضبوط فیصلہ لے سکتی ہے اورفیصلہ سازی کے تعلق سے حکومت کی بقا پر کہیں کوئی خطرہ لاحق ہونے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ اس تناظرمیں جب ہم کشمیر میں سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں ،سرحد پر جاری نقل وحرکت کودیکھتے ہیں اور سیکورٹی کے جوانوں کی لہولہان لاشیں ہماری نگاہوں کی سامنے سے گزرتی نظرآتی ہیں تو یہ سوال کھڑا ہوجاتاہے کہ قوم پرستی کو ثابت کرپانے میںیاقومی سلامتی کو یقینی بنانے میں اور ملک کی سرحدوں کے تحفظ میں کیا مودی سرکارکامیاب کہلانے کی مستحق ہے؟اقتدارمیںآنے سے قبل تک خودنریندر مودی نے پاکستان کو للکارنے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات باربار کہی تھی ۔ اقتدار میںآنے کے بعد بھی ان کی جانب سے کچھ ایساپیغام دیاگیاتھا کہ اگر پاکستان کی جانب سے ہمارے ایک جوان کو ماراجاتاہے تو اس کے جواب میں پاکستان کے دو جوانوں کی زندگی کا قصہ تمام کردیاجائے ۔ یہ فولادی عزم محض دنیاکودکھانے کیلئے تھا یا ملک کے تحفظ اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے حوالہ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی ، یہ ہمیں نہیں معلوم۔ البتہ جس انداز میں کشمیر کو دہشت گردوں نے میدان جنگ بنانے کی کوشش کی ہے اور جس طرح فوج کے کیمپوں پر بھی حملہ آور ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ،اس سے اندیشہ ہائے دراز کا اظہارکیاجانااورتشویش کاپایاجانا فطری کہلاسکتاہے۔ بڑی عجیب بات یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف محاذ آرائی کے حوالہ سے طول طویل باتیں ابھی بھی کہی جارہی ہیں اور پاکستان کی جانب سے دراندازی کے مسئلہ پر بھی حکومتی سطح پر ناقابل برداشت رویہ اختیار کرنے کا پیغام دیاجارہاہے لیکن دوسری جانب عملاً کیاظاہر ہورہا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کشمیر میں جس طرح دراندازی کی مسلسل کوشش دیکھی جارہی ہے، اس سے یہ پیغام بھی ابھر کر سامنے آجاتا ہے کہ پاکستان کو معقول جواب دینے میں حکومت کامیاب نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم یہ بھی ہے کہ ہمارے وزیراعظم یہ کہنانہیں بھولتے کہ کشمیرمیں فوجی کیمپوں پر حملہ ہندوستانی جمہوریت پر حملہ کے مترادف ہے ۔ جھارکھنڈ میں انتخابی ریلی کوخطاب کرتے ہوئے آج ہی انہوں نے شہید جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرناضروری سمجھا اور یہ بتانا بھی کہ حکومت کیلئے دراندازی اور دہشت گردی قابل برداشت نہیں۔ اہم سوال یہ کھڑا ہوجاتاہے کہ جب حکومت کو یہ برداشت نہیں تو اس نے دراندازی کے سلسلوں کو روکنے اوردہشت گردی کے امکانی خطرات کو ٹالنے کیلئے ایساکونسا نسخہ آزمایاجو حالات کارخ بدلنے میں کارگر کہلاسکے۔یہ سوال معقول بھی ہے اور جائز بھی کہ جب کشمیرمیں لاکھوں فوجی جوان تعینات ہیں اور ان جوانوں پر مکمل کنٹرول مودی سرکار کا ہی ہے توپھرکشمیرمیں دہشت گردی کا احیاء کیوں دیکھنے کو مل رہاہے؟ کشمیرکی موجودہ صورتحال کو دیکھنے کے بعد بعض تجزیہ نگار یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہیں کہ حکومت نے صورتحال کا مقابلہ کرنے کی کوئی ایسی کوشش نہیں کی جس سے دراندازی کاسلسلہ کمزورپڑے ، پاکستان کی جانب سے مزاحمتی سلسلے رک سکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر میں برسرپیکار علیحدگی پسند طبقہ کی مزاحمتی سرگرمیوں کو لگام دیا جا سکے۔محض انتخابی جلسوں میں جوانوں کی شہادت کو موضوع گفتگو بنانا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کاارادہ نہیں رکھتی ، کیا یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ دہشت گردی اور دراندازی کے مسئلے کوبھی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش ہورہی ہے۔ شاید یہی وہ وجہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں کشمیر کے حالیہ واقعات کے تناظرمیں مرکزی حکومت سے یہ سوال دریافت کررہی ہے کہ 56انچ کا سینہ رکھنے والے ہمارے وزیراعظم اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں کیوں ناکام ہیں؟یہ بھی قابل غور نکتہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے تشویش اور فکرمندیوں کا جواظہارکیاجارہاہے اس کا مقصد کیاہے؟اپوزیشن کی جماعتوں کیلئے قومی سلامتی کا موضوع فکرکا سامان کیوں بن گیاہے،اسے بھی سمجھنا ضروری ہے۔ بلامبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کشمیر کی یہ صورتحال خودہی اپوزیشن کی جماعتوں کیلئے حکومت سے جواب طلبی کا موقع دے رہی ہے۔مرکزمیں بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت کے قیام سے پہلے یوپی اے کو قومی سلامتی کے ایشوپرگھیرنے اور لعنت و ملامت کرنے کاچونکہ کوئی بھی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا گیا تھا،لہٰذا یہ فطری ہے کہ کشمیرمیں پھوٹنے والے ہر ایک بم دھماکہ کے بعد اپوزیشن کا غصہ بھی مودی سرکارپر پھوٹ پڑتا ہے اور کسی نہ کسی لیڈر کویہ دریافت کرتے سناجاتا ہے کہ سرکار کیا کررہی ہے؟ویسے ہمیں یہ بھی نہیں بھولناچاہئے کہ مودی سرکار نے دہشت گردی اور دراندازی سے مقابلہ کے حوالہ سے جوطریقہ کار اور عملی پیش رفت دکھائی ہے، وہ خودبھی اطمینان کااحساس نہیں دلاتی۔ کشمیر دہشت گردوں کیلئے جنت سے کم نہیں۔چونکہ پاکستان سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں لہٰذا وقتاً فوقتاً ایسے جنگجو سرحد پار سے ہندوستانی حدود میں داخل ہوتے رہے ہیں جن کامقصد ہی یہی ہواکرتاہے کہ وہ ناپاک کھیل کھیل کر پاکستان کے مفادات کاتحفظ کریں۔ اس صورتحال سے مقابلہ کی حکمت عملی ہماری سرکار نے کیا اختیار کی ہے ،یہ سمجھ سے باہر ہے ۔ سرحد پر نگرانی کا ایسا کوئی معقول نظم نہیں کیاجاسکاہے جس سے یہ تاثر ابھر سکے کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہیں ۔ اگر سرحدیں واقعی محفوظ ہوتیں اور دراندازی کوروک پانے میں ہمیں کامیابی مل گئی ہوتی تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کشمیر میں 24گھنٹے کے اندر 4مقامات سے خوفناک دہشت گر دانہ حملوں کی اطلاع موصول ہوتی۔ صورتحال کے تجزیہ کے بعد بعض مبصرین یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی سرحد کی حفاظت کیلئے جس طرح کے معقول بندوبست کئے جانے چاہئیں تھے ،ان سے کہیں نہ کہیں پہلو تہی کا احساس ہوتا رہاہے۔ اس خیال سے عدم اتفاق کی صورت بھی پیدا نہیں ہوتی کیونکہ واقعی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کشمیر میں جب بھی درانداز چاہتے ہیں ،داخل ہوکر قتل وغارت کا مظاہرہ کردیتے ہیں۔ دہشت گردی کا کھیل کھیلنے والے عناصر کے حوصلے کس قدر بلند ہیں، اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کوانجام دینے کیلئے عوامی مقامات کے انتخاب کے ساتھ ہی ساتھ اب فوجی کیمپوں کابھی انتخاب بھی کرنے لگ گئے ہیں۔ گویا ہندوستان کی سا لمیت پر براہ راست حملہ کی کوشش ہورہی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی حکومت معقول جواب دے پانے میں عملاً ناکام ہو اور انتخابی جلسوں میں صرف یہ کہاجائے کہ دہشت گردی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے تو اس کے کیا معنی نکالے جائیں؟
یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب خود حکومت ہی دے سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دراندازی سے سرحدوں کو محفوظ رکھنے کیلئے مودی سرکار نے کیاکیا؟6ماہ کی مدت گزرچکی ہے اور اس دوران ایسی کوئی پیش رفت ہمیں دیکھنے کونہیں ملتی جس کی بنیاد پریہ رائے قائم کی جاسکے کہ ہندوستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے حوالہ سے مودی سرکار کوئی فولادی عزم رکھتی ہے ۔ پاکستان کے تعلق سے اس کارویہ بھی بڑا عجیب وغریب ہے ۔ کل تک یوپی اے حکومت پر جو لوگ یہ الزام عائد کرتے رہے تھے کہ وہ دشمنوں کی ضیافت مرغ وماہی سے کرتی ہے، بدلے ہوئے حالات میں وہی لوگ دشمن ملک کے وزیراعظم کیلئے بریانیوں کاانتظام کرتے اور ان کے تئیں فراخدلی کا جذبہ دکھاتے نظرآگئے ۔ یہ اور بات ہے کہ آگے چل کر تعلقات کو منقطع کرنے کا جواز ڈھونڈ لیاگیا اوریہ کہہ کر پاکستان کے تئیں اپنی پالیسی کو واضح کرنے کی کوشش بھی کرلی گئی کہ جب تک پاکستان دہشت گردوں کو اخلاقی ، مالی یاجسمانی حمایت دیتا رہے گا، اس کیلئے اس وقت تک مذاکرات کے دروازے بند رہیں گے۔
چلئے صاحب!مذاکرات ہوںیاناہوں ہمیں اس سے کوئی لینادینانہیں ۔ہمیں مطلب تو اس بات سے ہے کہ جس" بھارت ماتا کی رکشا "کی قسمیں مودی کھاتے رہے ہیں ،اس بھارت ماتا کے جوانوں کے لہو سے آج کیوں کھلواڑ ہورہاہے؟ یہ بنیادی سوال ہے اوراس سوال کا جواب تلاش کیاجانا بھی ضروری ہے کیونکہ خود ہماری خفیہ ایجنسیوں نے ایک بار پھر اس خطرے کی گھنٹی بجادی ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کے مندریعنی پارلیمنٹ پرایک بار پھر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔ چونکہ پہلے بھی بی جے پی کے دور میں ہی پارلیمنٹ پرحملہ ہوچکاہے،اس لئے ایک بار پھرجب ہماری سیکورٹی ایجنسیوں نے ایسے ہی خطروں کا الارم بجایاہے تواس سے تشویش کی چنگاڑیوں کا بھڑ ک اٹھنافطری ہے کیونکہ یہ الرٹ ہوش اُڑانے والے ہیں

(مضمون نگار روزنامہ "ہندوستان ایکسپریس" کے نیوز ایڈیٹر ہیں )
موبائل : 08802004854 , 09871719262
shahid.hindustan[@]gmail.com
شاہد الاسلام

Alerts for terrorists attack again. Article: Shahidul Islam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں