بابری مسجد کی بائیسویں برسی - اجودھیا مسئلہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-05

بابری مسجد کی بائیسویں برسی - اجودھیا مسئلہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ

Babri-Masjid-Demolition
اجودھیا میں 6دسمبر 1992کو منہدم کی گئی بابری مسجد کو زمین بوس کرنی کے 22 سال آج پورے ہوگئے۔ لیکن یہ مسئلہ ان برسوں کے دوران پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ گو کہ 1992کے بعد ایسا ہی لگتا ہے کہ بابری مسجد کی سیاسی اپیل کم ہوگئی ہے لیکن عملا ایسا نہیں ہوا ۔اجودھیا میں 450سال پرانی اس غیر آباد عبادت گاہ کو مرکز بنا کر جو سیاست بی جے پی نے شروع کی تھی وہ آج بھی جاری ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھر پور اکثریت کے ساتھ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس سوال پر ہندو تنظیموں کا رد عمل کافی محتاط ہوگیا ہے۔ یعنی وشو ہندو پریشد بجرنگ دل اور اسی طرح کی دوسری ہمشیر سنگھی تنظمیں اجودھیا سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ گو کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں ابھی جلدی نہیں ہے۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کے مقدمے کا فیصلہ اس طرح سنایا ہے کہ اس اراضی کے تینوں دعویداروں میں بابری مسجد کی اراضی تقسیم کردی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو قانونی طور پر کسی ایک فریق کا دعوا نہیں رہ گیا ہے۔ لیکن اس زمین پر عالی شان مندر کی تعمیر کا جنون اب بھی سیاسی گرماہٹ پیدا کرنے اور ووٹوں کو متحد کرنے کیلئے کافی ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ اتنی لمبی سیاسی لڑائی کے بعد لوک تھک گئے ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے جو تنظمیں یا ادارے یا دعوے دار بابری مسجد کے مقدمے میں شریک ہیں ان کی تھکن کا عالم یہ ہے کہ سب سے پرانے مقدمہ باز ہاشم انصاری نے اس مقدمے کی مزید پیروی کرنے سے کھلا انکار کردیا ہے۔ ہاشم نے یوپی میں ملائم سنگھ کی پارٹی کے ایک لیڈر اور وزیر محمد اعظم خاں کے اس بیان کا بہت برا مانا ہے کہ بابری مسجد میں پہلے سے ایک بت رکھا ہوا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ حکومت پولیس اور انتظامیہ تینوں کی مدد سے رام للا کا وہ عارضی مندر ان بائیس برسوں میں مسلسل بڑھا ہوا ہے جو مندر بابری مسجد کی زمین گرا کر ہموار کرنے کے بعد بنا دیا گیا تھا۔ وہ ایک چھوٹا سا خیمہ تھا لیکن اب اس کی لمبائی چوڑائی اونچائی 6دسمبر1992کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ بابری مسجد ایک غیر آباد مسجد تھی ہندوستان میں ایسی کئی ہزار مسجدیں ہوں گی جنہیں چھوڑ کر نمازی بھاگ گئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ ہر مسجد کی لڑائی عدالت میں لڑی جائے۔ ہندو تنظیموں نے بابری مسجد کو مسلمانوں کی ذلت اور خواری کیلئے دن دہاڑے بے دردی سے شہید کیا اور اس خواری سے نکلنے کیلئے مسلمان یہ مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اس مقدمے میں سب سے پہلی شکایت درج کرانے والے ہاشم انصاری کی عمر اب تک تقریبا 94سال ہورہی ہے اور اس عمر میں کسی کاتھک جانا فطری ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہاشم انصاری کے پیچھے پوری طاقت سے آکر کھڑے ہونے سے ملت نے کھلا انکار کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہاشم کو ہر طرح کی مدد پہنچا کر مقدمے میں ثابت قدمی سے جمے رہنے کی طاقت دی جاتی لیکن بابری مسجد کے نام پر سیاست کرنے والے مسلمان لیڈروں سے لے کر مذہبی شخصیتوں تک ہر کسی نے صرف اس کا سیاسی اور سماجی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ نہ تو مقدمہ پوری طاقت کے ساتھ لڑا گیا نہ سماجی اعتبار سے بابری مسجد کے سوال پر مسلمانوں کو متحد کیا جا سکا۔ مقدمہ 68سال پرانا ہوچکا ہے۔ اور انہدام کو بائیس سال گذر چکے ہیں۔ بائیسویں برسی پر بھی مسلمان یوم سیاہ منائیں گے۔ اور فرقہ پرست ہندوؤں کا ایک فرقہ پرست طبقہ یوم شجاعت منائے گا۔ مختلف مقامات پر مظاہرے ہوں گے۔ اور جن لوگوں کی دوکانداری نہیں چل رہی ہے ان کی سیاسی دوکان ایک دن کیلئے چمک جائے گی لیکن ہندوستان کے ضمیر پر لگا ہوا یہ گھاؤ رستارہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہاشم انصاری کا حوصلہ بڑھایا جائے ۔ انہیں جن حالات نے اتنا بددل کردیا ہے کہ وہ مقدمے کی آگے کی پیروی سے گریز کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں ان حالات کو بدلا جائے۔ ہندوستان کے سیاسی منظر نامے میں جو تبدیلی آئی ہے اس سے فرقہ پرستوں کو مزید فائدہ اٹھانے سے ورکا جائے۔ یہ کام ایک دن کا نہیں ہے ۔ بہ بہت ضروری ہے کہ منصوبہ بند ڈھنگ سے مسلمانوں میں اچھی سوچ رکھنے والے افراد پھر ایک بار سرجوڑ کر بیٹھیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جتنا نقصان ہوچکا ہے اس سے زیادہ نقصان سے بچنے کی کیا صورت نکل سکتی ہے۔ ہاشم انصاری کا پوری قوم کو احسان مند ہونا چاہئے کہ اپنی محدود لیاقت اور مالی حیثیت کے باوجود انہوں نے اس مقدمے کی پیروی انتہائی منفی حالات میں بھی جاری رکھی اور ہر طرح کادباؤ جھیلا۔ اب جو چڑھ پیدا ہورہی ہے اسے کم کرنا ضروری ہے کیونکہ ہاشم نے اپنی پوری زندگی اسی کاز کیلئے وقف کردی ہے۔ انہیں اپنی کوشش پر مطمئن رکھنا ملت کا فرض ہے۔جو لوگ سماجی کام کرتے ہیں وہ عام آدمی سے اس لئے بڑے ہوتے ہیں کہ اس میں وہ اپنا سب کچھ جھونک دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حوصلہ برقرار رکھنا ہر حال میں فرض ہوتا ہے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

22nd anniversary of the Babri Masjid Demolition - Ayodhya issue more complex now. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں