جس عالمگیری مسجد اور عید گاہ کے ہم لوگ امام اور متولی ہوا کرتے تھے اس سے متصل زمین اوردکانیں وہاں کے دبنگ لوگوں نے قبضہ کر کے بیچ کھائیں ، ہمارا خاندان جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ دولت مند کبھی نہیں رہا لیکن خدا کے فضل سے کبھی ہاتھوں میں کاسہ بھی نہیں رہا، بہت چھوٹے پن سے گھر میں ایک بات مستقل کسی نہ کسی طرح گوش گزار ہوتی رہی کہ حرام اور غلط طریقے سے کمائے ہوئے پیسوں سے پالی گئی اولادیں دنیا میں تمہارے اعمال کی سزا بن کے رہیں گی ، دادا کو ابو سے کہتے سنا ابو ساری زندگی ہم لوگوں کو یہی ایک بات تھی جو بجائے غصے کے عاجزی کے ساتھ سناتے رہے ، بلکہ جب وہ کسی شادی بیاہ میں جہیز کے لین دین کے سلسلے میں تکلیف دہ تماشے دیکھ کر آتے تھے تو ہم تما م بھائیوں کو خاص طور سے سناکر یہ جملہ اکثر کہتے تھے کہ اگر میرے لڑکوں نے شادی میں جہیز مانگ لیا تو میں یہی سمجھوں گا کہ یہ میری اولادیں ہی نہیں ہیں ، ان کی ماں کہیں اور سے لے کر آئی ہوگی ، ظاہر ہے کہ یہ بہرحال ماں کی گالی تھی ، لیکن اسے ماں کی گالی کیسے کہاجائے اس کہانی کے کردار تو باپ اور بیٹے تھے، ماں تو بے قصور زد میں آرہی تھی ۔ ان دنوں میری عمر غالباً نو دس برس رہی ہوگی ، پاکستان جانے والے پاکستان جاچکے تھے ، کچھ دن تو بہت رونا دھونا رہا ، پھر بہت دنوں تک بھرے پرے گھر کے اچانک خالی ہوجانے سے جو ویرانی در آتی ہے وہ آکے گھر میں بیٹھ گئی ، گھر میں آبادی کے نام پر ابو امی ، ہم، اسماعیل اور مرحوم یحیٰی تھے ، بقیہ بھائی بہن بعد کی پیداوار ہیں، ابو کے ہاتھ میں ٹرک کا اسٹیرنگ رہتا تھا ، ان دنوں وہ اناؤ والے حافظ صدیق کا ٹرک چلاتے تھے، عام طور سے ان کا روٹ کانپور سے سلطانپور ہوا کرتا تھا، ابو اپنی نوکری کی وجہ سے زیادہ تر باہر رہتے تھے لیکن آنا جانا برابر رہتا تھا ، زمانے کے سردوگرم نے انہیں اور زیادہ اکھڑ اور گرم مزاج بنادیا تھا ، امی بتاتی ہیں کہ دبنگ تو ہمیشہ سے تھے،ان کے مزاج اور ڈرائیونگ جیسے خطرناک پیشے کی وجہ سے ہم نے رات رات بھر امی کو جائے نماز پر اٹھتے بیٹھے دیکھا تھا ، ہم گھر میں بڑے بھی تھے اور کچھ پیدائشی طور پر بے حد حساس بھی ، حالانکہ حساس ہونا وہ بھی اس بے حیائی کے دور میں شاید اچھی بات نہیں ہے، جو سن لیتے وہ یاد ہوجاتا تھا، جو دیکھ لیتے وہ آنکھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چپک جاتا تھا ، چھوٹی چھوٹی گھر کی دیواریں ہوا کرتی تھیں، ان پہ چھپر پڑے ہوئے تھے ، دروازے کمزور حوصلے کی طرح کمزور، لکڑ بھگوں اور بھیڑیوں کا اکثررات گئے محلے میں چکر لگانا، امی ہم تینوں بھائیوں کو ایسے سمیٹے رہتی تھیں جیسے مصیبت کے وقت مرغی اپ نے چوزوں کو پروں میں چھپا لیتی ہے، سردی میں چوریوں کا ڈر، گرمیوں میں لو جھکڑ اور آندھیوں کاآنا ، برسات میں فرش پر رات برات پاؤں رکھتے ہوئے بھی محسوس ہوتا جیسے سانپ پاؤں سے لپٹ گئے ہوں ، ایک ایک بچے کو پیشاب پاخانے کے لئے لے جانا، ہم لوتھڑوں کو پالنا ہی بہت دشوار تھا، پھر گھر میں آہستہ آہستہ دستک دیتی غریبی، شور مچاتی ضرورتیں ، گز بھر کا گھونگھٹ کاڑھے خودداری ، پردے کی دیوار کے باوجود بے حجابی سے بچنے کے لئے ایک ٹاٹ کا پردہ، اتنی مشکلوں پریشانیوں اور امتحانات سے گزرنے کے لئے خدا کا آسرا ضروری تھا اور غریبوں کے پاس اس آسرے اور یقین کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے ، کچے فرش پر معمولی کپڑے کی جانماز پر را ت گزار دینا کبھی ضائع نہیں جاتا اور امی کی عبادت کو بھی اللہ پاک نے ہر طرح سے بلکہ طرح طرح سے قبولیت کا درجہ عطا کیا۔
مفلسی میں بھی سلامت رہا پندار مرا
کسی بگڑے ہوئے سلطان کے تیور کی طرح
طاہر تلہری
Munawar Rana Biography
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں