میرا بچپن تھا - مرا گھر تھا - کھلونے تھے مرے - منور رانا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-06

میرا بچپن تھا - مرا گھر تھا - کھلونے تھے مرے - منور رانا

لفظ خوشحالی کے معنی و مطلب، عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں، مثلاً دودھ پیتے بچے کے لئے ماں کی گود اور اس کی آغوش میں بیتے ہوئے دن خوشحالی کے دن ہوتے ہیں ، کم سنی میں اچھا برا جو بھی کھانے اور پہننے کو مل جائے انہیں خوشحالی کے دنوں میں شمار کیاجاتا ہے ، نوجوانی میں بھر پیٹ کھانا اور نیند پوری کرنے کے لئے پیر پھیلانے بھر کو جگہ مل جائے تو یہ بھی خوشحالی کے دن کہلاتے ہیں، بس اس کے بعد خوشحالی اپنے معنی و مطلب بالکل بدل دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے کیونکہ آدی پھر سب کچھ چاہتا ہے ،وہ بھی جو دوسروں کے پاس ہے اور وہ بھی جو دوسروں کے پاس میسر نہیں ہے ، چھوٹی چھوٹی ہتھیلیاں تتلی کے پروں کے برابر ہوتی ہیں، اس لئے ان کی ضرورتیں اور آرزوئیں بھی بچے ہوئے آٹے کے سکے برابر روٹی کی طرح ہوتی ہیں لیکن جوانی آتے ہی خوشحالی اپنے نام کے پردے کے پیچھے ہوس کا پورا کام کرنا چاہتی ہے ،زمین اور آسمان دونوں میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ مانگنا شروع کردیتی ہے ، رزق کے نام پر غلے کے پورے گودام مانگتی ہے، پھلوں کے نام پر ہزاروں ایکڑ کا باغ چاہتی ہے ، زمین کے نام پر خاک و خون میں لتھڑی ہوئی پوری ریاست چاہتی ہے ، نتیجے کے طور پر نیند کے کاسہ میں اسے میڈیکل اسٹور سے ساری زندگی نیند کی دوا مانگنی پڑتی ہے، مسجدوں اور مندروں میں اپنی دولت کے سہارے دوسروں کی ہتھیلی سے اپنے لئے دعا منگوانی پڑتی ہے ، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ، کیونکہ خوشحالی تو اب اس مقام پر آکے کھڑی ہوچکی ہوتی ہے جہا ں دو وقت کی روٹی اور ایک ٹوٹی پھوٹی چار پائی کسی بھی ریاست سے بڑی معلوم ہوتی ہے ، جو لوگ اپنی خوشحالی کو ہمیشہ قناعت کے چھوٹے چھوٹے کپڑے پہناتے ہیں ان کی خوشحالی ہمیشہ برقرار رہتی ہے اور وہی لوگ قلندر اور فقیر کہلاتے ہیں، ان کی قناعت کے جسم پر خوشحالی کے کپڑے کبھی چھوٹے نہیں پڑتے ، لیکن ان کی ریاست بڑی ہوتی جاتی ہے ، جیسے ولیوں اور اللہ والوں کے دربار اور جن کی خوشحالی کے کپڑے ان کی قناعت کے جسم پر چھوٹے پڑنے لگتے ہیں ، وہ بادشاہ تو ہوجاتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سلطنت صرف ان کی قبر کے برابر رہ جاتی ہے ۔
جس عالمگیری مسجد اور عید گاہ کے ہم لوگ امام اور متولی ہوا کرتے تھے اس سے متصل زمین اوردکانیں وہاں کے دبنگ لوگوں نے قبضہ کر کے بیچ کھائیں ، ہمارا خاندان جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ دولت مند کبھی نہیں رہا لیکن خدا کے فضل سے کبھی ہاتھوں میں کاسہ بھی نہیں رہا، بہت چھوٹے پن سے گھر میں ایک بات مستقل کسی نہ کسی طرح گوش گزار ہوتی رہی کہ حرام اور غلط طریقے سے کمائے ہوئے پیسوں سے پالی گئی اولادیں دنیا میں تمہارے اعمال کی سزا بن کے رہیں گی ، دادا کو ابو سے کہتے سنا ابو ساری زندگی ہم لوگوں کو یہی ایک بات تھی جو بجائے غصے کے عاجزی کے ساتھ سناتے رہے ، بلکہ جب وہ کسی شادی بیاہ میں جہیز کے لین دین کے سلسلے میں تکلیف دہ تماشے دیکھ کر آتے تھے تو ہم تما م بھائیوں کو خاص طور سے سناکر یہ جملہ اکثر کہتے تھے کہ اگر میرے لڑکوں نے شادی میں جہیز مانگ لیا تو میں یہی سمجھوں گا کہ یہ میری اولادیں ہی نہیں ہیں ، ان کی ماں کہیں اور سے لے کر آئی ہوگی ، ظاہر ہے کہ یہ بہرحال ماں کی گالی تھی ، لیکن اسے ماں کی گالی کیسے کہاجائے اس کہانی کے کردار تو باپ اور بیٹے تھے، ماں تو بے قصور زد میں آرہی تھی ۔ ان دنوں میری عمر غالباً نو دس برس رہی ہوگی ، پاکستان جانے والے پاکستان جاچکے تھے ، کچھ دن تو بہت رونا دھونا رہا ، پھر بہت دنوں تک بھرے پرے گھر کے اچانک خالی ہوجانے سے جو ویرانی در آتی ہے وہ آکے گھر میں بیٹھ گئی ، گھر میں آبادی کے نام پر ابو امی ، ہم، اسماعیل اور مرحوم یحیٰی تھے ، بقیہ بھائی بہن بعد کی پیداوار ہیں، ابو کے ہاتھ میں ٹرک کا اسٹیرنگ رہتا تھا ، ان دنوں وہ اناؤ والے حافظ صدیق کا ٹرک چلاتے تھے، عام طور سے ان کا روٹ کانپور سے سلطانپور ہوا کرتا تھا، ابو اپنی نوکری کی وجہ سے زیادہ تر باہر رہتے تھے لیکن آنا جانا برابر رہتا تھا ، زمانے کے سردوگرم نے انہیں اور زیادہ اکھڑ اور گرم مزاج بنادیا تھا ، امی بتاتی ہیں کہ دبنگ تو ہمیشہ سے تھے،ان کے مزاج اور ڈرائیونگ جیسے خطرناک پیشے کی وجہ سے ہم نے رات رات بھر امی کو جائے نماز پر اٹھتے بیٹھے دیکھا تھا ، ہم گھر میں بڑے بھی تھے اور کچھ پیدائشی طور پر بے حد حساس بھی ، حالانکہ حساس ہونا وہ بھی اس بے حیائی کے دور میں شاید اچھی بات نہیں ہے، جو سن لیتے وہ یاد ہوجاتا تھا، جو دیکھ لیتے وہ آنکھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چپک جاتا تھا ، چھوٹی چھوٹی گھر کی دیواریں ہوا کرتی تھیں، ان پہ چھپر پڑے ہوئے تھے ، دروازے کمزور حوصلے کی طرح کمزور، لکڑ بھگوں اور بھیڑیوں کا اکثررات گئے محلے میں چکر لگانا، امی ہم تینوں بھائیوں کو ایسے سمیٹے رہتی تھیں جیسے مصیبت کے وقت مرغی اپ نے چوزوں کو پروں میں چھپا لیتی ہے، سردی میں چوریوں کا ڈر، گرمیوں میں لو جھکڑ اور آندھیوں کاآنا ، برسات میں فرش پر رات برات پاؤں رکھتے ہوئے بھی محسوس ہوتا جیسے سانپ پاؤں سے لپٹ گئے ہوں ، ایک ایک بچے کو پیشاب پاخانے کے لئے لے جانا، ہم لوتھڑوں کو پالنا ہی بہت دشوار تھا، پھر گھر میں آہستہ آہستہ دستک دیتی غریبی، شور مچاتی ضرورتیں ، گز بھر کا گھونگھٹ کاڑھے خودداری ، پردے کی دیوار کے باوجود بے حجابی سے بچنے کے لئے ایک ٹاٹ کا پردہ، اتنی مشکلوں پریشانیوں اور امتحانات سے گزرنے کے لئے خدا کا آسرا ضروری تھا اور غریبوں کے پاس اس آسرے اور یقین کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے ، کچے فرش پر معمولی کپڑے کی جانماز پر را ت گزار دینا کبھی ضائع نہیں جاتا اور امی کی عبادت کو بھی اللہ پاک نے ہر طرح سے بلکہ طرح طرح سے قبولیت کا درجہ عطا کیا۔
مفلسی میں بھی سلامت رہا پندار مرا
کسی بگڑے ہوئے سلطان کے تیور کی طرح
طاہر تلہری

Munawar Rana Biography

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں