کالا دھن - ناموں کے انکشاف سے اہم تر ہے کارروائی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-06

کالا دھن - ناموں کے انکشاف سے اہم تر ہے کارروائی

غیر قانونی بیرونی کھاتوں پر بحث و مباحثے کے درمیان بحث چند روز پہلے معافی دیے جانے والے افراد کے نام بھلا دیے گئے۔ بظاہر ان کا تعلق دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی کانگریس اور بی جے پی سے ہے۔ ورنہ شوروغل اتنے کم وقت میں تھم جانے والا نہیں تھا۔ ایک اور قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اس کا کہیں سرسری طورپر ذکر نہیں آیا کہ ان کھاتہ داروں نے اتنی زیادہ دولت کیسے جمع کرلی۔ اس عمل کو روکنے کے لئے کون سے اقدامات کئے گئے ۔
بیرون ملک دولت کی ذخیرہ اندوزی جرم ہے۔ اس لئے بیرونی ممالک میں دولت چھپانے والے تمام افراد قصور وار ہیں ۔ ان کے ناموں کو منظر عام پر لانے میں حکومت کی پس و پیش سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ظاہر ہے کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی قصور وار ہیں اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ کھاتہ داروں کے نام سامنے آنے پر ان کی شبیہ خراب ہو ۔ دونوں پارٹیوں کو بہت سی باتوں کی پردہ پوشی کرنی ہے ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دوران انتخابات کروڑوں روپے خرچ کردینے والی سیاسی جماعتوں کے لئے بیرونی ممالک ناجائز دولت کا انبار لگانے کی محفوظ پناہ گاہ ہیں ۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ عوامی توجہ سے بچے رہتے ہیں بلکہ کثیر مقدار میں ان کا دو پیسہ بھی بچ جاتا ہے، جو وہ بصورت دیگر ٹیکسوں کی شکل میں ادا کرتے ہیں ۔ تاہم ہندوستانی عوام کو جرمنی کا شکر گزار ہونا چاہئے ، جس نے کھاتہ داروں کے ناموں کو عوامی زمرے یا ڈومین میں رکھ دیا ۔ ایک جرمن بینک نے تو ناموں کی فہرست حاصل کرکے اسے حکومت ہند کے سپر کردیا ۔ اس ملک کی کوئی خفیہ ایجنسی یہ فہرست فراہم کرنے کے لئے داد کی طالب نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جرمنی نے یہ نام کیوں دیے ۔ اگر اس کا تعلق نئی دہلی پر کسی طرح کے دباؤ سے ہے تو وہ کارگر رہا ہے ۔ یہ جان کر کہ تقریباً800افراد نے بیرون ملک بینکوں میں دولت جمع کررکھی ہے ۔ عوام کا آپے سے باہر ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ ضرور دیگر کئی نام بھی ہوں گے جن پر سے ابھی پردہ نہیں اٹھا ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ بیرون ملک جمع کی جانے والی دولت6لاکھ کروڑ روپے ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں لندن میں ہندوستان کا ہائی کمشنر تھا ،تو پیسے کی تنگی نے نئی دہلی کو اپنے سفارت کاروں کو یہ لکھنے پر مجبور کیا کہ وہ بیرون ملک ہند وستانیوں سے چندہ جمع کریں ۔ میں نے بھی ہند نژاد لوگوں کے نام ایک موثر اپیل جاری کی تھی ، لیکن جب مجھے جرمن سفیر نے بتایا کہ ہندوستانیوں کا اس قدر پیسہ سوئس بینکوں میں جمع ہے کہ وہ کئی پنج سالہ منصوبوں کی کفالت کرسکتے ہیں تو مجھے بڑی حیرت ہوئی ۔ بہر کیف غیر ملکی کھاتہ داروں کے نام اب حکومت کے پاس آگئے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ ان کی فہرست کئی ماہ پہلے وصول ہوگئی تھی، جب کانگریسی حکومت کی قیادت ڈاکٹر منموہن سنگھ کررہے تھے۔ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اس حکومت نے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ یہاں تک کہ اپنی حکومت کے ایک سودن کے اندر قصور واروں کے خلاف کارروائی کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اقتدار میں آنے کے سات ماہ بعد کارروائی شروع کی ہے۔
سنگھ حکومت اپنے دور اقتدار میں علم میں آنے والے ناموں کو سات ماہ تک دبائے رہی ۔ کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی، اس کی کوئی وضاحت کانگریس کے ترجمانوں نے نہیں کی ۔ مشکل سوالوں کے جواب کبھی نہیں دیے جاتے۔ ناموں کے انکشاف پر بھی یہی بات صادق آتی ہے مودی حکومت میں بھی ۔ لیکن رسماً اس نے بھی تجارتی سیکٹر سے چند ناموں پر سے پردہ اٹھانے کو ہی دوسروں پر ترجیح دی ہے ۔ تجارتی سیکٹر میں سے جن تین کمپنیوں کا نام ظاہر کیا گیا ہے وہ شاید انہی کمپنیوں کے نام ہیں ۔ جن سے شاید مودی حکومت رقم وصول نہ کرسکے ۔ مزید یہ کہ تجارتی سیکٹر پر ارتکاز کا مقصد عوام کی توجہ کو سیاسی دنیا سے ہٹانا ہے ۔ اس طرح سے معاشرے کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ناجائز دولت کی ذخیرہ اندوزی تجارتی سیکٹر کا کام ہے ۔ یہ بات درست ہوسکتی ہے کیوننکہ انتخابات پر خرچ ہونے والی رقم کئی ہزار کروڑ تک ہوگی جو تجارتی سیکٹر سے آتی ہے ۔ یہ وہ کالی دولت ہے جو ناجائز ذرائع سے جمع کی گئی ہے ۔ سیاستدانوں کو چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا اس سے باہر، اس گناہ کے لئے مورد الزام ٹھہرایاجاناچاہئے ۔ جب لوگ دولت جمع کرنے کے لئے ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں تو وہ دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔
اس کی توقع تھی کہ سیاست کو آلودہ کرنے والے مفاد پرست عناصر سے مودی ٹکر لیں گے ، خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ انہوں نے ہر ایک عوامی پلیٹ فارم سے شفافیت کی بات کی ، لیکن بد قسمتی سے انہوں نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا ۔ انہوں نے تاجروں اور افسر شاہوں کو اپنی بد عنوانیوں کے تئیں چوکنا کردیا ہے ، لیکن بد عنوانی کسی طرح بھی کم نہیں ہوئی ہے ۔ اب بھی اپنی شہرت کی بازیابی میں تاخیر نہیں ہوئی ہے بشرطیکہ مودی تمام نامون کو نیٹ پر ڈال دیں ۔ ان میں سے کون عدالتی کارروائی کے تحت لائے جانے کا مستحق ہے ، اس کا انحصار حاصل ہونے والے ثبوتوں پر ہوگا۔ ناموں کے انکشاف سے وہ کم از کم بد عنوانی اور لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی ذمہ داری سے بری ہوجائیں گے ۔ بد عنوانی کی مثال ہی نہیں ہے بلکہ یہ شاید ہولناک مثال ہے۔ کہاجاتا ہے کہ دیوالی کے دوران تقریباً3ہزار کروڑ روپے پٹاخوں پر خرچ کردیے گئے ہیں۔ یہ رقم اس کے علاوہ ہے جو دسہرہ کے دوران خرچ کی گئی ہے اور وہ بھی کروڑوں میں ہے ۔ ایک ملک میں جس کے ایک تہائی عوام بھوکے ہوتے ہیں۔ ان حالات کے تئیں بے حسی کا منظر نامہ ہے جس کا سامنا عام آدمی کررہا ہے ۔ میں نے نہیں دیکھا کہ سماجی کارکنان اس کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے نکلے ہوں۔ معاشرہ بے نیاز اس لئے ہے کہ مخالفت کرنے والوں کی قیادت اور رائے عامہ ہموار کرنے والے لوگ ہی مسئلہ کا حصہ بنتے ہیں ۔ وہ شاید ہی کوئی حل پیش کرسکیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں