ڈرامہ - رجنی - از جاوید نہال حشمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-06

ڈرامہ - رجنی - از جاوید نہال حشمی

یہ ڈرامہ پہلی بار 1998 میں مرشدآباد کے نواب بہادر انسٹی ٹیوشن میں اسٹیج کیا گیا جہاں اسے اردو داں اور بنگالی طبقے دونوں میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر دوسری بار 2003 میں کلکتے کے مسلم انسٹی ٹیوٹ میں انٹر اسکول ڈرامہ مقابلے میں اس نے اول انعام حاصل کیا۔ اس کے بعد مولانا آزاد کالج کلکتہ میں مسلسل دو بار نئے طلبا کے لیے خیرمقدمی پروگرام میں کامیابی کے ساتھ اسٹیج کیا گیا۔
- جاوید نہال حشمی
[یہ ڈرامہ اس بات کو نظر میں رکھ کر لکھا گیا ہے کہ اسے اسکول کے بچے آسانی سے اسٹیج کر سکیں جس کے لئے کسی خاص setting کی ضرورت نہ پڑے۔اس میں کلاس روم کے دو میزوں کو اُلٹ کر ان کے تین اطراف میں لال کپڑے گھیر کر بآسانی کٹہرا بنایا جاسکتا ہے۔]

کردار:
ھریا: ایک 45 سالہ دیہاتی
بھولا: 14 سال کا شرارتی لڑکا
سلیمان میاں: عمر 60 سال سے زیادہ
جج، دو وکیل، پیش کار، اردلی او ر دو انسپکٹر

منظر: کمرۂ عدالت___ سامنے بڑی اور اونچی سی میز کے پیچھے جج صاحب بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دائیں بائیں دو کٹہرے ہیں جن میں سے ایک میں بھولا کھڑا ہے۔ اس کے چہرے اور سر پر پٹّیاں بندھی ہوئی ہیں اور ان پر جابجا خون کے دھبّے ہیں۔دوسرا کٹہرا خالی ہے۔ دونوں کے درمیان دو کرسیاں پڑی ہوئی ہیں جن پر دو وکیل بیٹھے ہوئے ہیں۔ جج کی بائیں جانب پیش کار کھڑا ہے اور داہنی جانب اردلی۔

اردلی: (اونچی آواز میں) ملزم ہرے رام یادو، ولد رام سروپ یادو، گاؤں سمپت نگر، ضلع بھوج پور، بہار، حاضر ہو ___!

(بائیں طرف سےہریا ہاتھ جوڑے دھیرے دھیرے اسٹیج کے بیچوں بیچ آتا ہے۔ اس نے ایک میلی سی دھوتی اور کُرتا پہن رکھا ہے۔ بائیں کندھے پر ایک گمچھا رکھا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے پیچھے دو انسپکٹرس بھی داخل ہوتے ہیں۔)

ھریا: (جج کی طرف دیکھتے ہوئے)سس …سلام مائی باپ (وہیں فرش پر بیٹھنے لگتا ہے۔)

پہلا وکیل: ارے ارے، یہاں نہیں__وہاں، وہاں___اس طرف، اس کٹہرے میں (خالی کٹہرے کی طرف اشارہ کر تا ہے)
(ہریا کٹہرے میں جا کر کھڑا ہو جاتا ہےاور ڈری ڈری نگاہوں سے ایک ایک کو تکتا ہے۔ انسپکٹرس ایک طرف کھڑے ہیں۔)

پیش کار: (ہریا کے سامنے گیتا بڑھاتے ہوئے)گیتا کی قسم کھا کر کہو کہ تم جو کچھ کہو گے …

ھریا: (بات کاٹتے ہوئے)اوٗ تو کب کا مَر چکی، جج صاحیب!

جج: (تعجب سے)کون؟

ھریا: ارے وہی ___رام کھلاون کی ماں ___بے چاری جب تلک جِندہ تھی، بات بات پر ہمار ہاتھ پکڑ کر اپنے سَر پر رکھ لیتی (پیش کار کا ہاتھ اپنے سَر پر رکھ لیتا ہے) اور کہتی 'کھا میری قسم' اور ہم جھوٹ ناہیں بول پاتے تھے ___(اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے) بھگوان پرلوک میں بھی اوکے لمبی عمر دے۔

پیش کار: (گیتا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس گیتا کی قسم کھا کر کہو۔

ھریا: اب اس کی کا جرورت ہے بھیّا___پھر بھی تم کہت ہَو تو کھائے لیتے ہیں (گیتا پر ہاتھ رکھتے ہوئے آنکھیں بند کر کے) ہم جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا اوٗر اگر ہمری جبان سے تنک بھی جھوٹ نکلے تو ہمار منھ میں کیڑے پڑیں۔

پہلا وکیل: ہاں تو مسٹر ہریا …

ھریا:دیکھو وکیل بابو، ___ہم ماسٹر واسٹر کچھ ناہیں ہیں ___ ہم کو ماسٹر ہریا کاہے کہت ہَو؟

پہلا وکیل: (تھوڑا جھلّا کر)اچھااچھا، ٹھیک ہے___وہ سامنے دیکھو (بھولا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ ___غور سے دیکھو۔

ھریا: (تلخ لہجے میں) ارے ای صورت حرام کو ہم نہ پہچانیں گے بھلا ___ای کا سمجھتا ہے، اپنا چہرہ پٹّی میں چھُپائی کے ہم کو بھی دھوکا دے دے گا کا__!

جج: (ہتھوڑا ٹھونکتے ہوئے) آرڈر، آرڈر ___تم یہ مت بھولو کہ تم عدالت میں کھڑے ہو۔ لہٰذا اپنی زبان کو قابو میں رکھ کر گفتگو کرو۔

پہلا وکیل: کیا یہ سچ ہے کہ تم نے پرسوں اس کے گھر میں گھس کر اسے اس قدر مارا پیٹا کہ اس اسپتال لے جانا پڑا؟

ھریا: (طیش میں آکر) ابھی تک تو ہسپتال تک ہی گیا تھا نا___اگر دوبارہ اس نے ہمار رجنی کے ساتھ پھر وہی حرکت کیا تو اسے ہم ایسا دھوبی پاٹ ماروں گا کہ اسے سیدھے سمسان گھاٹ جانا پڑے گا۔

پہلاوکیل: (جج کی طرف دیکھتے ہوئے) می لارڈ، پوائنٹ نوٹ کیا جائے ___ملزم کی اتنی ہمت کہ بھری عدالت میں آپ کے سامنے یہ میرے مؤکل کو جان سے مارنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملزم ایک جنونی آدمی ہے جو غصّے میں آکر کبھی بھی، کچھ بھی کر سکتا ہے____دراصل واردات کے دن بھی اس نے میرے مؤکل کو جان سے ہی مار ڈالنے کی کوشش کی تھی، اور اگر میرے مؤکل کے گھر والے ٹھیک وقت پر …

ھریا: (بات کاٹتے ہوئے) دیکھووکیل بابو ___اب تم ہم کا گُسّہ مت دلاؤ، ہاں___(جج کی طرف مڑتے ہوئے) جج صاحیب، ای جھوٹ ہے،ایک دم جھوٹ___ای وکیل بابو بھی پکا جھوٹا ہیں۔ ارے، جب ای جھگڑوا ہوا تھا تووکیل بابو تو وہاں تھے ہی نہیں ___ پھر ای کیسے سمجھ لئےکہ ہم اس کو جان سے مارنے کی کوسس کیا تھا ___ایں؟

پہلا وکیل: ابھی ابھی تم نے جج صاحب کے سامنے اسے شمشان گھاٹ پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ کیا یہ تمہیں جنونی ثابت کرنے کے لئےکافی نہیں ہے؟

ھریا: دیکھو وکیل بابو ___ہمری جبان مت کھلواؤ ___اوٗ دنوا بھول گئے جب تم جج صاحیب (جج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کی لڑکی کو لبھ لیٹر لکھا کرتے تھےاور ہم ان کے یہاں دودھ دیتے وَکھَت اوٗ چٹھیاچپکے سے پہنچا دیا کرتے تھے۔
(وکیل گھبرا کر بغلیں جھانکنے لگتا ہے)

پہلا وکیل: (بوکھلاہٹ کے عالم میں) دد…دد…دیٹس آل، می لارڈ۔(پسینہ پونچھتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)

دوسرا وکیل: (کرسی سے اُٹھ کر ہریا کے سامنے آتے ہوئے) ہاں تو ہریا، میں تم سے چند سوالات کروں گا۔تم خوب سوچ سمجھ کر …

ھریا: (حیرت اور مسرت آمیز لہجے میں)ارے سنجو بیٹوا؟___ تو وکیل کب سے ہوئے گوا رے؟ہم کو پہچانا؟___ہم توہار دوست رام کھلاون کے بابا۔ (جج کی طرف مڑتے ہوئے) جج صاحیب، ان سے ملیو____ ای ہمار گاؤں کے ماسٹر دینا ناتھ کا لڑکا____بڑا ہون ہار لڑکا ہے___اب تو ہم ای مکدّمہ جرور جیتیں گے۔ آکھر ہمار طرف سنجو بیٹوا جو ہے…

جج: (ہتھوڑا ٹھونکتے ہوئے)آرڈر، آرڈر___ تم سے جو کچھ پوچھا جائے صرف اسی کا جواب دو۔

ھریا: (وکیل کی طرف مڑتے ہوئے) پوچھو بیٹوا۔

دوسرا وکیل: تمہارا پورا نام؟

ھریا: ہائیں؟ ___اب تم ہمرا نام بھی بھول گئے؟ ___ ارے بیٹوا، یاد کروایک بار جب رام کھلاون کی ماں نراج ہو کے مائیکے چلی گئی رہی تو اسے مناوے کے کھاطر ہم نے تم سے ہی تو چٹھّی لکھوائی تھی ___ اور تم نے ہمارا پتہ لکھتے وَکھَت ہمرا نام پوچھا تھا___کچھ یاد آیا___؟

دوسرا وکیل: (سمجھانے کے انداز میں) ہریا، تم یہ بھول جاؤ کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں۔ تم بس جج صاحب کے سامنے میرے سوالوں کے جواب دو۔

ھریا: (طنزیہ انداز میں)ہاں بیٹوا، اب تو تم پڑھ لکھ کے بڑے آدمی ہو گئے ہو نا___بلیسٹر صاحیب ہو گئے ہو___بھلا اب ہم گریب لوگن کو کیسے پہچانو گے___اب تو تم کا رام کھلاون بھی یاد ناہیں ہوگا جس کے ساتھ بچپن میں ننگے کھیل کھیل کر بڑے ہوئے!

جج: (ہتھوڑا ٹھونکتے ہوئے) آرڈر، آرڈر___تمہیں ایک بار پھر وارننگ دی جاتی ہے کہ عدالت کا قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے تم سے جو کچھ پوچھا جائے صرف اسی کا جواب دو۔

ھریا: (مری ہوئی آواز میں) جو حکم سرکار___ہمار پورا نام ہرے رام یادو ہے۔

دوسرا وکیل: آپ سمپت نگر گاؤں میں کب سے ہیں؟

ھریا: (یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے) اب ای تو ٹھیک ٹھیک یاد نہ ہے بیٹوا، بس یوں سمجھ لیؤ جب تم ایک سال کے تھے تو ہم ای گاؤں میں آئے تھے۔ ___آتے ہی سب سے پہلے توہار بابا سے دوستی ہوئی تھی۔ایک بار توہکے لئی کے ہم لوگ میلہ دیکھنےگئے تھے۔توہار بابا توہکے ہمار گود میں دے کےکچھ کھریدنے گئے اور تم نے بیٹوا، ہمار گود ی میں پیساب کر کے ہمار سب کپڑا کا ستیاناس کر دیا تھا ___ہم کا آج بھی یا دہے …

دوسرا وکیل: (بات کاٹتے ہوئے) تمہارے خیال میں بھولا کیسا لڑکا ہے؟

ھریا:بس اس کا تو نام نہ لو صاحیب___وہ صرف نام کا بھولا ہے۔ ہمرا تو اس نے دماگ گھولا کر رکھا ہے۔

دوسرا وکیل: کیایہ سچ ہے کہ تم نے بھولا کو بچپن میں گود کھلایا ہے؟

ھریا:اے ہی تو دُکھ ہے بیٹوا ___جسے ان ہاتھوں سے جھولا جھُلایا، پیار کیا، آج اوہی نمک حرام ہمار رجنی کے پیچھے پڑ گوا ہے اور …

دوسرا وکیل: (جج کی طرف مڑ کر ) می لارڈ، پوائنٹ نوٹ کیا جائے۔ جس شخص نے بھولا کو اپنی گود میں کھلایا ہو، پیار کیا ہو، وہ اس پر اس قدر برہم کیوں ہوگا؟___یقیناًاس کی (بھولا کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے) کوئی حرکت میرے مؤکل کے لئے ناقابلِ برداشت ہو گئی ہوگی۔

جج: وہی تو یہ عدالت جاننا چاہتی ہے۔

ھریا: اب کیا بتائیں جج صاحیب،اس کے گھاؤ تو آپ سَبھَن کو نجر آ رہے ہیں باکِر اس نے جو گھاؤ ہم کا دئیے ہیں__ہمرے دل پر ___ اوٗ ہم کیسے دِکھائیں جج صاحیب، کیسے دِکھائیں؟___(اچانک طیش میں آ کر) آپ ہی پوچھئے، کھُد اسی سے پوچھئے کی آکھِر اوٗ ہمار رجنی کے پیچھے کاہے پڑ گوا ہے؟___کاہے ہرمیسہ ہمار رجنی کو تنگ کرتا ہے؟

جج: یہ رجنی ہے کون؟ تم سے اس کا کیا رشتہ ہے؟

ھریا: رِستہ پوچھَت ہیں صاحیب؟ ارے اوٗ تو ہمار سب ہی کچھ ہے۔ اگر اوٗ نہ ہوتی تو ہمار ناتی پوتن کا پَروَرِس ٹھیک سے نہ ہوتا ___ بےچاری رجنی ___اوٗ بہوت چھوٹی تھی تب، جب ہم اوکے گھر لائے رہے ___ان ہاتھوں سے اس کا پرورس کیا، اس کے کھانے پینے اور رہنے کا کھاس کھیال رکھتا تھا۔ اوٗ بھی ہم کا بہوت پیار کرتی تھی___اور آج بھی ہمار ایک ہی اواج پر دوڑی چلی آتی ہے۔(تھوڑی دیر کو خاموش ہو جاتا ہے۔ شدّتِ جذبات سے اس کا گلہ رندھ جا تاہے)وہ اکیلی نہیں ہے جج صاحیب، اس کے دو ننھے منے بچے بھی ہیں___بہوت پیارے پیارے ___ وہ انہیں بہوت چاہتی ہے۔اپنے بچوَن کا تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اُٹھتی ہے___ وہ کتنی بے کرار ہو جاتی ہے، ای ہم ہی جانَت ہیں یا پھر رام کھلاون کی ماں جانتی تھی۔(اپنی جیب سے کھینی کی ڈبیا نکال کر کھینی تیار کرنے لگتا ہے)ایک بار جب ای (بھولا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) گلّی ڈنڈا کھیل رہا تھاتو اس کی گلّی سے ایک بچوا کا آنکھ میں چوٹ لگی گئی___ بچوا َیِسن اواج میں چلّایا اور رویا کی ہم تڑپ کر رہ گئے___آپ سوچ سکتے ہیں جج صاحیب، کھُد رجنی کے دِلوا پر کا بیتی ہو گی جس نے اپن کوکھ سے جنم دیا تھا۔کئی دن تک رجنی ٹھیک سے کھانا نہیں کھائی۔ دن رات اپنی جکھمی بچوا کو گود سےسٹائے رکھتی تھی۔ہم نے اُس بار اِسے بچہ سمجھ کر ماپھ کر دیا۔ چلو کھیل کھیل میں چوٹ لگ گئی ہوگی۔ پھر کچھ دنوں کے بعد ای کمبَکھَت اپنی سائیکل سے رجنی کو ٹکڑ مار دیا۔بےچاری جکھمی حالت میں لنگڑاتی ہوئی گھر پہنچی۔ اس بار مجھے بہوت گُسّہ آیااور ہم نے اسے بارننگ دی اور اس کے بابا سے بھی سکایت کی۔(کھینی ٹھونکتا ہے اور پھر اسےچٹکی میں لینے ہی والا ہوتا ہے کہ جج آگے جھک کر اپنا ہاتھ اس کے آگے پھیلا دیتا ہے۔ ہریا تھوڑی کھینی اس کی ہتھیلی پر رکھ کر باقی اپنے منھ میں ڈال لیتا ہے)

جج: (کھینی چٹکی سے اپنے منھ میں ڈالتے ہوئے) ہاں، آگے کہو ___ پھر کیا ہوا؟

ھریا: پھر پرسوں ای پتنگ اُڑاتے وَکھَت ہمار رجنی سے بڑی جور سے ٹکرایا اور …

بھولا: (بات کاٹتے ہوئے ہریا کی طرف اشارہ کرکے) یہ جھجھ … جھجھ …جھوٹ بول رہا ہے جج صص …صص… صاحب… بب … بب …بالکل جھوٹ، آہ!...اُف(اپنا بڑھا ہوا ہاتھ کھینچ لیتا ہے) میں اس سے نہیں ٹکرایا تھا بلکہ وہ خوک …خوک…خود مجھ سے ٹکرائی تھی اور…

ھریا: جج صاحیب، آپ اس سے پوچھئے کی ای اسی وَکھَت پارَک میں پتنگ اُڑانے کاہے جاتا ہے جب رجنی پارَک میں ٹہلنے نکلتی ہے؟__ اگر ای ہمار رجنی کے پیچھے نہیں پڑا ہوا ہے تو پھر کسی اور وَکھَت یا پھر کہیں اور پتنگ اُڑانے کاہے نہیں جاتا؟

بھولا: کک …کیا وہ پپ…پارک تمہارے بب …باپ کی ہے؟

ھریا: ( طیش میں کٹہرے سے نکل کر اس کی جانب بڑھتے ہوئے) دیکھ بے، باپ پہ نہ جائیو ورنہ …

جج: (ہتھوڑاٹھونکتے ہوئے) آرڈر، آرڈر ___مسٹر ڈیفنس لائیر، اپنے مؤکل کو کنٹرول کیجئے۔
(انسپکٹر اور کانسٹبل آگے بڑھ کر ہریا کو پکڑ لیتے ہیں اور واپس کٹہرے میں لے آتے ہیں)

دوسرا وکیل: دیٹس آل می لارڈ!
(وہ جاکر اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ہےاور پہلا وکیل اُٹھ کر سامنے آتا ہے)

پہلا وکیل: می لارڈ، میرے پہلے گواہ ہیں سلیمان میاں جنہیں عدالت میں پیش کر نے کی اجازت چاہتا ہوں۔

جج: اجازت ہے۔

اردلی: سلیمان میاں، ولد لقمان میاں، گاؤں سمپت نگر، ضلع بھوج پور، بہار حاضر ہو____!
(بائیں طرف سے سلیمان میاں داخل ہوتے ہیں، چہرے پر لمبی داڑھی اور آنکھوں پر گول شیشوں والی عینک، سر پر کالی اونچی ٹوپی، سفید پائجامہ اور کالی شیروانی زیبِ تن کئے)

سلیمان میاں: (جج کی طرف مڑ کر خالص لکھنوی انداز میں جھک کر) آداب قبلہ، آداب!
(کٹہرے میں جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پیش کار قرآن لا کر انہیں حلف لینے کو کہتا ہے)

پیش کار: آپ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیے کہ آپ جو کچھ بھی کہیں گے سچ کہیں گے اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہیں گے۔

سلیمان میاں: برخوردار، تم بھی کمال کرتے ہو۔ (داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے) قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا ہوں اور تم سمجھتے ہو میں جھوٹ بولوں گا؟

پیش کار: پھر بھی آپ کہیئے…

سلیمان میاں: (جج کی طرف دیکھ کر پیش کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) قبلہ، کیا زمانہ آ گیا ہے۔ اب بچّے بھی بزرگوں کو سچ بولنے کی تلقین کرنے لگے۔لو یار، (قرآن پر ہاتھ رکھتے ہوئے)میں خدائے بزرگ و برتر کو حاضر و ناظر جان کر حلفیہ کہتا ہوں کہ جو کچھ میرے علم میں ہوگا اسے میں عدلیہ کے گوش گزار کر دوں گا۔

پہلا وکیل: ہاں تو مسٹر سلیمان، آپ ہریا کو کب سے جانتے ہیں؟

سلیمان میاں: کب سے مطلب؟جب سے وہ گاؤں میں آیا ہے تب سے!___میری پیدائش تو اسی گاؤں میں ہوئی تھی۔

پہلا وکیل: ہریا نے بھولا پر جو الزام لگایا ہے، کیا آپ اس پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں؟

سلیمان میاں: ارے کیا بتائیں جج صاحب، میں نے ہریا کو بہت سمجھایا کہ بھولا ابھی لونڈا ہے، کھلنڈرا ہے، غیر سنجیدہ طبیعت کا مالک ___اس سے نادانی اکثر ہو جایا کرتی ہے۔ جب بڑا ہوگا تو خودبخود سمجھ آجائے گی۔لیکن یہ ہریا، اس کے دماغ میں تو بھُس بھرا ہے۔ بس آؤ دیکھا نہ تاؤ، چڑھ دوڑا بےچارے بھولا پر…

ھریا: (بات کاٹ کر) دیکھو چاچا، ہم تُمری بہوت کدَر کرَت ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ …

جج: (ہتھوڑا ٹھونکتے ہوئے) آرڈر، آرڈر___ہریا، تم اپنا بیان دے چکے ہو۔ اب بیچ میں مت بولو۔تمہیں پھر صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

پہلا وکیل: میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ بھولا کیا واقعہ ہریا کی رجنی کو چھیڑتا ہے؟

سلیمان میاں: اب کیا بتائیں جج صاحب۔ اس عمر میں تو لڑکے شرارت کرتے ہی رہتے ہیں ___اور پھر رجنی اکیلی تو ہوتی نہیں۔ وہ اکثر میری تاجو کےساتھ باہر نکلتی ہے۔

پہلا وکیل: تاجو کون؟

سلیمان میاں: تاجو ___گرچہ وہ میرے گھر میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اسےمیرے ایک دوست نے بچپن میں میرے حوالے کیا تھا لیکن اسے پال پوس کر میں نے ہی بڑا کیا ہے۔تاجو اور رجنی بچپن سے ہی ایک دوسرے کے بہت قریب رہی ہیں۔ ایک ساتھ کھانا پینا، باہر نکلنا، بہت گہری دوستی ہے دونوں میں …

پہلا وکیل: تو آپ کا خیال ہے کہ اس نے آپ کی تاجو کو کبھی نہیں چھیڑا بلکہ وہ صرف رجنی کے پیچھے …

سلیمان میاں: (بات کاٹ کر) اب یہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں؟لیکن اگر اس نے چھیڑا بھی تو اتنی ذرا سی بات کے لئے بےچارے کو اتنی بُری طرح پیٹنا ____میرے خیال سے جائز نہیں تھا۔

پہلا وکیل:جس وقت ہریا نے بھولا پر حملہ کیا، کیا اس وقت آپ وہاں تھے؟

ھریا: (جل کر ) بھلا ای وہاں کیوں نہیں ہوں گے؟ ___ہر شام وہاں چائے جو پینے جاتے ہیں! اسی چائے کا ہی تو دام چکا رہے ہیں ای یہاں…

سلیمان میاں: (جج کی طرف مڑ کر) دیکھا قبلہ، میں نہ کہتا تھا اس کے دماغ میں بھُس بھرا ہوا ہے___ذرا اس کی زبان تو دیکھئے۔ میں اس کے باپ کے برابر ہوں پھر بھی …

جج: (ہتھوڑا ٹھونکتے ہوئے)آرڈر، آرڈر ___ہریا، اب اگر تم نے بیچ میں ٹوکاتو تمہیں کمرۂ عدالت سے نکال دیا جائے گا۔

سلیمان میاں: حضور، یہ ہتھوڑا ذرا آہستہ ٹھونکئے، میں دل کا مریض ہوں۔

پہلا وکیل: ہاں تو سلیمان صاحب،آپ میرے سوال کا جواب دیجئے۔

سلیمان میاں: جی ہاں، میں وہیں تھا___اور میں نے اپنی آنکھوں سے اسے اس پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا۔

پہلا وکیل: دیٹس آل، می لارڈ!(دوسرے وکیل سے)یور وِٹنس پلیز۔

دوسرا وکیل: (اُٹھ کر سلیمان میاں کےسامنے آتے ہوئے) ہاں تو مسٹر سلیمان، ہریا نے جب بھولا پر حملہ کیا تو آپ کہاں بیٹھے ہوئے تھے؟

سلیمان میاں: ایک دم قریب ہی ___ایک کرسی پر۔

دوسرا وکیل: جب ہریا نے بھولا پر حملہ کیا تو آپ نے اسے بچانے کی کوشش نہیں کی؟

سلیمان میاں: خوب کہی تم نے بھی___ارے بھائی، میں بڈّھا سڈّھا آد می، اس ہٹّے کٹّے ہریا سے ٹکرانے کی بھلا ہمت کر سکتا تھا؟

دوسرا وکیل: تو آپ خاموش تماشائی بنے یہ سب دیکھتے رہے!

سلیمان میاں: (آنکھیں نکال کر) آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟

دوسرا وکیل: میں کہنا یہ چاہتا ہوں مسٹر سلیمان کہ آپ جان بوجھ کر بھولا کو پٹتا ہوا دیکھتے رہے۔

سلیمان میاں: (جھنجھلا کر)مگر کیوں؟

دوسرا وکیل: وہ ا س لئے کہ آپ کے دل میں بھی بھولا کے خلاف نفرت تھی___آپ کا خیال تھا کہ وہ رجنی کے ساتھ ساتھ آپ کی تاجو کو بھی چھیڑتا ہوگا۔آپ اُسے پٹتا دیکھ کر اندر ہی اندر خوش ہوتے رہے (جج کی طرف دیکھ کر) می لارڈ، یہ شخص بہت چالاک ہے۔ اس داڑھی اور ٹوپی کے پیچھے ایک نہایت ہی …

پہلا وکیل: (کھڑے ہوکر) آبجکشن ، می لارڈ! میرے گواہ ایک بزرگ اور پرہیزگار شخص ہیں۔ ان کے خلاف کچھ بھی ثابت ہونے سے پہلے میرے فاضل دوست کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے خلاف ایسے نازیبا جملے استعمال کریں۔

جج: آبجکشن سس ٹنڈ!

دوسرا وکیل: ساری ، می لارڈ____اب میں ہریا سے چند سوالات کرنے کی اجاز ت چاہتا ہوں۔

جج: اجازت ہے۔

دوسرا وکیل: ہاں تو ہریا، تم عدالت کے سامنے تفصیل سے بتاؤ کہ جب تم بھولا کے گھر میں داخل ہوئے تو وہاں کون کون تھا، اور کیا کیا ہوا؟

ھریا: جج صاحیب، اگر آپ اجاجت دیں تو ہم سامنےجا کر بتاؤں؟

جج: اجازت ہے۔
(ہریا کٹہرے سے نکل کر جج کی میز کے سامنے آ جاتا ہے اور سچویشن کی وضاحت کرنے کی غرض سے جج کو بھی اس کی کرسی سے اُٹھوا کر وہیں بلا لیتا ہے۔پھر وکیل کی ایک خالی کرسی پر جج کو بیٹھنے کو کہتا ہے اور دوسرے وکیل کو دوسری جانب بیٹھنے کو کہتا ہےجہاں کوئی کرسی نہیں ہوتی۔جب وکیل تذبذب کے عالم میں ہریا کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتا ہے تو ہریا فوراً جج کی کرسی کھینچ کر اسے وکیل کے لئے پیش کر دیتا ہے، اور جج جو ٹھیک اسی وقت بیٹھنے والا ہوتا ہے، دھڑام سے فرش پر آ جاتا ہے!___پھر ہریا، سلیمان میاں اور دونوں وکیل وغیرہ بوکھلاہٹ میں جج کو اُٹھاتے ہیں۔ جج غصّےاور شرمندگی کےملے جُلے تاثرات کے تحت یہ سب تماشہ بند کرنے کا حکم دیتا ہے۔سب اپنی اپنی جگہوں پر چلے جاتے ہیں۔)

جج: (اونچی آواز میں) تمام ثبوتوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے، اور تمام گواہوں کے بیانات سُننے کے بعد ___یہ عدالت (جج چند ساعتوں کے لئے خاموش ہو کر باری باری سےہر ایک کو گھورتا ہے) ___ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہے۔لہٰذا یہ عدالت اس مقدمے کے سب سے اہم گواہ رجنی کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتی ہے۔

ھریا: جو حکم سرکار۔
(ہریا کٹہرے سے نکل کر درمیان میں آجاتا ہے اور اسٹیج کی بائیں جانب دیکھتے ہوئے کسی کو اندر آنے کا اشارہ کرتا ہے___جج، وکیل اور دوسرے تمام لوگوں کی نظریں اسی جانب اُٹھ جاتی ہیں۔ وہ سب اس سمت خاموش اور پُر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہوئے آنے والے کا انتظار کرتے ہیں)

ھریا: (ہاتھ کے اشارے سے بُلاتے ہوئے) ر جنی، آؤ___ اندر آؤ نا___دیکھو جج صاحیب تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ اوہ، آؤ نا___ گھبرانے کا کوئی بات ناہیں ہے۔یہاںسب اپنے ہیں___اوٗر ای بھولوا کی تو ہمت ہی ناہیں جو تمری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھے___ اری تم ہٗواں چپ چاپ کھڑی کاہے ہو؟آؤ نا۔(جج کی طرف دیکھ کر ) لگت ہے اتنے لوگن کا دیکھ کے لجا رہی ہے___ہم ابھی اُسے لے آوت ہیں۔

(اتنا کہہ کر ہریااس جانب بڑھ کر اسٹیج سے نکل جاتا ہے___اور پھر جج اور وکیل سبھی اچانک کھڑے ہو کر پھٹی پھٹی نگاہوں سے ہریا کو اندر آتے ہوئےدیکھتے ہیں جو ایک رسّی کی مدد سے ایک بکری کو گھسیٹتے ہوئے کمرۂ عدالت میں لے آتا ہے!)

(پردہ)

***
jawednh[@]gmail.com
موبائل : 9830474661
B-5, Govt. R.H.E., Hastings, 3, St. Georges Gate Road, Kolkata-22
جاوید نہال حشمی

Urdu Drama 'Rajani'. By: Jawed Nehal Hashami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں