وقت آیا ہے اب ہم اٹھیں کچھ کریں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-29

وقت آیا ہے اب ہم اٹھیں کچھ کریں

Zakat-and-the-need-of-Debtors
29 اگست جمعہ کا دن تھا اور اُس مہینے کا پانچواں جمعہ تھا ۔ اسکول کالجس کو گنیش کی عام تعطیل تھی ۔ شہر ہی نہیں پوری ریاست سے جاریہ مانسون کی سب سے تیز بارش کی اطلاعات موصول ہورہی تھیں۔ کیا بڑے کیا چھوٹے ہر ایک کی زبان پر بس اسی رحمت کی بارش کا ذکر تھا۔ لوگ شہر کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے اپنے گھروں کی بالکنیوں غرض جہاں سے موقع ملے وہاں سے بارش کے مختلف مناظر کی تصاویر کھینچ کر فیس بک پر اپ لوڈ کرتے جارہے تھے ، بظاہر چھٹی کا دن سب کچھ ٹھیک ٹھاک اور سب خیریت کا معاملہ تھا۔
کسی طرح نماز جمعہ گزرجاتی ہے اور شام سے پہلے پہلے حیدرآبادیوں کے فیس بک اکاؤنٹس پر بریکنگ نیوز کے نام سے ایک نوجوان کے قتل کی اطلاع اور ایک دل دہلا دینے والی تصویر گشت کرنے لگتی ہے۔ تصویر کتنی دردناک اور پریشان کن تھی۔ شاید اس کا اظہار الفاظ کے جامہ میں ممکن نہیں ۔ بارش کے سبب جہاں سڑکوں پر پانی تھا وہیں وٹے پلی کے ساکن 26 سالہ شیخ سراج جس سڑک پر پڑا ہوا تھا وہاں اس پاس سڑکوں پر پانی نہیں بلکہ خون ہی پھیلا ہوا تھا ۔ ایک دوسری تصویر ایسی تھی جس میں شیخ سراج کا قریبی منظر تھا، جس میں اس کے گلے کا کٹا ہوا وہ حصہ صاف دکھائی دے رہا تھا جس میں سے اس کے جسم کا خون بہہ کر پوری سڑک پر پھیل گیا تھا۔ جانوروں کو بھی ذبح کرنے کے دوران ہمدردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن شیخ سراج کی نعش کو دیکھ کر صاف دکھائی دے رہا تھا ، بڑی ہی بے دردی کے ساتھ گلا کاٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور یوں گلے کے کٹ جانے سے سراج کے جسم کا سارا خون بہہ کر اس کی موت کا سبب بن گیا۔ تصویر میں سراج کے گلے کے کٹے ہوئے حصے سے خون تو نہیں نکل رہا تھا، ہاں وہ رگیں اور سانس لینے کا نرخرہ صاف دکھائی دے رہا تھا، جہاں سے اس کے جسم کا سارا خون بہہ کر سڑک پر پھیل گیا تھا ۔ کمزور دل والے حضرات نہ تو یہ منظر دیکھ سکے اور نہ ہی اس کی تصاویر اور جس کسی نے بھی شیخ سراج کی نعش دیکھی یا اُس کی تصاویر وہ بے چین ہو اٹھا کہ آخر کس قدر ظالم ہوگا قاتل کہ اس نے اس نوجوان کا گلا کاٹ کر عین سڑک پر چھوڑ دیا تاکہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دے۔
اگلے دن ہفتہ کے روز بھی اخبارات نے تفصیلات کے ساتھ اس قتل کے واقعہ کی خبر دی کہ مرنے والا ہی نہیں بلکہ مارنے والا قاتل بھی مسلمان ہے اور قتل کی جو کچھ وجوہات پولیس کے حوالے سے بتائی گئیں اسکے مطابق مقتول شیخ سراج نے اپنی کچھ ذاتی ضروریات کیلئے ایک فینانسر سے 70 ہزار روپئے قرض لئے تھے اور سود کے ساتھ دو لاکھ روپئے واپس کرنے کے باوجود فینانسر ان سے مزید رقم دینے کیلئے دباؤ ڈال رہا تھا ۔ خبر پڑھنے کے بعد ایک بات تو طئے ہوئی کہ شیخ سراج کو قرض کی ادائیگی کے مسئلہ پر پیدا ہونے والے جھگڑے کے نتیجے میں مار ڈالا گیا۔ خبر پڑھنے کے بعد سبھی کی طرح میرے دل میں قاتل کیلئے ڈھیر ساری بد دعائیں کروٹ لینے لگی کیونکہ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مقتول سراج کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین کم عمر بچے بھی شامل تھے اور سب سے کم عمر بچہ تو صرف تین ماہ کی عمر ہی دیکھ پایا تھا اور اتنی کم عمری میں ہی وہ ہمیشہ کیلئے اپنے باپ کے سائے سے محروم ہوگیا تھا ۔ ہر کسی نے مقتول سراج اور اس کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔ جتنے لوگ تھے اتنے ہی سوالات تھے ، ایک جوان بیوہ اور تین کم عمر چھوٹے چھوٹے بچے اب کہاں جائیں گے ؟ کون ان کی سرپرستی قبول کرے گا اور ان کی تعلیم و تربیت کا کیا ہوگا ؟ شیخ سراج کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ایک کارپینٹر تھا اور روزانہ محنت کر کے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرا کرتا تھا۔ اب شیخ سراج اس دنیا میں نہیں رہا تو اس کے گھر والوں کے لئے گھر کے اخراجات کو پورا کرنا کیسے ممکن ہوگا ؟ یہ اور ایسے ہی بے شمار سوالات ذہن میں لئے ہم نے ابھی قاتل کے حق میں بد دعائیں دینے کا سلسلہ شروع بھی نہیں کیا تھا کہ خود ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ کیا میں شیخ سراج کے قاتل کو بد دعاء دینے کا اخلاقی حق بھی رکھتا ہوں یا نہیں ، کہیں میں بھی تو شیخ سراج کے قتل کیلئے کارفرما عوامل کا ایک سبب نہیں ہوں تو پھر میں کس منہ سے اس کے قاتل کو دنیا و آخرت میں ذلت اور عبرت ناک انجام کیلئے حقدار ٹھہرا سکتا ہوں کیونکہ ابھی اس با برکت مہینے کو ختم ہوئے 30 دن کا عرصہ بھی پورا نہیں ہوا تھا جس کو ہم سب لوگ رمضان المبارک کا مہینے کہتے ہیں اور اسی مہینے کے دوران ہم مسلمانوں نے بڑے ہی زور و شور سے نمازوں کی ادائیگی، قرآن مجید کی تلاوت ، تراویح اور زکوٰۃ کی تقسیم کا اہتمام کیا تھا۔ کہاں گئی ہماری زکوٰۃ اور کیوں ہم شیخ سراج کی طرح کے ضرورت مند قرض دار کو اپنی زکوٰۃ سے مدد نہیں کرپاتے۔
قرآن مجید نے تو جن آٹھ لوگوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم دیا ہے ، اس میں قرض دار بھی شامل ہے ۔ قرآن مجید نے صاحب نصاب مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض کی ہے اور صاحب نصاب وہ مسلمان ہے جس کے ہاں ساڑھے سات تولہ سونا ہو۔ ابھی 19 اگست 2014 ء کو پوری ریاست تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے گھر گھر سروے منعقد کیا گیا۔سروے کے متعلق خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے ایک خبر جاری کی کہ صرف میونسپل کارپوریشن آف حیدرآباد کے حدود میں (22.5) لاکھ مکانات ہیں اور ان مکانات میں سے 50 فیصدی مکانات کے مالکان / کرایہ دار مسلمان ہوں تو مسلم خاندانوں کی تعداد گیارہ لاکھ 22 ہزار ہوگی ۔ ان گیارہ لاکھ سے زائد مسلمانوں کے گھرانوں میں سے بھی صرف چار فیصدی مسلم گھرانے صاحب استطاعت ہوں چونکہ میں کم سے کم کا تصور کر کے چل رہا ہوں تو یہ بھی 50 ہزار کی تعداد ہوگی ۔ یعنی حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے حدود میں رہنے والے 50 ہزار مسلم گھرانے بھی اگر انہی زکوٰۃ کو اجتماعی شکل میں نکالنے کا نظم کریں تو یہ بہت سارے شیخ سراج کی طرح ضرورت مند قرض داروں کو پریشانیوں سے اور ظالم فینانسروں کے ظلم و ستم سے نجات کا راستہ فراہم کرسکتی ہے۔
میں کسی موٹی رقم کا تخمینہ نہیں لگا رہا ہوں بلکہ ایسے 50 ہزار مسلمانوں کی بات کر رہا ہوں جو شہر حیدرآباد میں رہتے ہیں اور ہر سال صرف ایک ہزار کی رقم زکوٰۃ کے طور پر ادا کرتے ہوں تو جملہ زکوٰۃ کی رقم 5 کروڑ کی بنتی ہے ۔ یہ تو اعداد و شمار کی بات ہے ، اب جو اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ہمارے شہر میں 50 ہزار بھی ایسے مسلمان نہیں جو صرف ایک ہزار روپئے زکوٰۃ دیتے ہوں ۔ اگر دیتے ہوں تو شہر حیدرآباد سے 5 کروڑ کی جو زکوٰۃ نکلتی ہے تو وہ زکوٰۃ کہاں جارہی ہے ؟
قرآن مجید نے تو زکوٰۃ کے لئے جن آٹھ لوگوں کی نشاندہی کی اُس میں قرض دار شامل ہیں۔ شیخ سراج قرض دار تھا اور ہم حیدرآباد کے مسلمان اگر زکوٰۃ کو اس کے اصل حق دار تک پہنچاتے تو شاید شیخ سراج آج زندہ ہوتا ؟ اب میرے ذہن میں جو سوالات آئے ہیں وہ یہ کہ شیخ سراج کے قتل کے لئے میں بھی ذمہ دار تو نہیں ؟ میں زکوٰۃ کیسے نکال رہا ہوں ، میرے نانا ، دادا جس ضعیف خاتون کو زکوٰۃ دیتے آج بھی اس کے بیٹے میرے گھر آکر زکوٰۃ لے جاتے ہیں۔ میں یہ کیسی زکوٰۃ نکال رہا ہوں اور کس طریقے سے زکوٰۃ نکال رہا ہوں۔ کل تک ایک شخص زکوٰہ حاصل کرتا تھا ، آج اس کی اولاد بھی زکوٰۃ حاصل کر رہی ہے اور جب اللہ رب العزت نے لوگوں میں مالی مساوات کے حصول کو زکوٰۃ کے لزوم کا ایک اہم سبب قرار دیا تو وہ نشانہ کیوں حاصل نہیں ہورہا ہے۔ اسلام ایک انسانیت دوست اور ایک فطری مذہب ہے اور اسلام نے صرف زکوٰہ کو ہی فرض قرار نہیں دیا بلکہ زکوٰۃ کس کو دینی چاہئے ، اس کی بھی نشاندہی کردی اور آج اگر زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے اور وہ بشارتیں پوری نہیں ہورہی ہیں جن کی پیش قیاسی کی گئی ہے تو کسی اور کا نہیں ہمارا قصور اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں۔ اب میں کس منہ سے شیخ سراج مرحوم کے قاتلوں کے حق میں بد سے بد تر انجام کی دعا کروں ؟
میری چشم تصور میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر شیخ سراج کو 70 ہزار روپیوں کی رقم بطور قرض لینے کی ضرورت کیوں آن پڑی تھی ۔ کیا سراج نے یہ قرضہ اپنی کسی بہن کی شادی کیلئے لیا تھا جو صرف اس لئے نہیں ہورہی تھی کہ ان کے ہاں جوڑے کی رقم دینے کا بجٹ نہیں تھا یا ان کے ہاں اتنا بجٹ نہیں تھا کہ وہ ڈھیر سارا جہیز دے پاتے یا کسی شریف دولہے نے سراج کی بہن سے شادی کیلئے جہیز کے ساتھ موٹر بائیک کی مانگ تو نہیں کی تھی ، اگر ایسا تھا تو اب سراج کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ کہیں سے قرضہ لیکر اپنی بہن کی شادی کو یقینی بناتے۔ اس صورتحال کیلئے بھی میں کسی دوسرے کو کس منہ سے ذمہ دار ٹھہراؤں زکوٰۃ کے اصل مقصد کو فراموش کر کے میں اپنی مرضی سے اپنے من پسند مد میں زکوٰۃ دے کر شیخ سراج کے قاتلوں کو کیسے برا کہوں ؟ بلا سودی قرضوں کا انتظام کئے بغیر میں کس منہ سے سودی فینانسر کو گالیاں دوں ؟
نکاح کو آسان اور شادی بیاہ کو کم خرچ والا بنائے بغیر میں کس منہ سے سراج کے قرضے لینے پر اعتراض کروں ؟ حقدار کو اس کی زکوٰۃ کے حق سے محروم کر کے میں کس منہ سے فینانسر کو ظالم قرار دوں اور آپ ؟
آپ کیا سمجھتے ہیں ، آپ ظالم فینانسر کو برا بھلا کہہ دینے سے پھر کوئی دوسرا شیخ سراج نہیں مارا جائے گا ؟ فینانسر نے شیخ سراج سے سود پر سود وصول کرتے ہوئے اسے زندہ ہی مار ڈالا تھا اور آپ بلا سودی قرضوں کا نظم نہ کرتے ہوئے کس منہ سے سودی فینانسر کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ جہیز ، گھوڑے جوڑے کی رقم ، شادیوں کے کھانے کو ختم کئے بغیر آپ یہ کیسے سوچ لیں گے کہ کوئی دوسرا پھر اپنے گھر کی شادیوں کیلئے کسی لڑکی کو بیاہ کرنے کیلئے قرضہ نہ لے ؟
مقتول سراج تو خدا کے ہاں چلا گیا ، ہم دعاگو ہیں کہ اللہ اس کے ساتھ ساتھ سارے معاملات کو اچھا کرے اور مغفرت کا سامان کرے۔ قاتل کو ہماری بد دعاؤں کی ضرورت نہیں ہے ۔ خدائے تعالیٰ کی ذات اور وقت کا پہیہ اس کے ساتھ بہترین حساب لے گا۔ (انشاء اللہ) اور ہم کیا کریں گے یہ ہمیں طئے کرنا ہوگا اور ہم نے اگر آج ہی اپنا لائحہ عمل طئے نہیں کیا تو ایک بات طئے کہ اس کیلئے ہمیں جواب دینا ہوگا تو پھر کیوں نہ اپنی جواب دہی کیلئے ہم تیاری کرلیں ؟ بقول شاعر

آگئی سر پہ اب فیصلے کی گھڑی
چھوڑدیں ساتھ ، یا ساتھ دیں کچھ کریں
خوابِ غفلت میں اک عمر سے ہیں پڑے
وقت آیا ہے اب ہم اُٹھیں کچھ کریں

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

Our Zakat and the need of Debtors. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

1 تبصرہ:

  1. عمدہ تحریر. اس سمت مثبت لائحہ عمل وقت کی اہم ضرورت ہے.

    جواب دیںحذف کریں