ہندوستان میں مسلمان اقتصادی، معاشی اور تعلیمی؛ ہر میدان میں پسماندہ ہیں۔ آزادی کے بعد بعض طبقات و قبائل کی ترقی، سرکاری ملازمتوں میں اور تعلیمی اداروں میں نمائندگی فراہم کرنے کی غرض سے کچھ ایک اقدام کرتے ہوئے انھیں مختلف مراعات فراہم کرنے کی باتیں کی گئیں اور اس کے لیے ایک خاص کوٹا مقرر کیا گیا۔لیکن ان سب میں عموماً مسلمانوں کو ہمیشہ فراموش کیا گیا نتیجۃً وہ زندگی کے ہر شعبے میں روز بروز پچھڑتے ہی چلے گئے۔پھر جب حکومت کو اس بات کا خطرہ لاحق ہوا کہ اس پر تعصب پرستی کا ٹھپا جائے گاتو اس نے نہایت قلیل تعداد کو او بی سی تسلیم کیا، حالاں کہ معاشی لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلمانوں میں اکثریت ان کی ہے، جو خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ جن طبقات کو او بی سے میں شامل کیا گیا ہے، انھیں بھی تحصیل سے اس کے سرٹفکیٹ فراہم نہیں کیے جاتے، بلکہ اس کے لیے ان کی چپلوں کو ہی نہیں پاؤں تک کو گھِسوایا جاتا ہے اور وہاں تحصیل میں بیٹھا ’بابو‘ جس زور و دھاک سے ان سے بات کرتا ہے، وہ تو تجربے کی ہی چیز ہے، رہا بے چارہ غریب؛ تالاب میں رہ کر مگر سے بیر کیسے رکھ سکتا ہے! پھر ہماری حکومت کی طرف سے آنے والے در روز نئے ضابطے!اف! او بی سی کو Creamy layerاور Non creamy layerمیں تقسیم کر دیا گیا۔ ہماری معلومات کے مطابق کریمی لئر کا مطلب ہوتا ہے وہ طبقہ ؛جس کی آمدنی چھ لاکھ سالانہ سے زائد ہو اور نان کریمی لئر میں وہ لوگ شامل ہیں؛ جن کی آمدنی چھ لاکھ سالانہ سے کم ہو۔آج ایسے سیکڑوں خاندان ہیں، جن کا شمار او بی سی میں بھی ہے اور ان کی سالانہ انکم چھ لاکھ تو کیا ایک لاکھ سے بھی کم ہے، لیکن باوجود ان کا حق ثابت ہو جانے کے مسلمانوں کو یہ سرٹفکیٹ فراہم نہیں کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ او بی سی سے ملنے والی اصل مرعات اسی پر منچصرہیں، لیکن تحصیل کے ’بابو‘ مسلمانوں سے متعصبانہ برتاؤ کرتے ہیں اور ان کا کام کسی صورت میں کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے،دوسری طرف تعلیمی اداروں کی جانب سے اس سرٹفکیٹ کو لازم قرار دے دیا گیا ہے، جب کہ تحصیل والوں کا کہنا ہے کہ یہ سرٹفکیٹ اب صرف SCاور STکو ہی دیا جاتا ہے۔ادارے والے تحصیل والوں کی بات نہیں سنتے اور تحصیل والے ان تعلیمی اداروں کی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔غریب ان دنوں کے چکر کاٹ کاٹ کی ہی تھک جاتا ہے۔ آخر کار وہ بچہ جو غربت میں اعلیٰ تعلیم کے خواب سجائے بیٹھا تھا، جس میں کچھ کر سکنے کی خدا داد صلاحیت بھی تھی، جس میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ تھا؛ جب اپنے خوابوں کو اس طرح چکناچور ہوتے دیکھتا ہے تو تعلیم ہی کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔ ان سب میں آپ غور کریں کہ کیا یہ واقعی اس فردِ واحد کا نقصان ہے؟ ہر گز نہیں، بلکہ یہ ہمارے پورے سماج کے لیے نقصان دہ بلکہ خطرناک صورت حال ہے، اس لیے کہ جب تک ہمارے سماج کا ہر ہر فرد تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوگا، ہم بہتر سماج کا تصور نہیں کر پائیں۔ یہ بھی خیال رہے، یہ سب باتیں خیالی نہیں، بلکہ روزانہ تحصیل میں پچاسوں لوگ چپل گھستے نظر آتے ہیں اور خدا ہی بہتر جانے آج تک کُل کتنے لوگوں نے اس مصیبت کو برداشت کیا ہے۔
آج کل نیٹ (NET) کے امتحانات کی تیاریاں جاری ہیں، جن میں کامیابی حاصل کرکے ہی اعلیٰ تعلیم میں تدریسی خدمات انجام دی جا سکتی ہیں، تو یہ چیزیں ایک بار پھر سامنے آئی ہیں۔اسی لیے اس مضمون کے ذریعے ہم ان تمام مسلم حکمران اور ممبران اسمبلی تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ اس جانب مناسب پیش رفت کریں اور دل شکستہ نوجوانوں کے کسی غلط فیصلہ لینے سے قبل آپ کوئی مناسب فیصلہ لیں اگر آپ واقعی ملک کی ترقی کے خیر خواہ ہیں، اس لیے کہ ملک تبھی ترقی کر سکتا ہے جب کے ہمارے نوجوان ترقی کریں، ان کا مستقبل تاب ناک ہو، اس لیے کہ یہی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ ہم ان مسلم تنظیموں کے سامنے بھی یہ حقیقت لانا چاہتے ہیں کہ محض آپ کے درویشانہ لباس میں مختلف اخبارات میں تصویر شایع ہو جانے سے مسلم سماج کے مسائل حل نہیں ہوتے، اگر آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو شروعات جڑ سے کیجیے،باقی تو آپ جانتے ہی ہیں کہ خدا کے سامنے ہم سب کو جواب دہ ہونا ہے۔
***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری |
When will Muslim OBC get the benefits of reservations? Article: Nadim Ahmed Ansari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں