نواز شریف کو اوباما کا جواب - پاکستان کی صورتحال پر تیکھا تبصرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-26

نواز شریف کو اوباما کا جواب - پاکستان کی صورتحال پر تیکھا تبصرہ

nawaz-sharif-obama
امریکہ کے صدر باراک اوباما کو نریندرمودی نے اس سال یوم جمہوریہ پر بطور مہمان خصوصی شرکت کیلئے ہندوستان آنے کی دعوت دی ہے۔ جسے اوباما نے قبول بھی کرلیا ہے۔ اگر وہ 26جنوری کی پریڈ دیکھنے کیلئے نئی دہلی آئیں گے تو ایک سال میں دو بار دورہ ہند کرنے والے پہلے صدر امریکہ کہلانے کا شرف بھی انہیں حاصل ہوگا اور وہ یوم جمہوریہ کی پریڈ دیکھنے والے پہلے امریکی صدر بھی بن جائیں گے۔ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات ادھر کچھ برسوں سے مسلسل بہتر ہورہے ہیں دونوں میں ایک طرح کی قربت بہت واضح طور پر نظر آرہی ہے۔
امریکہ دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہے اور ہندوستان سب سے بڑی جمہوری طاقت۔ جمہوریت پر یقین ان دونوں ملکوں کو قریب تر کرنے میں اتنا ہی معاون ہے جتنا کہ بین الاقوامی دہشت گردی سے پیدا شدہ مشترکہ تشویش۔ عام طور پر یہ طریقہ رہا ہے کہ ہندوستان کا دورہ کرنے والا کوئی امریکی عہدے دار یا افسر ،صدر یا وزیر اسی سفر میں ایک قدم پر پاکستان میں بھی ہوتا ہے ۔ عموما توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس بار اوباما نے ذرا الگ سا رویہ اپنایاہے۔
گذشتہ روز نواز شریف نے فون پر اوباما سے گفتگو کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان کے عوام صدر امریکہ کا اپنے ملک میں اپنے ملک میں خیر مقدم کرنے کو بے قرار ہیں تو اوباما نے سفارتی آداب کا احترام کرتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے سے صاف انکار تو نہیں کیا لیکن یہ کہا کہ آپ اپنے ملک کے حالات ٹھیک کرلیجئے تو میں دورہ پر آجاؤں گا۔ واضح رہے کہ یہ دورہ پاکستان سے کھلے انکار کا سفارتی اور شریفانہ طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ اس میں امریکہ کی گہری تشویش بھی چھپی ہوئی ہے۔
صدر اوبامانے یوں تو بہت سیدھے سے لفظوں میں نواز شریف سے کہا ہے کہ آپ پاکستان کے حالات کو اعتدال پر لے آئیں۔ اوباما کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ جیسے ہی پاکستان میں صورتحال اعتدال پر آجائے گی میں جلد کسی تاریخ پر پاکستان کا دورہ کرنے آجاؤں گا۔ نواز شریف کو اس کی سمجھ ہوگی کہ اوباما نے ان سے کیا کہا یا پاکستان کے بارے میں، جو کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ میں سب سے بڑا اور قریبی اتحادی ہے، اب امریکہ کا طرز عمل کیا ہے؟

پاکستان کے سیاسی حالات بہت خراب ہیں۔ انتخابی دھاندلی کے الزام پر صوفی حضرت مولانا علامہ طاہر القادری اور پاکستانی تحریک کے سربراہ عمران خاں نے جس بڑے پیمانے پر مظاہرہ کرکے عوامی نا خوشی کا اظہار کیا ہے۔ وہ نواز شریف کی یا پاکستان کے سیاسی طبقے کی گری ہوئی حالت کی تشوشناک تصویر پیش کرتا ہے۔ دہشت گردانہ واقعات جاری ہیں۔ کئی علاقوں میں فوج اور تحریک طالبان کے درمیان تصادم کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ بم دھماکے اور فائرنگ روز کا معمول ہیں یعنی مجموعی طور پر پاکستان کی صورتحال تشویشناک ہے اور اس کو سدھارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن جو مجموعی مزاج بنا ہوا ہے اس میں کچھ سنبھلتا نظر نہیں آتا۔
پاکستان پوری دنیا میں دہشت گردی کا مرکز بن کر ابھرا ہے۔ اور سرکاری سرپرستی میں فوج کی شہ پر سکریٹ سروس آئی ایس آئی کی مدد سے پڑوسی ملکوں میں دہشت کا بازار گرم کیا جاتا رہا ہے اور اس کے نشانے پر افغانستان اور ہندوستان سمیت بہت سے ممالک ہیں۔ سیاسی طبقہ لوٹ ، کھسوٹ، رشوت اور بے ایمانی، بدعنوانی اور دھاندلی کے ذریعہ اقتدار میں رہ کر اپنی تجوریاں بھر رہا ہے۔ اور ملک یا مملکت کے لئے فکر مندی کا فقدان دور سے نظر آرہا ہے۔
اطمینان کی بات صرف یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری نے پاکستان کے ساتھ ابھی تک وہ سلوک نہیں کیا جو دہشت گردی کو پناہ دینے اور پنپانے والے دیگر ملکوں کے ساتھ ہوا لیکن یہ رواداری بھی دھیرے دھیرے ختم ہورہی ہے۔ اوباما کا ٹکا سا جواب بین الاقوامی برادری میں پاکستان کے خلاف بننے والے مزاج کی پہلی کھلی عکاسی کرتا ہے۔
نواز شریف سمیت پاکستانی حکمرانوں کو اب اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ وہ اپنا یہاں کس طرح کے سیاسی اصلاحات کرسکتے ہیں جن سے اقوام عالم کی تسلی ہو اور پاکستان کو اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں مدد مل سکے۔
مودی حکومت نے نواز شریف کو روز اول سے ہی اپنی قربت کا احساس دلایا۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف نے شرکت کی۔ دو طرفہ ٹوٹے ہوئے مذاکرات پھر سے شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ ایک تاریخ طے ہوئی اور یہ طے کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹری اسلام آبادمیں ملیں گے لیکن ہندوستان میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر نے مذاکرات سے قبل حریت لیڈروں کو ملاقات کیلئے بلا کر اس پیش قدمی کو ناکام بنا دیا۔
پاکستان کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ بدلے ہوئے حالات میں اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ حریت لیڈروں کے ساتھ ملاقات پر مودی سرکار کا رد عمل اتنا شدید ہوگا اس کا اندازہ پاکستانیوں کو نہیں ہوا اور انہوں نے سکریٹری مذاکرات منسوخ کئے جانے کے فیصلے کا سامنا کیا۔ مودی کے بعد اوباما نے پاکستان کا سفر کرنے سے انکار کرکے وہی پیغام دیا ہے جو ہندوستان نے دیا تھا۔

پاکستان کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اوباما نے سیاسی صورتحال کا حوالہ دیا ہے یا سلامتی صورتحال کا۔ اس سوال پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں اوبامانے دونوں ہی طرح کے حالات کا احاطہ کرتے ہوئے پاکستان کی مجموعی صورتحال پر اپنی بے اطمینانی ظاہر کی ہے پاکستان میں سوالات کرنے کی بجائے عمل پر غور ہونا چاہئے۔
دنیا پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے پر امن ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہے۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
pensandlens[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

Obama's response to Nawaz Sharif on the situation in Pakistan. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں