مسلم معاشرہ آپس میں شفیق و مہربان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-28

مسلم معاشرہ آپس میں شفیق و مہربان

muslim-society
ہمدردی ، تعاون، دوسرے کا دکھ سکھ بانٹنے اور اس سے آگے اس کے لئے سینہ سپر ہوجانے اور جان دیدینے کے لئے انسانی لگت میں اگر کسی رشتے کا حوالہ دیاجاسکتا ہے تو وہ بھائی کا رشتہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے آخری دین اسلام کی نجات دہندہ تحریک نے بھی اس رشتے کو اہمیت وعظمت کے اسی مقام پر رکھا ہے اور تاریخ میں اس کے فدا کاروں نے اس کی یہ عظمت اور حیثیت تسلیم کی ہے ۔ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطابؓ کے بڑے بھائی حضرت زید بن خطابؓ جنگ یمامہ میں شہید ہوگئے تھے ۔ حضرت عمرؓ ان کے قاتل ابو مریم حنفی سلولی سے کہا کرتے تھے :
’’میرے دل کے لئے تم کبھی قابل قبول نہیں ہوسکتے جس طرح کہ زمین کے لئے بہایا ہوا خون قابل قبول نہیں ہوتا۔‘‘
قرآن و حدیث میں جو مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے ، اس کی روشنی میں ان کے باہمی رشتے کی گہرائی اور قرابت کا اندازہ کیاجاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’مسلمان جو ہیں وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔‘‘ (الحجرات ،10)نبی اکرم ﷺ نے اپنی متعدد احادیث میں اس رشتے کے تقاضوں کی تفصیل بتائی ہے جسے بجا طور پر آیت کریمہ کی تفسیر قرار دیا جاسکتا ہے :
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کے کام آئیے گا اللہ اس کے کام آئیگا اور جو کوئی مسلمان کی تکلیف کو رفع کرے گا اللہ قیامت کے دن کی تکلیفوں میں سے اس کی تکلیف کو رفع کرے گا ، اور جو کوئی کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔‘‘ نیز یہ کہ:’’آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، ایک دوسرے پر بولی نہ بڑھاؤ ، ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھو، ایک دوسرے سے بے رخی نہ برتو اور ایک دوسرے کے بیچ میں چڑھ کر خرید و فروخت نہ کرو، اس کے بجائے آپس میں اللہ کے بندے ۔ بھائی بھائی بن کر رہو، مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو گری نگاہ سے دیکھتا ہے ، نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے ، اللہ کا ڈر یہاں ہوتا ہے (ایسا کہتے ہوئے آپ ﷺ نے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا( آدمی کے برے ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کوگری ہوئی نگاہ سے دیکھے، ہر مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کی جان، مال اور اس کی عزت آبرو حرام ہے ۔‘‘
جامع ترمذی کی روایت میں اس پر اضافہ ہے:’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، وہ نہ اس سے خیانت کرتا ہے نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے ، نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے ، ہر مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کی عزت و آبرو ، اس کا مال اور اس کی جان حرام ہے، اللہ کا ڈر یہاں (سینے میں) ہوتا ہے، آدمی کے برا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھے ۔‘‘
دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے مطلوبہ رشتے اور تعلق کو اس تعبیر سے واضح فرمایا:’’ مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی مانند ہوتا ہے جس کی ہر اینٹ دوسرے کو باندھے ہوتی ہے ، پھر (اس کو سمجھانے کے لئے) آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو بھینچ کر دکھایا۔‘‘
’’مسلمان مسلمان کے لئے آئینہ ہوتا ہے اور مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ، وہ اس کو اس کے نقصان سے بچاتا ہے اور اس کا پشت پناہ ہوتا ہے ۔‘‘ آخر میں یہاں تک فرمایا:
’’تم میں کا کوئی شخص ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو کہ وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔‘‘
بھائی چارے کے اس رشتے سے مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کا جو حق قائم ہوتا ہے، اس کی تفصیل میں اللہ کے آخری رسول ﷺ کاارشاد ہے:’’ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں ۔’’سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازے کے پیچھے چلنا، دعوت کا قبول کرنا، اور چھینک آنے پر اس کو ’’یرحمک اللہ‘ ‘ کہنا( جب کہ وہ خود اس پر الحمدللہ کہے۔)‘‘
دوسری حدیث میں اس پر اضافہ ہے ’’مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں :’’جب تم اس سے ملوتو اسے سلام کرو ۔‘‘جب وہ تم کو دعوت دے تو اس کو قبول کرو۔ جب وہ تم سے نصیحت کا طلبگار ہو تو اس کو نصیحت کرو، جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمدللہ کہے تو تم(اس کے جواب میں)یرحمک اللہ کہو۔ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ، جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلو ۔
اس سلسلے میں آپ ﷺ کے یہ ارشادات بھی قابل توجہ ہیں:’’ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے ، تو جو کوئی اس کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے اور اس دوران اس کو موت آجائے تو وہ دوزخ میں جائے گا۔‘‘
نیز یہ کہ:’’ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے ، تو اگر تین دن گزر جائیں تو چاہئے کہ وہ اس سے ملاقات کے لئے جائے اور اسے سلام کرے ، اگر وہ اس کو جواب دے تو ثواب میں یہ دونوں شریک ہوں گے، لیکن وہ اس کو جواب نہ دے تو تنہا گناہگار ہوگا اور سلام کرنے والا ترک تعلق کے گناہ سے باہر نکل آئے گا۔‘‘قرآن شریف میں ’’بھائی‘‘ کے علاوہ مسلمانوں کے آپس کے رشتے کے بیان میں دو تعبیرات اور آئی ہیں :’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحمت و محبت کے پتلے ہیں ۔‘‘
نیز یہ کہ:’’ مسلمان مسلمان کے لئے نرم ہوتے ہیں ۔‘‘(المائدہ،54)
نبی اکرم ﷺ کی احادیث ان آیات کی تفسیر کہی جاسکتی ہیں:’’ مسلمان ایک آدمی کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کا سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کا سارا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘نیز یہ کہ:
’’تم مسلمانوں کو دیکھو گے کہ وہ آپس میں رحمت و محبت اور دوستی اور لگاؤ میں ایک جسم کے مانند ہوتے ہیں کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ‘‘یقیناًجو معاشرہ اخوت و محبت کے اس رشتے میں بندھا ہوا ہواس کے افراد کبھی اجنبیت اور غیریت کے عذاب میں مبتلا نہیں ہوسکتے اور اس کے یہاں سے بے رحمی اور بے مروتی کے شکوے کی آواز نہیں آسکتی ۔

Muslim society, merciful and compassionate to one another

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں