ایران نیو کلیر معاہدہ - انتہا پسند علما واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کے مخالف - اوباما - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-07

ایران نیو کلیر معاہدہ - انتہا پسند علما واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کے مخالف - اوباما

واشنگٹن؍انقرہ؍دبئی
پی ٹی آئی
صدر بارک اوباما نے بتایا کہ امریکہ نے ایک لائحہ عمل کی تجویز تہران کو پیش کردی ہے جس کے ذریعہ ایران نہ صرف اپنی توانائی ضرورتوں کی پابجائی کرسکتا ہے بلکہ اس سے اسلامی جمہوریہ اور عالمی طاقتوں کے درمیان متنازعہ نیو کلیر پروگرام سے متعلق معاہدہ کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ تجویز پر عمل آوری کے امکانات3تا4ہفتوں میں ہی ظاہر ہوپائیں گے ۔ وائٹ ہاؤز نیوز کانفرنس کے دوران اوباما نے صحافیوں کو بتایا کہ آئندہ3یا4ہفتوں کے دوران یہ نکتہ پر ہم پر واضح ہوجائے گا کہ آیا ہم واقعی معاہدہ کو قطعیت دے سکتی ہیں۔ ہم نے ایک انتہائی کارآمد تجویز انہیں پیش کردی ہے جس سے ان کی توانائی ضرورتوں کی یکسوئی یقینی ہے ۔ اوباما نے ایرانی قائدین کے اس بیان کے حوالہ سے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کوجوہری اسلحہ کی کوئی ضرورت نہیں ، کہ اگر یہ واقعی درست ہے اور حقیقی بیان ہے تو ہم نے انہیں ایک ایسی راہ فراہم کردی ہے جس پر قدم بہ قدم چل کر وہ تحدیدات کے عذاب کے دائرہ سے نکل سکتے ہیں اور عالمی براداری کو اس تیقن بھی دے سکتے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ایران ، عالمی برادری میں شریک ہوجائے گا اور اس کا ایک اہم حصہ بن جائے گا۔ دریں اثناء رائٹر نے اطلاع دی کہ اسلامی جمہوریہ اپنی لڑ کھڑاتی معیشت میں نئی روح پھونکنے کے ارادہ سے عالمی طاقتوں کیس اتھ معاہدہ پر دستخط کرنے تیار ہوسکتا ہے تاہم امریکہ کے ساتھ تعلقات کی فوری بحالی اس کے ایجنڈہ میں شامل نہیں ۔ حکام کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں حکومت اپنے ہی عوام کی حمایت و تائید سے محروم ہوجائے گی ۔ ایک عہدیدار کے مطابق روحانی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے سخت گیر مذہبی نظریات کے حامل حامی اور اعتدال پسند صدر کے درمیان ایک سمجھوتہ طے پاچکا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ ایران کو نیو کلیر تنازعہ حل کرکے بین الاقوامی تحدیدات سے راحت حاصل کرلینی چاہئے تاہم اس ’’شیطان ‘‘ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی جانب پیش قدمی نہیں کرنی چاہئے ۔ صدر حسن روحانی کے بعض حلیف عین ممکن ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے مایوس نہ ہوتے ہوں۔
1979ء میں اسلامی انقلاب کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔ ایک سابق اصلاح پسند عہدیدار نے بتایا کہ سخت مذہبی نظریات کے حامل افراد اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حکومت کو نیو کلیر معاہدہ سے بے پناہ فائدے حاصل ہوں گے تاہم انہیں یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے اختیارات سلب بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے اتھاریٹی خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے ۔ا سلامی حکومت کا رویہ امریکہ کے حوالہ سے ہمیشہ جارحانہ رہا ہے اور کسی بھی صدر نے اس حوالہ سے اپنے موقف میں لوچ اور لچک کا مظاہرہ بھی نہیں کیا ہے ۔ ایران کا پالیسی ساز شعبہ جو سخت گیر مذہبی نظریات کے حامل افراد پر مشتمل ہے وہ کم از کم ان نکتہ پر متفق ہے کہ جامع نیو کلیر معاہدہ پر دستخط ایران کے حق میں ہے اور ملک نہ صرف دولت سے مالا مال اور انتہائی خوش حال ہوگا بلکہ سیاسی طور پر بھی عالمی منظر نامہ میں ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے بھی نمایاں ہوگا ۔ روحانی کیمپ پر باور کرتا ہے کہ معیشت میں فروغ اور تقویت کے لئے امریکہ سے متعلق جارحانہ رویہ ترک کرنا ضروری ہے ، تجزیہ نگاروں اور عہدیداروں کا خیال ہے کہ دونوں فریقین اور حریفوں کے درمیان محدود مفاہمت سے آگے قدم نہیں بڑھانا چاہئے ۔ حال ہی میں ایک مذہبی انتہا پسند عالم علی رضا پناہیان نے ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ وحشی امریکیوں کے ساتھ مفاہمت اور سمجھوتہ ناممکن ہے ۔ بات چیت کی راہ اختیار کرنا اور مفاہمت میں فرق ہے ۔ ہم نے بات چیت جاری رکھی ہے تو اس کا کوئی اور مطلب بھی نکالاجائے ۔ انہوں نے امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعروں کی گونج کے دوران ان خیالات کا برملا اظہار کیا تھا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں