آج پھر ملک کوایسے ابوالکلام کی ضرورت ہے جو آزاد بھی ہو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-07

آج پھر ملک کوایسے ابوالکلام کی ضرورت ہے جو آزاد بھی ہو

maulana-azad
ہندوستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال نازک دور سے گزر رہی ہے۔ قومی یکجہتی اور بھائی چارے کا دیوالیہ نکلا ہوا ہے۔ ملک کی فضا کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کی منظم طور پرناپاک کوششیں جاری ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں فرقہ پرستوں کا زور شباب پر ہے اور ملک کی تمام اقلیتوں میں قدرے خوف و ہراس بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتِ حال ملک کے حال اور مستقبل ؛ دونوں کے لیے یقیناًتشویش کا باعث ہے۔ان حالات میں مسلمان؛ جو کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں، ان کی حالت کا جائزہ لیں، تو اس وقت شدت سے ایسے قائد و رہنما کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، جس کا رشتہ ماضی سے استوار ہو،جو حال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی طاقت رکھتا ہو اور جس میں مستقبل کو سنوارنے کا جذبہ ایک ولولہ کی حد تک کارفرما ہو۔ اس وقت مسلمانوں میں یوں تو بہت سے نام نہاد قائدین نظر آ رہے ہیں، لیکن اگر آپ کہنے کی اجازت دیں، توان میں سے اکثریت کی حالت یہ ہے کہ ان میں اخلاص کی کمی ہے۔ ساتھ ہی ان میں اُن اوصاف کی بھی کمی محسوس کی جا رہی ہے، جن کی مدد سے منجھ دار میں ہچکولے کھاتی کشتی کو کنارے پر لایا جا سکے۔ یوں سمجھیے کہ آج سے پہلے کبھی اس قوم کو اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ جب بھی اس پر کوئی مصیبت آن پڑی، خدا نے کوئی نا کوئی ناخدا ایسا بھیج ہی دیا، جس نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ذریعے 'انقلاب' برپا کر حالات کو سازگار بنانے میں مدد کی۔لیکن آج حالات دیگر ہیں۔۔۔آج تو جنھیں ہم رہنما سمجھتے ہیں، وہی رہزنی کرتے نظر آتے ہیں، جن پر تکیہ کرو، وہی پتّے ہوا دینے لگتے ہیں، جن پر اعتماد کرو، وہی بھروسہ توڑ دیتے ہیں۔خیال رہے یہ تمام عرض اس مقولہ کے تحت کی جا رہی ہیں؛ للأکثر حکم الکل۔(اکثر پر کُل کا حکم لگایا جاتا ہے)۔ ایسا بھی نہیں کہ ہم ناامید ہوئے بیٹھے ہیں،ہاں متفکر ضرور ہیں۔
کل کے بعد آنے والی کل، جو تاریخ ہے، وہ ہمارے ملک کے لیے ایک بڑی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے، اس دن کو ہمارے ہاں 'قومی یومِ تعلیم' کے طور پر منایا جاتا ہے، اس لیے کہ اس تاریخ میں آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم ،امام الہند، مولانا ابو الکلام آزادؔ کی ولادت ہوئی تھی۔ مولانا تاریخ کی وہ بلند قامت ہستی ہیں، جنھوں نے لاکھ مخالفتوں کے باوجود اپنے نظریہ اور زاوےۂ نگاہ میں کوئی تبدیلی گوارہ کی اور نہ آج کے سستے سیاست دانوں کی طرح اپنے وقار کو فروخت کیا۔ اس جملے سے مضمون کے عنوان کا مفہوم بھی بطور خوب واضح ہو گیا ہوگا۔ اس وقت ہم اسی قومی رہنما کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے قارئین کے سامنے چن فکری پہلو رکھنا چاہتے ہیں۔
مولانا ابو الکلام آزادؔ ۔۔۔ جن کا نام تاریخِ ہند اور تاریخِ ادب اردو میں محبئقوموزبانکیحیثیتسےکسیتعارفکامحتاجنہیں--انؔکااصلینام'احمد'،تاریخینام'محیالدین'،'ابوالکلام'کنیتاور'آزادؔ'تخلصتھا۔انکیولادت 11نومبر 1888ءکومکہمکرمہکےمحلہ'قدوہ'میںہوئی۔ ان کا مادری وطن مدینہ منورہ اور آبائی وطن دہلی تھا۔ عرب ماں نے عرب ماحول میں اپنے لختِ جگر کی پرورش کی اور اس طرح اُنھیں مادری زبان عربی اور اجداد کی زبان اردو کا عطیہ بلا کسی تگ و دو کے حاصل ہوا۔ گھر میں علم و ادب کے چرچے رہے، بڑے بھائی مولانا ابو نصر ےٰسین آہؔ شاعر تھے، کچھ اُن کا دیکھا دیکھی اور کچھ فطری طور موزونیت کے سبب ابوالکلام بھی جلد ہی شعر کہنے لگے، لیکن آگے چل کرتوجہ نثر کی طرف مبذول کی اور نثرکو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ان کے والد مولانا خیر الدین قادری نقشبندی مشہور صوفی بزرگ تھے اور پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ اُن کے خاندان کے بعض افراد دہلی منتقل ہو گئے تھے، جب کہ اُن کے والدنے1857ء کے ہنگامہ کے بعد دل برداشتہ ہوکرمکہ مکرمہ کا رُخ کیا، وہیں آزادؔ کی ولادت ہوئی۔ جب ان کی عمر فقط گیارہ سال تھی کہ واپس ہندوستان آئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی، جہاں سے اپنا مشہور اخبار"الہلال" جاری کیا۔ آزادی کے بعد وہ مرکزی حکومت میں وزیر تعلیم رہے۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ ایک سیاسی رہنما بھی تھے، جن کو دور اندیشی اورخلوص کی دولت من جانب اللہ عطا ہوئی تھی۔ان کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے، جنھوں نے نامساعد بلکہ مخالف حالات میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے ایسے کارنامے کر دکھائے، جن پر ہم جیسوں کو رشک کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔
ہندوستان کی جنگِ آزادی کا خواب جب شرمندۂ تعبیر ہوا، اس وقت ایک اہم المیہ یہ درپیش تھا کہ ملک کو دو حصوں؛ پاکستان اور ہندوستان کی شکل میں منقسم ہونا پڑا۔ گو بہت سے مسلمان اکابرین بھی اس کے مخالف تھے، لیکن آخر کار ملک دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہا۔ سردار پٹیل اور پنڈت نہرو کے پُر زور اصرار پر مہاتما گاندھی نے بھی بادل ناخواستہ ہتھیار ڈال دیے اس طرح یہ عرضی منظور کر لی گئی۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔انسانوں اور انسانی رشتوں کو تقسیم کرنے کو سند جواز فراہم کر دی گئی۔۔۔ اُس وقت مسلمانوں کے مستقبل کو اپنی فہم و فراست کی نظر سے بھانپ کر مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی کے منبر سے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ درد مندانہ خطبہ دیا؛"کیا تمھیں یاد ہے کہ میں نے تم کو سمجھانا چاہا، تو تم نے میری زبان پر تالے لگا دیے، میں نے قلم اٹھایا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیے، میں نے آگے بڑھنا چاہا، تو تم نے میرے پیر پابند زنجیر کر دیے، میں نے پلٹنا چاہا ، تم نے مری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔ پھر بھی میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم اس مسجد کے میناروں کوکس کے حوالے کرکے جانا چاہتے ہو؟ کیا تم کو یقین ہے کہ وہاں تم کو وہی ملے گا، جس کے تم مستحق ہو؟ ہرگز نہیں، اس لیے تم یہیں رہو اور حالات کا پامردی سے مقابلہ کرو۔"
ان الفاظ سے اس مرد مجاہد نے جن خدشات کی طرف اشارہ کیا تھا، آج 67سال بعد اس کی اصل معنویت پر غور کرو تو صاحب الفاظ کا قد مزید بڑھ جاتا ہے۔۔۔اور دل سے ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیوں ایک اجتہادی خطا کی بنیاد پر مسلمان ایک ایسی کشتی میں سوار ہو گئے، جس کا کوئی ناخدا ہی نہیں۔۔۔کیوں کہ آزادؔ کے مطابق اگر ملک متحد ہندوستان کی شکل میں آزاد ہوتا، تو ملک کے تمام صوبوں کو تین زمروں؛ اے، بی اور سی میں منقسم کیا جاتا۔ حکومت وفاقی طرز کی ہوتی، مرکز کے پاس امورِ خارجہ ، دفاع اور مواصلات کے محکمے ہوتے۔ صوبائی حکومتیں خود مختار یونٹوں کی شکل میں کام کرتیں، جس صوبے میں ہندو یا مسلم؛ جس کی اکثریت ہوتی، اُ س صوبے میں اُسی کا وزیر اعلیٰ منتخب کیا جاتا، بقیہ یونٹوں میں آبادی کے تناسب سے یہ مرحلہ طے پاتا۔ سرکاری ملازمتیں، تعلیمی اداروں اور اسمبلیوں میں نمائندگی بھی آبادی کے متناسب ہوتی۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا اور آزادؔ کو اپنوں اور غیروں کی انتہائی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا، ان حالات میں ان پر مجیب خیرآبادی کا یہ شعر بخوبی صادق آتا ہے؛
دشمنوں کو اپنایا، دوستوں کے غم کھائے
پھر بھی اجنبی ٹھہرے، پھر بھی غیر کہلائے
ان سب کے باوجود اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ کس پامردی کے ساتھ آزادؔ نے قوم کی فلاح و بہبود کے خیال کو خود سے جُدا نہیں کیا اور اسی اُدھیڑ بُن میں رات دن لگے رہ اورجس کا بہترین ثمرہ بلآخرظاہر ہوا اور آج ہزار خرابئ حالات کے باوجود، مسلمان جس حد تک بھی بے وقار و وزن کے ساتھ ہندوستان میں رہ رہیں ہیں، اس میں آزادؔ کا بڑا ہاتھ ہے اور آج ہمیں پھر سے ضرورت اس بات کی ہے کہ آزادؔ کی تعلیمات، دور اندیشی اور فلسفہ کا بغور مطالعہ کریں اور اس قیمتی سرمایہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ملک کے اتحاد کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔آنکھ بند کرکے کسی پر بھروسہ کرنا اکثر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، جس کا خمیازہ بھگتے بغیر چارۂ کار نہیں ہوتا۔ اس لیے اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کو اولاً تو اس میدان میں عملی کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے، دوسرے ہر امر میں نہایت احتیاط برتنے کی۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ پھر کوئی ایسا ابو الکلام ملک کے مسلمانوں کو نصیب ہو ، جسے ملک و قوم کی ہمدردی بھی ہو اورجو اپنی فکروعمل میں ضرورت کی حد تک آزاد بھی ہو۔

***
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
M.A, Journalist
Director of Al falah Islamic foundation, India.
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

Country needs an Azad today. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں