مجلس اتحاد المسلمین کا نیا پھیلاؤ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-11-23

مجلس اتحاد المسلمین کا نیا پھیلاؤ

AIMIM
مجلسِ اتحادالمسلمین کے سربراہ محمد اسد الدین اویسی ایم پی کا حیدرآباد یا آندھرا پردیش کے باہر مسلمانوں کے لئے سیاسی نمائندگی کی جگہ نکالنے کی کوشش آج کے جمہوری ہندوستان میں ایک ایسی مبارک کوشش ہے جس کا کھلے دل سے خیرمقدم کرنا چاہئے کیونکہ مسلمان ان 67 برسوں کے دوران بری طرح کنارے لگادیا گیا ہے اور قومی سیاسی پارٹیوں نے یہ کام ایک بڑے ایجنڈے کے تحت کیا ہے۔ مسلم نمائندگی اس وقت اس لحاظ سے تقریباً صفر کے برابر ہے کہ دوسری سیاسی پارٹیوں میں جو مسلمان تنظیم میں یا منتخب قانون ساز اداروں میں ہیں ان کی پہلی وفاداری اپنی پارٹی کے ساتھ ہے۔ وہ ملّت کو دھیان میں رکھ کر کم کام کرتے ہیں اور پارٹی کا لحاظ زیادہ کرتے ہیں۔ 14 ویں پارلیمنٹ بننے کے بعد دہلی میں متعدد پارٹیوں کے مسلم ممبران کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس میں شرکت کے لئے CPIM کے لئے کئی پارٹیوں کے ممبر اس بنیاد پر نہیں آئے کہ وہ خود کو مسلمانوں کا نمائندہ نہیں سمجھتے بلکہ پارٹی کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ پورے سیاسی منظرنامہ پر ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ انتخاب کے وقت تو وہ اپنا مسلم چہرہ لے کر ووٹر کے پاس آتے ہیں اور ایوان میں پارٹی کا چہرہ اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ دوئی ختم ہونی چاہئے۔
بیرسٹر اسد نے یہ ایک اہم فیصلہ کیا ہے کہ وہ آندھرا سے باہر نکلیں گے۔ مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات کے دوران انہوں نے 24 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ یہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا تھا اور کسی تیاری کے بغیر الیکشن لڑا گیا تھا۔ لیکن ایم آئی ایم دو سیٹوں پر جیتی۔ جہاں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آئی وہاں بھی اس کے ووٹ قابل اعتنا ہیں۔ یعنی مسلم ووٹ کسی بڑی تحریک کے بغیر خود چل کر مجلس کی طرف آگیا۔ یہ خود چلنا کوئی فوری رد عمل نہیں ہے۔کسی ہمدردپارٹی کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اور بی جے پی شیو سینا کے خواہ مخواہ پیدا کردہ خوف کی وجہ سے یہی مسلم بورڈ کانگریس اور این سی پی کو جاتا تھا۔ اس نے اپنے ہمدرد کی موجودگی محسوس کی اور اس کی طرف راغب ہوگیا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مجلس اتحادالمسلمین زیادہ بڑی پارٹی بننے کے بعد من مانی نہیں کرے گی۔ یا اس میں شخضیت پرستی کا رجحان نہیں بڑھے گا۔ اسد الدین اور اکبرالدین تک ہی قیادت محدود رہ جائے گی۔ داخلی جمہوریت کا فقدان ہوگا۔ لیکن یہ سب کچھ ہندوستان کے موجودہ سیاسی تجربہ کا لازمی جز ہے۔ شخصیت پرستی یا خاندانی وراثت آج عام ہے۔ اس طرح کے اندیشوں کے درمیان بھی اویسی خاندان کے آندھرا سے باہر نکلنے کا خیرمقدم کیا جاسکتا ہے۔ مغربی بنگال کی فضا اس کے لئے بہت ہموار ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمان ووٹروں کا فیصد 26 ہے۔ جبکہ پورے ہندوستان میں یہ اوسط 13.4فیصد ہے۔ کم ازکم 4اضلاع ایسے ہیں جہاں مسلمانو ں کی آبادی 35 فیصد سے 64 فیصد تک ہے۔ اگر مغربی بنگال میں 2016 کے اسمبلی انتخابات کے لئے ابھی سے تیاری شروع کی جائے تو مجلس کو مہاراشٹر سے بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔
حیدرآباد میں مجلس کی اپیل شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ تمام دشوار حالات میں بھی حیدرآباد لوک سبھا میں ایک یقینی مسلم سیٹ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ سالارِ ملّت سلطان صلاح الدین اویسی پارٹی کے ابتدائی دنوں میں یعنی 1982 میں اسمبلی انتخابات کے دوران اپنا پرچم کلکتہ میں بلند کرچکے تھے۔ بہو بازار حلقہ میں مجلس کا امید وار کسی تیاری کے ساتھ کھڑا نہیں کیا گیا تھا لیکن سالار ملت کو سننے کے لئے کلکتہ کے عوام سڑکوں پر امڈے پڑرہے تھے۔ اب اگر 32 سال بعد مجلس کی نوجوان قیادت مغربی بنگال کا رخ کرتی ہے تو اسے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہاں سچر کمیٹی رپورٹ، رضوان الرحمن اور نندی گرام کے تین اسباب کی بنا پر بایاں محاز سے غیر مطمئن ہوکر الگ ہونے والا وہ مسلم ووٹ مل جائے گا جس نے ترنمول کو طمانیت، تقویت اور اقتدار سونپا ہے۔ ایسا نہیں کہ ممتا بنرجی مسلمانوں کی واحد نمائندہ لیڈر ہیں۔ وہ تو وہاں پڑنے والے سیاسی خلاء کو پر کرنے والی طاقت ہیں جنہیں اقتدار تک پہنچانے کے لئے مسلم ووٹر نے اپنے کندھے کا سہارا دیا۔
مجلس اتحاد المسلمین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے جلسوں میں زبردست بھیڑ آتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ کلکتہ یا مرشدآباد یا چوبیس پرگنہ کا کوئی میدان دارالسلام گراؤنڈ کا نقشہ پیش کرسکے لیکن اس کا امکان ضرور ہے کہ اسدالدین کو سننے کے لئے لوگ آئیں گے۔ ان کی فکرمندیوں میں حصہ دار بنیں گے۔ ان کے سیاسی افکار سے متاثر ہوں گے۔ مجلس اپنے سیاسی جلسوں کو بھی جلسۂ میلادالنبی میں تبدیل کردیتی ہے اور جلسۂ میلاد بھی مجلس اتحاد المسلمین کا جلسہ بن جاتا ہے۔ مذہب اور سیاست کا ایسا امتزاج لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گا۔
مشکل یہ ہے کہ مجلس کے مغربی بنگال کی طرف رخ کرنے کی خبر کے ساتھ ایک اور سیاسی پارٹی بنگال کو تاک رہی ہے جس کا مقصد مسلم ووٹ کو پھر ایک بار توڑ کر ناکارہ بنا نا ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کے ساتھ اگر بدرالدین اجمل کا آل انڈیا یونائٹڈ ڈیموکریٹٹ فرنٹ بھی بنگال میں سرگرم ہوجائے تو مسلم ووٹ کی اہمیت و افادیت بالکل ختم ہوجائے گی اور یہ ہوکر رہے گا کیونکہ مولانا اجمل جس سیاسی فکر کی نمائندگی کرتے ہیں اس نے پورے ہندوستان میں سوائے مسلم ووٹ کو بھڑکاکر گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ یہ فرنٹ بھی علاقائی ہے۔ اس کی بنیاد آسام میں ہے۔ آسام اور بنگال میں لسانی طور پر زیادہ فرق نہیں لیکن بنگال میں پہلے سے جمعیت علمائے ہند سرگرم ہے اور اس کے کیڈر گاؤں گاؤں سے شہر آکر اپنی تنظیمی مضبوطی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ صدیق اللہ چودھری صوبائی صدر ہیں اور ممتا سے ان کی قربت ہر کسی پر ظاہر ہے۔ اجمل کی پارٹی نئے سیاسی تعدیلات بناسکتی ہے جس میں ترنمول سے ٹوٹ کر آنے والے شامل ہوں گے اور یہی وہ طبقہ ہے جس کو مجلس بھی ہمنوا بنانا چاہے گی۔ ایسے میں یہ دیکھنا رہ جاتا ہے کہ بنگال میں خالی جگہ پر کرنے کے لئے مجلس کس قدر عجلت سے آتی ہے۔ اجمل کی بنیاد ہے، اویسی کو نئی بنیاد ڈالنی ہوگی۔

***
اشہر ہاشمی
موبائل : 00917503465058
isnafonline[@]gmail.com
اشہر ہاشمی

AIMIM's spread in new areas. Article: Ash'har Hashmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں