اندرون 6 ماہ بنچوں کی تشکیل کرنے مرکز کو سپریم کورٹ کا حکم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-13

اندرون 6 ماہ بنچوں کی تشکیل کرنے مرکز کو سپریم کورٹ کا حکم

نئی دہلی
یو این آئی
ملک کے صدور علاقوں کے لوگوں کو آسان انصاف دلانے کے لئے نیشنل کورٹ آٖ ف اپیل( این سی اے) کے بینچوں کی تشکیل کا مسئلہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے اور اس سے متعلق ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس کا حق اب مرکزی حکومت کے سپرد کردیا ہے ۔عدالت عظمیٰ نے مختلف ہائی کورٹوں کے احکامات کے خلاف اپیل کے لئے صدور جنوب، مشرق اور مٹغرب کے اہم شہروں میں این سی اے کی علاقائی بینچوں تشکیل کرنے کے مسئلہ پر فیصلے کے لئے مرکز کو6ماہ کا وقت دیا ہے۔ چیف جسٹس ایچ ایل دتو کی صدارت والی ایک ڈوینل بینچ نے قانون و انصاف کی وزارت اور وزارت داخلہ کے ذریعہ مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرکے نیشنل کورٹ آف اپیل کی علاقائی بینچیں قائم کرنے سے متعلق ایک عرضی گزارکی اپیل پر قانون کے دائرے میں چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ پڈوچیری کے ایک وکیل وی سنت کمار نے ایک عرضی دائر کرکے عدالت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی تھی ۔
مسٹر کمار کی دلیل ہے کہ ملک کے کئی دوردراز کے حصوں سے سپریم کورٹ کی دوری اتنی ہے کہ مختلف ہائی کورٹوں کے احکامات کے خلاف اکثر لو گ چاہتے ہوئے بھی اپیل نہیں کرپاتے ہیں اور انہیں انصاف نہیں مل پاتا ۔ عدالت عظمیٰ کا دوازہ کھٹکھٹانے کے لئے ہونے والے سفر کے خرچ کے علاقہ یہاں مشق کرنے والے وکیلوں کی مہنگی فیس بھی انصاف حاصل کرنے کے راستے میں روڑا پیدا کرتی ہے۔ عرضی گزار نے این سی اے کی تشکیل کا مسئلہ پہلے مرکزی حکومت کے سامنے اٹھایا تھا لیکن وہاں سے کوئی مثبت جواب نہ ملنے کے بعد انہوں نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ۔ جسٹس دتو نے کہا کہ این سی اے کی تشکیل کے بارے میں مثبت اور اہم مسئلہ عدالت کے سامنے آیا ہے جس پر وہ غور کررہے ہیں اور اس بارے میں مرکز حکومت سے چھ مہینے میں فیصلہ کرنے کو کہا گیا ہے ۔ کمیشن نے بھی اپنی125ویں رپورٹ میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ دہلی میں ہے اور تمل ناڈو ، گجرات ،آسام اور میگھالیہ کے مدعی اور مدعا علیہ کو ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کے لئے سفر خرچ کے نام پر بہت زیادہ روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں ایسا رواج رہا ہے کہ جو وکیل ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑتا ہے اسے بھی عام طور پر ساتھ رکھاجاتا ہے ایسی صورت میں خرچ مزید بڑھ جاتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں درج ہونے والی عرضیوں کے جائزے میں یہ پایا گیا ہے کہ کیرالا اور آندھرا پردیش ہائی کورٹوں کے فیصلوں کے خلاف بالترتیب 2.5فیصد اور2,8فیصد اپیلیں ہی کی جاتی ہیں ۔ شمالی ریاستوں سے یہ اندازہ زیادہ ہوتا ہے ۔ دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سب سے زیادہ14فیصد، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے خلاف9.8فیصد ،اتر کھنڈ سے سات فیصد اور ہماچل پردیش سے2.5فیصد اپیلیں دائرہوتی ہیں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں