افسانہ - مینی - سید علی محسن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-27

افسانہ - مینی - سید علی محسن

Meeni-Short-Story-Syed-Ali-Mohsin
میرا خیال تھا کہ زندگی کی رعنائی اور رونق صرف لوگوں کے دم سے ہے ، خالی در و دیوار کس کام کے مگر آج بائیس سال بعد لوٹی ہوں تو یہ جان لیا ہے کہ اجنبی لوگوں کے ہجوم میں بھی انسان اکیلا ہوتا ہے ، نامانوس چہرے بیزار ، بے رنگ نظر آتے ہیں اور پرانے بے جان درو دیوار جن کے ساتھ برسوں کی شناسائی ہو چمکتے دمکتے بانہیں پھیلائے منتظر۔یادوں کا ایک میلہ لگ جاتا ہے ۔
بائیس برس بعد یونیورسٹی میں قدم رکھا ہے تو یادوں کا یہ میلہ میرے اردگرد ہے ۔میں اس کے حصار میں ہوں اور میرے آگے پیچھے ، دائیں بائیں زندگی سے بھرپور بچوں اور بچیوں کا ہجوم ہے جن کے چہرے پھیکے تو نہیں مگر میرے لئے نامانوس ہیں اور میں ۔۔اُن کے لئے اجنبی !کسی اور دیس سے آیا ہوا اجنبی !
بائیس سال کچھ کم تو نہیں ہوتے ،ایک طویل مدت ہے جس کے دن گننے بیٹھوں تو دنوں کی گنتی میں کئی دن لگ جائیں مگر بہت عجیب بات ہے ناں بوجھل گنتی کے ان بیشمار دنوں کا پہلا سِرا میرے ہاتھ میں ہے ،زندگی کی الجھی ہوئی اس طویل ڈور کو میں ایک سِرے سے پکڑ کر کھینچتی چلی جا رہی ہوں ۔
یہیں ۔۔۔ یونیورسٹی کی پارکنگ میں پہلے روز ابو مجھے سکوٹر پر چھوڑنے آئے تھے تو سکوٹر کے پہئے میں میرا دوپٹا بری طرح اُلجھ گیا تھا ۔خدا کا شکر ہے اس وقت سکوٹر کی رفتار کم تھی اور یہی تماشا کسی سڑک پر نہیں ہوا ورنہ تیزی کے ساتھ بھاگتے سکوٹر کے پہیئے کا پھندا میری گردن پر تنگ ہو جاتا۔مجھے اپنی حالت کا تو پتا نہیں مگر ابو کا چہرہ دیکھ کرمیری آنکھوں میں نمی آ گئی تھی ۔وہ پہلا اور آخری دن تھا جب ابو مجھے سکوٹر پر چھوڑنے آئے ۔اُنہوں نے امی سے صاف کہہ دیا تھا " ایک بار مر کے بچی ہے ، دوسری بار کچھ ایسا ہوا تو ۔۔۔ میں مر جاؤں گا "
میں رکشے پر یونیورسٹی آ نے جانے لگی، ابو کے سکوٹر پر نہیں بیٹھی مگر پھر بھی وہ ۔۔۔اتنی جلدی آنکھیں موند کر لمبی نیند سو گئے ۔
برسوں بعد اسی پارکنگ میں اپنی گاڑی پارک کر کے چلی ہوں تو دو قدم سے زیادہ چل نہیں پائی ،سکوٹر کے ٹائر میں اُلجھا ہوا دوپٹا ، اُبلی ہوئی آنکھوں والی ڈری سہمی لڑکی اور کمزور دل والا ایک باپ ۔۔۔مجھے اس منظر نے کچھ لمحوں کے لئے بُت بنا دیا ہے ۔میں چشمہ اُتار کے پلکوں کی نمی کو انگلی سے خشک کرتے ہوئے چل پڑی ہوں ۔دورویہ سفیدے کے درختوں کے درمیان سڑک پر میرے آگے دبلی پتلی اسمارٹ سی لڑکی موبائل فون کان سے لگائے سرگوشیوں میں کسی سے باتیں کرتے ہوئے چل رہی ہے ۔اُس کے کندھے پر بیگ ، شانوں تک کٹے ہوئے بال دیکھ کر مجھے اسماء یاد آ گئی ہے ۔
" مینی ! میرا بہت جی چاہتا ہے بال کٹوانے کو " مِینی میرا نِک نیم ہے ، مجھے یاد ہے سب سے پہلے اسی نے مجھے اس نام سے پکارا تھا تب سے میں ثمینہ سے مینی ہو گئی ۔گھر اور یونیورسٹی میں سب اسی نام سے پکارنے لگے ۔
" توبہ کرو ! " میں نے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔ میری طرح وہ بھی متوسط ،سفید پوش گھرانے کی لڑکی تھی بلکہ قدامت پسند کہنا زیادہ مناسب ہو گا جسے یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے سو پاپڑ بیلنا پڑے تھے تب کہیں گھر والے راضی ہوئے ۔
" کیوں ؟ جب میرا جی چاہتا ہے تو کیوں نہیں ؟ " وہ بحث بہت کرتی تھی ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی کسی دلیل کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ۔
" اتنے پیارے لمبے بال ہیں تمہارے ، لڑکیاں تو خواہش کرتی ہیں لمبے بالوں کی اور تم۔۔۔ "
" مگر مجھے چھوٹے بال پسند ہیں " اُس نے میری بات کاٹ دی ۔
" تو کٹوا لو " میں نے طنزیہ کہا ۔ مجھے پتا تھا وہ اتنی ہمت کبھی نہیں کرے گی ۔
" بھائی میرا گلا کاٹ دے گا " اُس نے بے بسی سے گردن پر یوں ہاتھ پھیرا جیسے چھری پھیر رہی ہو ۔
" تو پھر اپنا گلا کٹوانے کی بجائے اپنی اس فضول خواہش کا گلا دبا دو اچھی بچّی ! " میں نے اُس کے لمبے بالوں کو ہاتھ میں لے کر ذرا سا جھٹکا دیا ۔
" زندگی میں ایک بار کٹواؤں گی ضرور ۔۔۔ اپنی مرضی اپنی پسند کے بال ! " اُس نے ضدی لہجہ میں کہا ۔
" مجھے ضرور دکھانا " میں نے اُسے چھیڑا مگر اُس کے لہجے کی پختگی نے مجھے احساس دلا دیا تھا کہ کسی روز اپنی اس خواہش کے ہاتھوں وہ بغاوت پر اتر آئے گی اور زندگی میں کم از کم ایک بار اپنا یہ شوق پورا کر کے رہے گی ، باپ اور بھائی کے گھر نا سہی ۔۔۔ پیا جی کے آنگن میں ۔
شانوں تک کٹے ہوئے بالوں والی لڑکی موبائل فون کان سے چپکائے سڑک کے کنارے رُک کر دبی دبی ہنسی میں کسی سے بات کررہی ہے ،اُس کے چہرے پر قوس قزح پھیلی ہوئی ہے ۔میں اس کے پاس سے گزری ہوں تو مجھے شدت کے ساتھ اسماء یاد آئی ہے ۔
مدت ہوئی اسما ء سے بچھڑے ہوئے ۔نجانے اب وہ کہاں ہو گی ۔یونیورسٹی میں پہلے روز کلاس روم میں سیٹ کے لئے فضول بحث کرنے والی لڑکی اُسے یاد ہو گی ؟وہ لڑکی جو پہلے روز کی تلخی کے بعد اس کی بہترین سہیلی بن گئی تھی ۔ جسے اُس نے ثمینہ سے مینی بنا دیا تھا ۔شاید وہ اب بھول چکی ہو۔میں سوچ رہی ہوں زندگی کے کسی موڑ پر اُس نے اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا ہو گا ؟ بال کٹوا لئے ہوں گے ؟ نہیں ! وہ بال کٹواتی تو مجھے ضرور دکھاتی ۔۔ مجھے دکھائے بغیر وہ رہ سکے ، یہ ممکن نہیں ۔
کاریڈور میں لڑکے اور لڑکیاں کتابیں اور موبائل فون ہاتھوں میں لئے لھڑے ہیں ۔کچھ آپس میں باتیں کر رہے ہیں ،کچھ فون پر مصروف۔یہیں ، اسی کاریڈور میں کھڑے ہو کر ہم سردیوں کی دوپہروں میں دھند کے اس پار سورج کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتی تھیں ۔
" چلغوزے ! " زہرہ کی کھنکتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ہے ۔میں چونک کر مڑی ہوں۔وہ یہاں نہیں ہے مگر میرے آس پاس یہیں کہیں ہے۔
" لاؤ " میں نے بے خیالی میں اپنی ہتھیلی پھیلا دی ہے ۔شائد کاریڈور کی سیڑھیوں پر بیٹھے اسٹوڈنٹس مجھے حیرت سے دیکھ رہے ہوں۔
" طاہری کو پتا نہ چلے " زہرہ سرگوشی کرتی ہے اور اُس کی چلغوزوں والی مٹھی میری ہتھیلی پر کھل جاتی ہے ۔
" چاکلیٹ ! " مدہم آواز کے ساتھ میں بیگ سے چاکلیٹ نکال کر زہرہ کی جیکٹ کی جیب میں ڈال دیتی ہوں۔
چلغوزوں کی دیوانی اب پتا نہیں کہاں ہوگی۔ بائیس سال پہلے کی طرح اب بھی اسے چلغوزے اتنے ہی پسند ہوں گے؟ اس کی بند مٹھی اب کس کی ہتھیلی پر کھلتی ہو گی ؟
کلاس روم سے نکل کر تیز تیز قدم چلتی چار لڑکیاں اونچی آواز میں باتیں کرتی برآمدے میں آ گئی ہیں ۔مجھے دیکھ کر ایک پل کے لئے ان کی نظریں حیرانی سے رک گئی ہیں ، قدم آہستہ ہو ئے ہیں پھر وہ اپنی روانی میں چل دی ہیں ۔ انہیں کیا خبر وقت کا پہیہ پیچھے گھمانے کے لئے ایک پاگل بائیس سال بعد کلاس روم کے دروازے پر آ کھڑی ہوئی ہے ۔
کلاس روم میں چند لڑکیاں ہیں خوبصورت اسمارٹ ۔چند لڑکے شوخ ، پیاری پیاری صورتیں ۔ کمرے کا فرنیچر بدل گیا ہے ، تازہ رنگ روغن نے دیواروں کو خوشنما بنا دیاہے ، دروازے کے باہر باریک جالی کی گرل لگ گئی ہے مگر کمرہ وہی ہے۔وہی ۔۔۔ بائیس سال پہلے والا۔
اسما ٗ ، طاہرہ ، زینب ، زہرہ ،ثمینہ ، فاروق ، نعیم ، جواد ۔۔۔ سب اجنبی چہرے۔ کسی سے کسی کا تعارف نہیں ہے، پہلا دن ، ثمینہ ابھی مینی نہیں بنی ۔
روسٹرم کے پیچھے کھڑا رضا علی پروقار شخصیت کا مالک رعب دار آواز میں باری باری سب سے نام پوچھ رہا ہے ، کسی پہ ایک آدھ جملہ بھی اچھال دیتا ہے ۔کلاس روم میں موجود سب اسٹوڈنٹس اس کی شاندار پرسنالٹی سے متاثر نظر آ رہے ہیں۔اچانک پروفیسر رضاعلی کی نظریں دروازے پر جم کے رہ گئی ہیں،ہم سب کی نظریں بھی ان کے تعاقب میں ۔کئی سال پہلے کا منظر آج بھی میری آنکھوں میں محفوظ ہے ۔
سر بلال احمد کے لبوں کی وہ مسکراہٹ اور رضا علی کے دانتوں تلے دبا ہونٹ ۔
بائیس سال ایک مدت ہوتی ہے مگر مجھے وہ سب بائیس سیکنڈ پہلے کا سین لگ رہا ہے ۔رضا علی کی نقلی مونچھیں ، کنپٹی پر لگی سفیدی ، سر بلال احمد کا دروازے سے روسٹرم تک کھلکھلاتے ہوئے بارہ قدموں کا سفر ۔۔۔ اور رضا علی کا شرارتی چہرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے ہمارے درمیان آ بیٹھنے تک لمبے لمبے چار پانچ ڈگ۔بائیس سال نہیں ، بائیس سیکنڈ پہلے تک کا منظر۔
بے شک وہ بہترین اداکار تھا۔پہلے دن ہی اس نے اپنی اداکاری سے ساری کلاس کو مبہوت کر دیا ۔سر بلال احمد بھی اس سے متاثر ہوئے ۔ہم میں سے کوئی سمجھ نہ سکا کہ ڈائس پر اعتماد کے ساتھ کھڑا رضا علی ہمارا ٹیچر نہیں کلاس فیلو ہے ۔
اس خوبصورت دن کی یادیں لئے لبوں پر مسکراہٹ سجائے میں مڑی ہوں ۔ کلاس روم کے بالکل سامنے ، بر آمدے اور سڑک کے اس پار درختوں کا جھنڈ ہے۔میں بر آمدے کی سیڑھیوں پر رک گئی ہوں ۔درختوں کے اس جھنڈ کے پاس کھڑے ہو کر رضا علی نے ایک بار کوؤں کا میلہ لگا لیا تھا ۔اس نے اتنی مہارت سے کوے کی آواز نکالی تھی کہ کائیں کائیں کرتے بیسیوں کوے درختوں کی شاخوں پر آ بیٹھے تھے ۔ایک درخت کے تنے سے چپکا ہوا رضا علی مسلسل کائیں کائیں کر رہا تھا اور اوپر ٹہنیوں پر پنجے جمائے بیسیوں کوے ، کچھ فضا میں چکر لگاتے ہوئے چیخ رہے تھے کاں کاں ۔۔ کاں کاں ۔۔۔اور کلاس روم سے نکل کر برآمدے میں کھڑے اسٹوڈنٹ ، گیلری میں حیران گم صم کھڑے ٹیچرز۔۔سب دم بخود یہ تماشا دیکھ رہے تھے ۔
درختوں کا اب وہ جھنڈ نہیں رہا ۔کچھ درختوں کی جڑیں کھوکھلی ہو گئی ہیں ،کچھ کی شاخیں کٹ گئیں ۔ ٹنڈ منڈ سے چند بوسیدہ بوڑھے درخت اپنا اپنا بوجھ اٹھائے کھڑے ہیں ۔پتا نہیں کب زمین بوس ہو جائیں۔ہم سب بھی تو ان درختوں کی مانند ۔۔۔ ایک جھنڈ تھا ،جو نہ رہا ۔ کوئی کہیں ،کوئی کہیں ۔ کسی کی جڑیں زمین سے اکھڑ گئی ہوں گی ،کسی کی شاخوں کو زمانے نے جدا کر دیا ہو گا ۔کسی کا تنا بوسیدہ۔۔کون ہمیشہ رہتا ہے۔۔دُکھ انسانوں کو چاٹ جاتے ہیں جیسے درختوں کو گھن کھا جاتا ہے ۔
مجھے زیادہ اداس نہیں ہونا چاہئے ،میں یہاں ملال میں مبتلا ہونے نہیں آ ئی۔سنہرے دنوں کے البم سے چند خوبصورت تصویریں دیکھنے آئی ہوں ۔تتلی کے پروں جیسے رنگ برنگے کچھ لمحوں کا رنگ چرانے آئی ہوں ، آنسو بہانے نہیں ۔
اپنے آپ کو سنبھالتی ہوئی میں موتئے کی کیاریوں کے درمیان لکڑی کے بنچ پر آ بیٹھی ہوں۔پہلے یہاں موتئے کے پھول نہیں کھلتے تھے ، گلابوں کی کیاریاں تھیں اور سیمنٹ کا بنا ایک پرانا بنچ جس پر بیٹھ کر پہلی بار طاہرہ نے مجھے اپنے دل کی بات بتائی تھی ۔
" مینی !love by chance or by choice?"اس نے مجھ سے نظریں ملائے بغیر پوچھا تھا،میں چونک گئی ۔
" کیا مطلب ؟"
" بتاؤ ناں ! محبت اختیار کی بات ہے یا اتفاق سے اچانک کوئی ۔۔۔۔؟ "
" صاف صاف بتاؤ! " میں نے اس کا کان مروڑ دیا تھا۔
اس نے مجھے صاف صاف نہیں بتایا مگر میں جان گئی تھی کلاس روم میں لیکچر کے دوران اس کی نظریں بائیں جانب بیٹھنے والے کی طرف بار بار کیوں اٹھ جاتی ہیں ۔
پھر ایک روز گلاب کی ان کیاریوں کے درمیان سیمنٹ کے اسی پرانے بنچ پر بیٹھ کر طاہرہ نے رندھی آواز میں مجھے نمناک کر دیا تھا ۔
" کوئی مجھے اچھا لگتا ہے،اس سے کیا فرق پڑتا ہے "اس نے ہونٹ چباتے ہوئے کہا تھا۔
" کیوں ؟ فرق کیوں نہیں پڑتا ؟"میں اس کے لہجے سے ڈر گئی تھی ۔
" کہا ناں فرق نہیں پڑتا " وہ شدید تاسف میں مبتلا تھی جیسے بیچ سمندر میں کشتی غرق ہو گئی ہو۔
" تم اسے پسند کرتی ہو ؟ "
اس نے یوں میری طرف دیکھا جیسے میں نے کوئی انتہائی فضول بات پوچھی ہو۔میرا خیال ہے یہ واقعی ایک فضول بات تھی ۔
"وہ بھی تمہیں پسند کرتا ہے ؟ " میری اس بات پر اس نے میری طرف دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی ۔اس کی خاموشی نے مجھے شرمندہ کر دیا ۔ مجھے جانتے بوجھتے ہوئے اس سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہئے تھا ۔
" جب دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو تو ۔۔۔؟"
" یہی بات میرے باپ کو پسند نہیں " اس نے کرب سے آنکھیں موند لیں ۔
" پھر ۔۔۔۔؟ " میں اس لڑکی کے دکھ پر اندر سے شدید دکھی ہو رہی تھی ۔
" پھر ۔۔۔۔پھر میرے باپ کو جو پسند ہے " اس نے بات مکمل کرنے کی بجائے انگوٹھی والی انگلی میری کلائی پر رکھی اور اٹھ کرچپ چاپ چل دی ۔میں ایک پل کے لئے ششدر رہ گئی۔
" طاہرہ ۔۔۔! "
اس نے میری آواز سنی مگر رکی نہیں ۔میں نے دیکھا جب وہ سامنے کھڑے نعیم کے پاس سے گزرنے لگی ایک لمحے کے لئے رکی اور دانستہ اس کی انگوٹھی والی انگلی نے اسکی پیشانی کا پسینہ پونچھ لیا ۔
نجانے طاہرہ اب کہاں ہو گی ۔۔۔نعیم کہاں ؟
چار دن کی رفاقت میں انہوں نے عمر بھر کے خواب دیکھ لئے تھے۔ عہد و پیمان کر لئے ۔خواب ۔۔ جو راکھ ہو گئے ۔وعدے ۔۔ جو وفا نہ ہوئے۔
میں یادوں کے ان بکھرے اوراق کو سمیٹتے ہوئے تھک گئی ہوں ۔جی بوجھل ہو گیا ہے ۔نڈھال ہو رہی ہوں۔
" چلو چائے پیتے ہیں " اسما ء کی سرگوشی میری انگلی تھام کر مجھے کینٹین کی طرف لے چلی ہے ۔تھکاوٹ کے احساس کے ساتھ ہی اسما ء کے قدم کینٹین کی سمت چل پڑتے تھے ،میں اس کی ہم قدم ۔
آج اجنبی نظروں سے کیفے ٹیریا کو دیکھ رہی ہوں ۔لوہے کی زنگ آلود کرسیاں اب نہیں ہیں ، کونے میں ٹوٹی ٹانگ والا ٹیبل نظر نہیں آ رہا جس کے گرد سات کرسیاں ،دو اسٹول ہوتے تھے ۔بے فکری کے دن اور زمانے بھر کی باتیں ۔
" مینی آئی لو یو ! "
رضا علی کی سرگوشی بائیس سال سے میرے کانوں میں گونج رہی ہے ۔اس نے کینٹین میں سب کی موجودگی میں اچانک مجھے ششدر کر دیا تھا ۔چائے کا کپ میرے ہاتھ میں لرز کے رہ گیا ۔میں پتھر کی سل بن گئی ۔
میں اس کی نظروں کے پیغام کئی بار پڑھ چکی تھی ۔اس کے ذومعنی جملے مجھے پہلے بھی کئی بار چونکا چکے تھے مگر یوں سب کی موجودگی میں ۔۔سب کے سامنے ۔۔۔ کسی نے سنا نہ بھی ہو تو میرے ماتھے پہ پسینے کی پھوار اور چہرے کی زرد رنگت نے سب کو بہت کچھ سمجھا دیا ہو گا ۔
" ثمینہ ۔۔آپ کی چائے ۔۔" جواد نے مجھے متوجہ کیا ۔ چائے کے قطرے میری گود میں گر رہے تھے ۔
" مینی ! او بھائی ۔۔ مینی !شی از ناٹ ثمینہ ! " رضا علی نے جواد کا کندھا ہلایا ۔
"صرف تم اسے ثمینہ کہتے ہو،باقی سب مینی " اسماء چڑ گئی ۔وہ کئی بار جواد کو کہہ چکی تھی کہ مجھے میرے نک نیم سے پکارا کرے مگر وہ ہمیشہ میرا پورا نام لیتا تھا ۔اسماء کو بہت غصہ آتا ، کئی بار میرا بھی جی چاہا کہ باقی سب کی طرح جواد مجھے مینی کہہ کے مخاطب کرے ۔
جواد نے رضاعلی کی بات کا جواب دیا نہ اسماء کی بات پر کوئی ردعمل ظاہر کیا۔ ہمیشہ کی طرح ایک چھوٹی سی مسکراہٹ اور لمبی چپ ۔
میں کیفے ٹیریا میں کھڑی ہوں اور رضاعلی کی برسوں پرانی سرگوشی ۔۔۔میرا سارا وجود پھر سے کانپ اٹھا ہے ۔
وہ بہت ذہین ،پر اعتماد اور جوشیلا تھا ۔شاندار مقرر،انتہائی کامیاب اداکار ۔شوخ ،زندگی سے ہر پل لطف اندوز ہونے والا ۔وہ اکثر کہا کرتا تھا محبت اظہار مانگتی ہے ، کسی کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ وہ آپ کے لئے کتنا اہم ہے ۔آپ اس سے محبت کرتے ہیں ،یہ بتانا لازم ہے ۔کسی کو چاہنا اور دل میں پوجتے رہنا مگر چپ رہنا نری حماقت ہے ۔وہ ہمیشہ اظہار کر دیتا تھا ۔
" مینی ! مجھے تم پسند ہو " اس نے بلاتکلف مجھے بتا دیا تھا
" مینی !یہ رنگ تم پر بہت جچ رہا ہے " اسے کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی میری تعریف کرتے ہوئے ۔
" مینی ! مجھے تم سے محبت ہے ۔۔۔۔"
اس نے میرے گرد ایک حصار بنا دیا تھا ۔مجھے اچھا لگتا تھا مگر کبھی کبھی میں چڑ جاتی ۔جواد کی بات دل کو لگتی کہ محبت اظہار کی محتاج نہیں ۔کسی کو پسند کرنا ۔۔۔اور اسے بار بار اس بات کا احساس دلانا۔۔۔جتلاتے رہنا ۔۔۔ نہیں ! یہ مناسب نہیں ۔کم گو ، چپ چپ رہنے والے سادہ مزاج لڑکے کی اس بات پر اکثر ہنسی بھی اڑائی جاتی ۔
بے فکری سے چائے پیتی لڑکیوں اور گپ شپ میں مصروف لڑکوں کو بجھی نظروں سے دیکھتے ہوئے میں کیفے ٹیریا سے نکل کر لائبریری کی طرف چل پڑی ہوں ۔یونیورسٹی کا آخری دن ہم سب نے ایک ساتھ یہیں گزارا تھا ۔عمارت پہلے سے زیادہ کشادہ ہو گئی ہے ، لائبریری کی سیڑھیوں پر بچھا سنگ مر مر کا فرش چمک رہا ہے ۔دروازہ اپنے بازو پھیلائے کھڑا ہے مگر میں قدموں کو ازبر ان سیڑھیوں کی گنتی بھول جانا چاہتی ہوں۔میرے قدم اٹھ نہیں رہے ۔میں لائبریری کے مہربان دروازے سے داخل نہیں ہونا چاہتی ۔اندر بائیس سال پہلے کے وچھوڑے میرے منتظر ہیں ۔وہ آنسو جو چہرے بھگو گئے ،وہ سسکیاں جو سینے میں دب کے رہ گئیں ، وہ دوست ۔۔ عزیز از جان دوست ۔۔جو جدا ہو گئے ۔پنچھی جو غول کی صورت میں اڑتے رہے اور پھر ایک روزبچھڑ گئے ۔۔۔نجانے کدھر کو ایک ایک کر کے نکل گئے ۔
اسماء ، طاہرہ ، زینب ، نعیم ۔۔۔۔جواد۔۔۔ فاروق ۔۔۔ زہرہ ۔۔۔۔
نہیں ! میں پلٹ جاؤں گی ۔ یادوں کی یہ پوٹلی سمیٹے لوٹ جاؤں گی ۔
بائیس سال پہلے رضا علی نے اپنی اداکاری سے مجھے مبہوت کر دیا تھا ۔وہ جادوئی فقرے بولتا تھا ،کہتا تھا محبت اظہار مانگتی ہے اور وہ برملا اظہار کرتا تھا ۔اسے اظہار کا سلیقہ آتا تھا ۔جواد کی طرح خاموش ۔۔۔نہیں !
اسکالرشپ پر امریکہ جانے سے پہلے ہی ہم دونوں جیون ساتھی کے بندھن میں بندھ چکے تھے ۔یہ سب اتنا اچانک ، اتنا جلدی میں ہوا کہ اب مجھے حیرت ہو رہی ہے ۔شروع کے تین سال تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ میں امی کو چھوڑ کر ہزاروں میل کی دوری پر آ بسی ہوں ۔پھر جب رضا علی کا جادو کسی اور کے سر چڑھ کر بولنے لگا تو مجھے اندازہ ہوا میں پردیس میں تنہا ہوں اور دیس میں بھی میرا کوئی نہیں رہا ۔میں نے عینی کو دیکھا نہیں مگر لوگ بتاتے ہیں کہ وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت عورت ہے اور ۔۔۔مالدار بھی ۔بائیس میں سے اٹھارہ سال میں نے امریکہ میں تنہا گزارے ہیں اور آج اتنی مدت بعد۔۔۔ یونیورسٹی میں ۔۔۔ سنہرے دنوں کی یادوں کا البم کھولے ۔۔۔ ہنستی روتی واپسی کا سفر طے کر رہی ہوں ۔
ٰیہ وہی پارکنگ ہے جس میں کئی سال پہلے سکوٹر کے ٹائر میں دوپٹا الجھ گیا تھا۔۔۔
اپنی کار کی طرف جاتے ہوئے میں ٹھٹھک کر رک گئی ہوں ۔ ایک پرانے شناسا چہرے کو میں نے اچانک دیکھا ہے ۔
اتنے برسوں میں وہ ذرا نہیں بدلا ۔
اپنی گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا ہے ۔انیس بیس سال کی اسمارٹ سی خوبصورت بچّی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے پاس آ گئی ہے ۔
" مینی ! جلدی کرو بچّے ، مجھے دیر ہو رہی ہے "
" پاپا ! کتنی بار کہا ہے مجھے مینی نہ کہا کریں،آئی ایم ثمینہ ناٹ مینی ! " بچّی نے پیار بھری ڈانٹ اپنے باپ کو پلائی ہے اور وہ ہمیشہ کی طرح ۔۔۔چھوٹی سی ایک مسکراہٹ لبوں پر سجائے ،چپ چاپ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ہے ۔
میں گیلی آنکھوں کے ساتھ رخ موڑ کر کھڑی ہو گئی ہوں ،کہیں وہ مجھے دیکھ نہ لے ۔
جواد کی گاڑی ۔۔۔ میرے پاس سے گزرگئی ہے ۔جیسے کوئی اجنبی کسی نا آشنا کے پاس سے گزرتا ہے ۔

وہ کہا کرتا تھا ۔۔۔۔ محبت اظہار کی محتاج نہیں ہوتی ۔

***
سید علی محسن۔ فیصل آباد (پاکستان)۔
alimohsin22[@]hotmail.com
موبائل : 00923326790485
Ali Mohsin's Webpage
سید علی محسن

Meeni. Short Story: Syed Ali Mohsin

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں