عیدالاضحٰی - امت کی مرکزیت اور شیرازہ بندی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-07

عیدالاضحٰی - امت کی مرکزیت اور شیرازہ بندی

مولانا عبدالماجد دریاآبادیؒ
لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لبیک
حاضر ہے ، اے میرے آقا اور مولا!آپ کا یہ بندہ حاضر ہے ، یہ گواہی دہتا ہے کہ آپ ہر طرح کی شرکت سے ماورا اور برتر ہیں ۔
روحانیت کی دنیا میں بہار کاموسم آگیا، کعبہ اسلام کا جغرافیائی مرکز ہے، اس کے جشن کا دن آیا ، دوردور سے ، پورب سے پچھم سے ، اتر سے دھکن سے کھنچ کھنچ کر قافلے پر قافلے چلے آرہے ہیں، بوڑھے بھی ، جوان بھی ، لاغر بھی ، اور پہلوان بھی، گورے بھی کالے بھی، عالم، فاضل ، کامل بھی، نادان، ان پڑھ ، جائل بھی، پیدل اور سواریوں پر اونٹوں اور موٹروں اورلاریوں پر ،اسلامی قمری سال کے بارہویں مہینہ ذی الحجہ یا بقرعید کا پہلا ہفتہ آیا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں کا جماؤ ہوگیا، مکہ کی گلیوں میں، حرم شریف کے لق و دق صحرا اور بڑے بڑے دالانوں میں ، لبیک لبیک کی صدائیں ہر طرف بلند ، ہر بلندی پر چڑھتے ہوئے ، ہر پستی میں اترتے ہوئے، سواری پر سوار ہوتے ہوئے، مسجد کا رخ کرتے ہوئے، ہر طرف یہی ذکر ، یہی فکر ، احرام کی چادریں شانوں پر، توحید کے نعرے زبانوں پر ، ۸ تاریخ سے لے کر۱۳ تک ، مکہ کی گلیوں ، عرفات اور مزدلفہ میں حاجیوں کا ہجوم ، تکبیر و تہلیل ، طواف و قربانی کی دھوم زائروں کا ازدحام ، ابھی کوچ، ابھی مقام ، صفاو مروہ کے درمیان لپکتے جاتے ہیں ، دوڑتے جاتے ہیں ، عرفات کے چٹیل میدانوں میں اپنے گناہوں کو یاد کرتے جاتے ہیں ، گڑ گڑاتے جاتے ہیں ، کعبہ کے گرد گھوم رہے ہیں، چکر پر چکر لگا رہے ہیں، منیٰ کی قربانیاں کررہے ہیں ، شیطان کے مجسموں پر کنکریاں برسا رہے ہیں ، توحید کا کلمہ ہر حال میں پڑھتے ہوئے ، رب کا نام ہر آن جپتے ہوئے، یہ احکام ہوئے مرکز تک پہنچ جانے والے خوش نصیبوں کے ۔
اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد
بڑائی آپ میں ہے، صرف آپ میں ہے ، کوئی آپ کے سوا معبود نہیں ، کوئی آپ کے سوا مقصود نہیں ، بڑے صرف آپ ہیں ، آپ ہیں، کمالات ہر قسم کے جمع ہیں ، صرف آپ کی ذات میں ، آپ کی صفات میں ، ۹ تاریخ کی فجر کی نماز سے یہ تسبیح شروع ہوگئی اور جاری رہے گی، اس کی گونج ہر فرض نماز کے بعد۱۳ کی عصر تک، گویا۲۳ نمازوں کے ساتھ اور دس تاریخ کی صبح کو سب چھوٹے بڑے مل کر عید کی نماز پڑھیں گے ، شہر سے باہر عید گاہ میں اور اس نماز میں بھی ، ہر مرتبہ سے کئی کئی زائد تکبیرکہیں گے ، جسم کی صفائی کے ساتھ، لبس کی ستھرائی کے ساتھ نماز پڑھنے جائیں گے ۔ امیروغریب ، آقا و خادم ایک دوسرے کو گلے لگائیں گے ۔ روح کی بالیدگی کے ساتھ قلب کی پاکیزگی کے ساتھ واپس آئیں گے ، یہ کون بتائے کیا کیا منگیں گے ، کیا کیا پائیں گے ، کیسی کیسی دولت اپنے ساتھ لائیں گے، پیسے والے قربانیاں کریں گے اور زبان کی لذتوں میں، خوان کی نعمتوں میں اپنے سے بھی پیشتر مفلسوں، غریبو، عزیزوں ، قریبوں کا حصہ نکال رکھیں گے ۔ یہ آداب ہوئے مرکز سے دور عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں رہنے والوں، بسنے والوں کے ، آج جشن ہے کعبہ کا ، دین توحید کے مادری مرکز کا ، اس میں شرکت سے محروم نہ پاس والے ہیں نہ دور والے ۔
کہتے ہیں کہ آج سے قبل ، بہت قبل جہاں آج ملک عراق ہے، وہاں ایک ملک آباد تھا کالڈیا کلدانیہ نام کا، اپنے وقت کامذہب اور متمدن ، اس کے مذہب ترین متمدن ترین شہر اور پایہ تخت کا نام تھا اُور، اس کا پورا پتہ آج کے نقشہ میں چلانا ہو تو عالم خیال میں خلیج فارس سے بغداد کی طرف چلیے ، آپ چلیے ، لیجئے اب آدھا فاصلہ طے کرچکے ہیں ، اب دریائے فرات آپ کے بائیں ہاتھ پر ہے، کوئی دس میل کے فاصلہ پر آپ اُور کے کھنڈروں میں پہنچ گئے ، یہیں ایک شریف اور معزز گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا ، نام ابراہیم رکھا گیا ، یا حسب روایت توریت پہلے ابرام اور پھر ابراہام ، سال پیدائش آرکیالوجی (اثریات) کے مشہور ماہر سر چارلس مارسٹن کی تحقیق کے مطابق ۲۱۶۰ قبل مسیح تھا ، یعنی آج سے ٹھیک چار ہزار ایک سو سال قبل ۔ فنون لطیفہ میں نقاشی اور سنگ تراشی جو درجہ آج رکھتے ہیں وہی اس وقت بھی حاصل تھا ۔ کہ یہ فنون تو لوازم تمدن میں سے ہیں ، مذہب شرک تھا ، پرانی اصطلاح میں یا خداؤں کا تعدد، حال کی بول چال بس اثریات سے عراق کے ایک اور ماہر سر لیونارڈودلی کا بیان ہے کہ’’اُور کا مذہب جلی ترین شرک تھا، جن دیوتاؤں کے نام ہم تک پہنچے ہیں ان ہی کی تعداد پانچ ہزار ہے ۔
سنگ تراشی کو بت تراشی میں تبدیل ہوتے کیا دیر لگتی ہے ، بچہ کے والد کا نام توریت میں آیا ہے تاریخ اور قرآن میں آزر ، خود ایک بڑے آرٹسٹ( صناع) تھے اور خاص آرٹ یا صنعت سنگ تراشی اور بت گری تھی ، پتھر کی مورتیں اس کاریگر ی، اس ہنر مندی سے بناتے کہ دیکھنے والے واہ واہ کرنے لگتے، بچہ کی فطرت سلیم تھی ، جسم کی آنکھ نے یہ منظر دیکھا تو بغاوت کی ٹھان لی ، روح کی آنکھ نے توحید کی جھلک دکھادی ، ضمیر کی آسمانی قوت نے غیب کا اشارہ دیا، زبردست روحانی انقلاب کی ٹھہرالی ، اٹھے بڑھے ، بولے، پہلے ہنسے گئے ، پھر ستائے گئے ، ہٹائے گئے ، وطن چھوڑ، رخ مغرب کی جانب کیا ، شام پہنچے فلسطین کی وادیاں طے کیں ، مصر کی سر زمین چھانی، قدم اس ملک میں رکھا جو خشک تھا اور ایک ریگستان بے آب و گیاہ آسمانی روشنی کی ایک تڑپ نے نشاندہی کی ، یہی تو وہ زمین ہے جس کے لئے ازل سے رشک آسماں ہونا ، کائنات انسانی کا روحانی مرکز بننا طے ہوچکا ہے ۔ سیاحی کے قدم رک گئے ، مسافرت نے وطن گزینی کی شان پید اکرلی ، مصری بیوی شہزادی تھیں ، ان سے صاحبزادے تولد ہوئے ، نام اسمعیل رکھا گیا، پرورش لاڈ سے ، پیار سے ہوئی ، پلے بڑھے ، بڑے ہوئے، باپ کے ہاتھ بٹانے ، ماں باپ کے کام آنے لگے ، ادھر زمین پر یہ ہورہا تھا ادھر باپ کو خواب میں حکم آسمان والے کا ملا کہ بیٹے کو ہماری راہ میں قربان کردو، یہ ٹھیک ہے کہ انسانی قربانی کا دستور اس وقت عام تھا، دیویوں اور دیوتاؤں کے استھانوں پر انسانوں کی بھینٹ آئے دن چڑھتی رہتی تھی ، لیکن بیٹے اور اکلوتے بیٹے کی قربانی کس باپ نے کی تھی؟
فرمائش کس باپ سے ہوئی تھی؟ ابراہیم ؑ مرحلہ عشق و محبت کے بہت سے طئے ہوئے اور کڑیاں عبدیت اور عبودیت کی بہت سی جھیلے ہوئے ، امتحان کامیابی کے ساتھ بہت دئے ہوئے تھے، یہ آزمائش سب سے بڑی، سب سے کڑی تھی، ایسا امتحان تو صرف ایک موحد کا ہوسکتا ہے ، یہ ہمت، یہ جیوٹ یہ حوصلہ صرف ایک موحد ہی کرسکتا تھا۔
اللہ اللہ! قیامت کی تھی وہ گھڑی جب بوڑھے یا اس وقت کی اوسط عمر کے حساب سے ادھیڑ عمر کے باپ نے اکلوتے نور نظر کو ، نوجوان سبزہ آغاز ، لخت جگر کو زمین پر لٹایا ، اپنی آنکھ پر پٹی باندھی اور چھری چلا دی ۔ ابراہیم ؑ نے دعوے کا اعلان کیا تھا ، کہا تھا اور جب کا ئنات کی ساری فضا مشرکانہ تھی ، اس وقت کہا تھا کہ میں موحد ہوں ، مسلم ہوں ، میں اپنا سب کچھ سونپ چکا ہوں ، اپنے مالک و مولا کو ، اپنے کو فنا کرچکا میرا اپنا کچھ بھی نہیں ، نہ جان اپنی نہ اولاد اپنی۔ سب کچھ اسی پاک بے نیاز کی ہے ، امتحان اسی دعوے کا تھا، چھری چلی، لیکن اسمعیلؑ کے حلقوم پر نہیں، ایک دنبہ کے گلے پر۔ امتحان عاشق صادق کا، بندہ مسلم و فرمانبردار کا ہوچکا ، ایک دنبہ غیب سے لاکر اسمعیلؑ کی جگہ پر رکھ دیا گیا تھا ۔ بشاری ملی کہ تمہاری قربانی قبول ہوگئی ، اسی مقبولیت کی یادگار دنیا میں مستقل اور پائیدار کردی جائے گی۔
جشن آج کعبہ کا ہورہا ہے ، یہ ہفتہ ہفتہ کعبہ منایاجارہا ہے ، کیسے ممکن تھا کہ یاد تعمیر کی دلائی جاتی اورمعمار کعبہ کو بھلادیاجاتا ، ابراہیم توریت اور قرآن دونوں کی زبان میں اللہ کے دوست اور خلیل ، وہ تھے کہ انہوں نے ان کے جگر گوشہ اسمعیل ؑ نے مل کر کعبہ کی دیواریں بنائی تھیں ، بنیادیں اٹھائی تھیں ، پتھروں کی ڈھلائی کی تھی، جڑائی کی تھی ، عمارت جب تک زندہ ہے معمار بھی مردہ نہ ہونے پائے گا، نہ اس کا کام ، نہ اس کا نام ، روایتوں میں آتا ہے کہ واقعہ قربانی کے وقت حضرت اسمعیلؑ کی عمر۱۳سال اور ان کے پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم ؑ کا سن ۸۶ سال کا تھا، یہ دونوں حساب اگر صحیح ہیں تو ۲۱۶۰ سے۹۹ سال گھٹا دیجئے اور واقعہ قربانی کی تاریخ آکر ۲۰۶۱ قبل مسیح ٹھہرتی ہے ، یعنی آج سے چار ہزار ایک سو سال قبل۔
وہ دن ہے اور آج ، کہ ادھر سال کی وہ قمری تاریخ آئی اور ادھر ملت ابراہیمی کانام لیوا مسلمان روئے زمین کے جس حصہ پر بھی آباد ہو قربانی کے جانور کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا، جانور اچھے سے اچھا ڈھونڈ کر لائے گا، جانور حرام نہ ہو، گندہ نہ ہو ، اندھا نہ ہو، لولا نہ ہو، حلال ہو، پاکیزہ ہو، تندرست ہو ، بھلا چنگا ہو، جانوروں میں بھی شرافت کا ایک معیار ہوتا ہے ۔ شریعت نے شرافت خاندانی صرف چند جانوروں کی معتبر مانی ہے اور وہ معروف اور معلوم ہیں ، ان میں سب سے بڑا جانور اونٹ اور سب سے چھوٹا بکری ، مسلمان انہیں اچھے داموں میں ، اپنی حلال و پاکیزہ کمائی سے خرید کر لائے گا، کھلائے گا، پلائے گا ، ا پنے سے ہلائے گا اور جب وقت آجائے گا تو بیدردی اور خشونت سے نہیں، عبدیت اور عبودیت کے جذبہ سے مغلوب ہوکر اپنے اور اس کے دونوں کے خالق و مالک کو یاد کرکے یہ کہتے ہوئے اسے زمین پر قبلہ رو لٹائے گا کہ اے ہمارے مالک و مولا!قبول کر ہماری قربانی، جس طرح تونے قبول کی قربانی اپنے خلیل ابراہیم ؑ کی ، مبارک وہ انسان جو دور کا بہت دور کا بھی تشبہ پید اکرسکے ، ابراہیم خلیل ؑ سے ۔ مبارک تر ہے وہ قربانی کا جانور جو برائے نام سہی کوئی نسبت قائم کرسکے اللہ کے ذبیح اسمعیلؑ سے۔
گلے پر چھری پھیرتا جائے گا اور کہتا جائے گا : انی وجھت وجھی للذی فطر السماوات والارض وما انا من المشرکین۔ میری ساری توجہ کا مرکز میری ساری عبودیت کا قبلہ، تو اے قبلہ حاجات صرف آپ ہیں، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے مجھے اور کسی سے غرض کیا؟
میں اپنا رشتہ تو سب سے توڑے ہوئے ہوں، صرف آپ سے جوڑے ہوئے ہوں ، اس وقت بھی نیت صرف آپ سے تقرب کی ہے ، تعمیل آپ ہی کے حکم کی ہے ، عید قرباں یادگار ہے ، دنیا کے اول المسلمین کی ،ایک قدیم ترین موحد کے ایثار حق کی، حق ہے کہ توحید کا رنگ جھلکے ، اس کی ایک ایک شان سے ، اس کی ہر ہر آن سے ، اسلام کی جنتری میں جشن صرف دو ہیں، عید اور بقرعید ، اوردونوں کا مقصد ہے امت کی مرکزیت اور شیرازہ بندی، ایک یادگار ہے ، نزول قرآن کی دوسری یاددلاتی ہے کعبہ کی تعمیر کو، کعبہ کے معمار کو،

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں