بردوان دھماکہ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مہم تشویشناک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-10-29

بردوان دھماکہ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مہم تشویشناک

کولکاتا
ایس این بی، یو این آئی
مغربی بنگال کے دانشوروں نے بردوان دھماکہ کے بعد میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف جاری مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک فاسشٹ قوتوں کے ہاتھوں میں جاتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ دستاویزی فلم ساز سومترا گھوش دستیدار نے کہا کہ میڈیا کی موجودہ روش ملک کے لئے خطرناک ہے انہوں نے کہا کہ جھوٹ کی تشہیر کی جارہی ہے اور ایک سیاسی پارٹی کے مفادات کے پیش نظر یہ سب کچھ کیاجارہا ہے ۔گجرات فسادات اور آسام فسادات پر دستاویزی فلم بناچکے سومترا گھوش دستیدار نے کہا کہ ہٹلر بھی جرمن کے30فیصد عوام کے ووٹ کے ذریعہ منتخب ہوکر اقتدار سنبھالا تھا مگر اس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیا کچھ نہیں کیا دنیا جانتی ہے۔ انہوں ںے کہا کہ32۔30فی صد ووٹ کی بدولت اقتدار میں آنے والے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے گناہ کبھی بھی کم نہیں ہوسکتے ہیں اور ان کی ذہنیت نہیں بدلی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی ملک سے جمہوری روایات کا فقدان ہوتا جارہا ہے اور انہوں نے کہا کہ بردوان دھماکہ کے بعد میڈیا اور جانچ ایجنسیاں جس تسلسل سے مسلمانوں اور دینی مدرسوں کو نشانہ بنارہی ہیں وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس کے پس منظر میں سیاسی سازش کار فرما ہے۔
اکادمی آف فائن آرٹس آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے زیر اہتمام مدارس کے خلاف سازش کے عنوان سے منعقد سمپوزیم میں بندی مکتی کمیٹی کے سربراہ چھوٹن داس نے کہا کہ بردوان دھماکہ آر ایس ایس کی سازش کا ایک حصہ ہے ۔ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو ڈرانے و دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔، انہوں نے آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کے ایک ہندوستان کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کرنے کی کوششوں اور ان کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بنگال گزشتہ کئی دہائیوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارہ رہا ہے مگر پارلیمانی انتخاب کے بعد سے ہی یہاں پر فرقہ واریت کی بنیاد پر سیاسی ماحول کو گرمایاجارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی جانچ ایجنسیاں آئین سے ماورا ہوکر کام کررہی ہیں۔ انہوں نے آئین ہند کی دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی بچہ کو جیل میں بند نہیں کیاجاسکتا ہے مگر این آئی اے جن دو خواتین کو گرفتار کیا ہے ان کے ساتھ بچے بھی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ بچے کہاں ہیں انہوں نے کہا کہ آئین میں وضاحت کی گئی ہے کہ کسی بھی ملزم بچہ کی تصویر اخبارات یا ٹی وی میں نہیں دکھائی جائے گی اور ایسا کرنے والوں پر25000ہزار جرمانہ عائد کیاجائے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ میڈیا میں ان بچوں کی بھی تصویرشائع کی گئی ہے ۔
چھوٹن داس نے این آئی اے کے ذریعہ گرفتار افراد کو قانونی چارہ جوئی کے لئے وکیل فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی میڈیا ناقابل اعتبار ہوچکی ہیں اور بیشتر کمپنیاں کارپوریٹ گھرانے کے ہیں یا پھر کارپوریٹ کمپنیوں کے تعاون سے چل رہی ہیں اس لئے میڈیا کو انسانیت اور انسان کی فلاح و بہبود سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ مشہور سماجی کارکن اوپی شاہ نے اپنے خطاب میں گاندھی اصول و نظریات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور اس کو مذہب سے نہیں جوڑاجانا چاہئے انہوں نے کہا کہ بردوان دھماکہ کو جس طرح مسلمانوں سے جوڑ کر فرقہ واریت پھیلائی جارہی ہے ۔ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ انہوں نے سماجی کارکن اور دانشوروں سے اپیل کی ہے کہ ملک نظریاتی بحران کا شکار ہوتا جارہا ہے اس لئے آگے آئیں ملک کو اس بحران سے نکالیں ۔ خالد عباداللہ نے ریاستی بی جے پی کے صدر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ داڑھی رکھنے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں تو مودی اور امت شاہ بھی داڑھی رکھتے ہیں تو کیا وہ بھی دہشت گرد ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے مدرسہ کے حوالے سے کہا کہ اگر مدرسوں میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے تو ماؤ نواز کس مدرسے سے فارغ ہوئے ہیں۔ سماجی کارکن قمر الدین ملک نے کہا کہ میں دنیا کے کسی بھی مدرسہ میں انتہا پسندی کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے ۔ صرف مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کے لئے مدرسوں کو بدنام کیاجارہا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ کھاگڑا گڑھ اور سمولیہ میں جاکر ہم لوگوں نے دیکھا ہے کہ سچائی کیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ افواہ کی طرف نہ دیکھا جائے اور باہمی ملت اور اعتماد کو برقرا ر رکھتے ہوئے ملک کی ترقی کے بارے میں سوچا جائے۔ ملی پریشد کے سکریٹری عبدالعزیز نے تمام واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا ک مسلمانوں کو مدرسہ کے نام پر بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ این آئی اے کی تفتیش میں جو کچھ دکھایاجارہا ہے وہ غلط ہے ۔ پولیس چھاتا ہے کہ ایک چھڑی کو بندوق کا دستہ بتاتی ہے ۔ اب سے زیادہ افسوس کی کیا بات ہوگی ۔اس کنونشن میں مسلم مجلس مشاورت کے قومی صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام ، ملی اتحاد پریشد کے کنوینر عبدالعزیز ، جماعت اسلامی ہند کے امیر حلقہ نور الدین اور منتھن سمے کے ایڈیٹر جیتیندر نندی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

بم دھماکہ کے بعد کھاگڑا کا بنگال کے مسلمانوں پر اثر
ملی رہنماؤں کے دورہ کی چشم کشا ابتدائی رپورٹ
بردوان کے کھاگڑا گڑھ میں 2اکتوبر کو ہوئے بم دھماکے کے بعد مسلمانوں پر میڈیا کی جانب سے لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزامات اور گل افشانیوں کی حقیقت کی تہہ تک پہنچنے اور حقیقی صورتحال سے واقفیت کے لئے کولکاتا کے مسلمانوں کا ایک وفد24اکتوبر کو کھاگڑا پہنچا تھا ۔ واپسی پر وفد کے سربراہ عبدالعزیز نے اپنی رپورٹ اخبارات کو پیش کی ہے۔ واقفیت احوال کے لئے اس رپورٹ کو قارئین کی نذرکیاجارہا ہے ۔
(ایس این بی)

بردوان مغربی بنگال کا ایک ضلع ہے جوکولکاتا سے ڈیڑھ دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔2اکتوبر2014کو بردوان شہر کے ایک محلہ کھاگڑا گڑھ کی ایک عمارت کی پہلی منزل پر11بجے دن میں بم بلاسٹ ہوا ۔ جب پولیس کی ٹیم جائے واردات پر پہنچی تو دیکھا کہ تین افراد خون میں لت پت ہیں۔ دو خواتین اور ان کے بچے ایک دوسرے کمرے میں ہونے کی وجہ سے بم بلاسٹ کے اثرات سے بچ گئے ۔ دھماکہ نے شکیل غازی کے جسم کو چیتھڑے چیتھڑے کردیا تھا جب کہ شوبھن منڈل عرف سوپن منڈل اور عبدالحکیم کے جسم سے بے تحاشہ خون بہہ رہاتھا۔ منڈل نے اسپتال لے جاتے ہوئے راستہ میں ہی دم توڑ دیا لیکن عبدالحکیم بچ گیا ۔ غازی کی بیوی رضیہ اور حکیم کی بیوی امینہ بی بی کو حراست میں لے لیا گیا ۔ کمرے میں کیمیکلس اور پھٹ جانے والے مادے برآمد ہوئے ۔ ایسا لگتا ہے کہ گھر میں پائے جانے والے پانچ افراد برقعہ سلائی کے کارخانے کے پردے میں بے ڈھنگے اور ادھورے قسم کے بم بنانے کے کام میں ملوث تھے ۔
اس واقعہ کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی مغربی بنگال کے سربراہ راہل سنہا نے میڈیا کی مدد سے دھماکہ خیز (Explosive) بیانات پر بیانات دینے شروع کئے جس کا خاص مقصد تھا کہ مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل جائے اور ہر مسلمان بدنام اور دہشت گرد کے نام سے جانا اور پہچانا جائے ۔ مختلف علاقے سے چھوٹے موٹے حادثات بھی شروع ہوگئے ۔مدرسہ کے ایک طالب علم کو زندہ جلانے کی کوشش کی گئی۔ اس کی حالت نازک ہوگئی ، اسے اسپتال میں بھرتی کرنا پڑا ۔ آج بھی وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔ ان حالات میں مسلم تنظیموں کے نمائندوں اور چند غیر مسلم شخصیتوں پر مشتمل ایک ٹیم نے کھاگڑا گڑھ ۔ سمولیہ گاؤں کا24اکتوبر2014کو دورہ کیا اور نظم و ضبط سے متعلق افراد سے ملاقاتیں کیں، سمولیہ مدرسہ کا معائنہ کیا اور گاؤں کے لوگوں سے بات چیت کی ۔ کھاگڑا گڑھ کی جس عمارت میں بم پھٹا اس کے قریب ایک مدرسہ کے سکریٹری اور پرنسپل سے ملاقات کی گئی اور معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وفد میں کل ہند مسلم مجلس مشاورت مغربی بنگال، ملی اتحاد پریشد ، جماعت اسلامی ہند مغربی بنگال ، حقوق انسانی کی تنظیم ای پی سی آر، طلباء کی تنظیم ایس آئی او، ویلفیر پارٹی آف انڈیا ، جمعیۃ اہل حدیث ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نمائندے شامل تھے ۔ ان نمائندں کے علاوہ مسٹر منیشا سین(جنرل سکریٹری ویلیفیئر پارٹی آف انڈیا ، ویسٹ بنگال) اور مسٹر سکھ نند سنگھ اہولیہ (لیڈر سکھ اقلیت) بھی وفد میں شامل تھے ۔ وفد کے سربراہ مشاورت کے جنرل سکریٹری عبدالعزیز تھے ۔
جب یہ وفد کھاگھڑا گڑھ کے محلہ میں داخل ہوا تو چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ این آئی اے کے سربراہ شرد کمار جائے واردات کا معائنہ کرنے کے لئے پہنچے ۔ ان سے وفد کے ارکان نے ملاقات کی کوشش کی مگر پولیس افسران نے زبردست مزاحمت کی اور ملاقات کرنے نہیں دی۔ وفد کے ساتھ پریس کے کئی نمائندے تھے ۔ ان سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی گئی مگر مسٹر شرد کمار نے پریس کے نمائندوں سے بھی گفتگو کرنا گوار ا نہیں کیا۔ ٹیم کے ارکان نے بم پھٹنے کی جگہ کے قریب ہی ایک مدرسہ کے سکریٹری محمد علی بسواس اور پرنسپل مولانا شیخ عبدالرحمن صاحبان سے ملاقات کی۔ اس وقت محلہ کے بھی کئی ذمہ دار افراد موجود تھے ۔ سب نے بتایا کہ بم پھٹا ہے۔ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے مگر بی جے پی، آر ایس ایس اور میڈیا کے افراد جس طرح واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سارے مسلمانوں کو ملوث کرنے کی ایسی اوچھی حرکت کررہے ہیں، کہ بم بنانے میں ملوث افراد جنتے مذمت کے لائق ہیں اس سے کہیں زیادہ یہ افراد قابل مذمت ہیں کیونکہ یہ مغربی بنگال کیا ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو پانچ چھ افراد کی بد معاشی اور مجرمانہ حرکت پر سزا دینا چاہتے ہیں جو عدل و انصاف کے تقاضے کے بالکل خلاف ہے اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے ۔ محلہ کی عورتوں نے بتایا کہ میڈیا والوں نے ان کا جینا دو بھر کردیا ہے محلہ کے گھروں میں پانی پینے کے بہانے داخل ہوتے ہیں، الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں، راز معلوم کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہر عورت اور مرد بم سازی کرنے والوں کو ٹھیک سے جانتا بھی نہیں تھا اور نہ پہچانتا تھا ، یہ لوگ غیر مقامی تھے اور کرائے کے مکان میں یہاں رہتے تھے ، سب لوگ انہیں کاروباری سمجھتے تھے۔ بم پھٹنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ فسادی اور فتنہ گر تھے۔ ان کے جرم کی سزا محلے والوں کو یہ میڈیا اور بی جے پی کے کرتا دھرتا دینا چاہتے ہیں جو ناقابل برداشت ہے ۔ وفد نے بردوان ضلع کے ایس پی مسٹر مرزا سے ملاقات کی اور ان سے تقریباً تیس منٹ تک حالات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ۔
بردوان سے تقریباً تیس چالیس کلو میٹر دور سمولیہ گاؤں میں وفد کے ارکان پہنچے جہاں ایک مدرسہ دینیہ و مدینہ ہے جو اس وقت پولیس کے نشانے پر ہے اور زیر عتاب ہے ۔ گھاس پھوس کا بنا ہوا یہ مدرسہ اپنی بد حالی کی داستان بیان کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔ گاؤں کے لوگوں سے وفد کے ارکان نے ملاقات کی ۔ گاؤں کے بیشتر افراد نے اپنی پریشانی اور حیرانی کا ذکر کیا کہ مدرسہ میں کم سن لڑکیاں پڑھتی تھیں جن کی عمر آٹھ سال سے زیادہ کی نہیں تھی ۔ گاؤں کے باہر کی بچیاں تھیں ۔ گاؤں کی بچیاں دو مساجد میں پڑھا کرتی ہیں۔ کبھی کوئی ناجائز حرکت مدرسہ میں دیکھنے کو نہیں ملی ۔ ابتدائی تعلیم کا مدرسہ تھا ، بلکہ مدرسہ کہنا غلط ہوگا مکتب تھا ۔ ابتدائی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ لوگوں نے دو تالاب کو دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس میں سے جب پولیس نے سارا پانی نکال دیا تو ایک چھاتے کا ہینڈل ملا ، اسے پولیس والوں نے کہا کہ ایک بندوق کا بٹ ہے۔ پولیس والوں کی چھان بین سے اب تک مدرسہ میں ایک دو ایئر گن (Airgun) ملے جو بازار میں دستیاب ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی چیز بھی انہیں ایسی نہیں ملی جو قابل اعتراض ہو ۔ اس کے باوجود مکتب پولیس کی چھاؤنی بنا ہوا ہے ۔ گاؤں کے تین نوجوان جو کیرالہ میں ورکرس ہیں انہیں بھی ریلوے کاؤنٹر پر ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ یہ نوجوان سمولیہ گاؤں سے رکھتے ہیں ۔ یہ نوجوان اپنے ماں باپ کے پاس عید منانے کے لئے آئے تھے ۔ گاؤں کے سارے افراد نشانے پر ہیں ، انہیں روزگار ملنے میں بھی دشواری ہورہی ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے رشتہ بھی دوسرے گاؤں والے کرنے میں پس و پیش کررہے ہیں ۔ گاؤں کے لوگ خوف و ہراس میں ڈوبے ہوئے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے ۔ وفد کے ارکان سے ان لوگوں نے مشورہ طلب کیا ۔
وفد کے ارکان نے سارے حالات کا جائزہ لیا اور باہمی تبادلہ خیالات سے درج ذیل نتیجہ پر پہنچے ۔
(1) کھاگڑا گڑھ کی عمارت میں بم سازی کا کام کئی مہینے سے جاری تھا مگر پولیس اور پولیٹیشین(Police & Politician) کی نظروں سے اوجھل نہیں تھا کیونکہ لوک سبھا الیکشن کے دوران اسی عمارت میں ایک سیاسی پارٹی کا عارضی دفتر بھی قائم تھا ۔ عمارت میں سیاسی کارکنوں اور پولیس محکمہ کے لوگوں کا آنا جانا تھا ۔
(2)بم بنانے والے حقیقت میں بم بنانے کی ایک یونٹ کھولے ہوئے تھے جو کئی اضلاع کے سیاسی افراد اور جبراً وصولی کرنے والوں کو بم فروخت کرتے تھے ۔ بم سازوں کو مجرموں اور سیاستدانوں کی سرپرستی حاسل تھی۔ ان کے سر پر کسی ایسی طاقت کا ہاتھ جو اثر و رسوخ ہر شعبہ میں رکھتاتھا ۔
(3)میڈیا کا ایک حصہ تعصب اور فرقہ پرستانہ ذہن کی وجہ سے مسلمانوں کو پست کرنے اور نیچا دکھانے کی کوشش کررہا ہے ۔
(4)ہندوستان کی فرقہ پرست پارٹی بی جے پی کا بھی بم بنانے والوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہونے کا شبہ اس لئے ہوتا ہے کہ بی جے پی بھی بیر بھوم ، بردوان ، ندیا جیسے پڑوسی اضلاع کواپنے کنٹرول میں لینے کے لئے کوشاں ہے ۔ ترنمول کے بعد قبضہ کی سیاست میں پس وپیش ہے۔ لوک سبھا کے الیکشن اور ضمنی چناؤ کے بعد بی جے پی کا حوصلہ بلند ہے ۔ کہا یہ جارہا ہے کہ 2016ء کا اسمبلی الیکشن بی جے پی کے پیش نظر ہے اور2016ء تک اس طرح کی چیزیں دہرائی جاسکتی ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات بھی ریاست کے کئی حصوں میں ہوسکتے ہیں ۔
(5) ساردھا گھوٹالے کی وجہ سے ریاست کی موجودہ حکومت کمزور نامقبول ہوگئی ہے ۔ لوگوں کے ذہن کو بدلنے ، علاقوں کو دخل کرنے یا قبضہ والے علاقہ کو برقرار رکھنے کے لئے بھی اس طرح کی گندی اور نازیبا حرکتیں کی جاسکتی ہیں۔
(6)این آئی اے کی ٹیم نے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور مدرسوں میں خوف وہراس پھیلانے کے لئے نصف درجن سے زیادہ مدرسوں میں چھاپے مارے مگر کسی مدرسے میں بھیRDXنام کی کوئی چیز نہیں ملی ۔

Burdwan blast- campaign against Muslims

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں