جنس کا جغرافیہ - قسط:20 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-21

جنس کا جغرافیہ - قسط:20


husband-wife-first-night
(گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔)
شادی کا آغاز جماع بالجبر سے نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اکثر زبردستی قربت سے نہ صرف ذہن پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ جسمانی تکلیف بھی ہوتی ہے۔ ان دشواریوں کا نہ ہی کسی ادیب نے اپنی کہانی یا ناول میں ذکر کیا ہے اور نہ کسی شاعر نے پہلی رات کے گن گاتے ہوئے ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پہلی رات جب دشواریاں حائل ہو جاتی ہیں تو بیوی گھبرا جاتی ہے۔ شوہر الگ گھبراتا ہے۔ وہ اسے اپنی کمزوری سمجھتا ہے۔ اسلیے وہ بھی اپنی بیوی کو تسلی نہیں دے سکتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شادی کے ابتدائی دنوں کی ساری شعریت ختم ہو جاتی ہے اور دونوں جو خواب دیکھتے ہیں ان کا خون ہو جاتا ہے۔

اس سلسلے میں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ بعض قوموں میں شادی کی پہلی رات جنسی قربت ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ کچھ وحشی قوموں میں اس قربت کو اس وقت تک ملتوی رکھا جاتا ہے جب تک کہ بیوی شوہر سے بےتکلف نہ ہو جائے۔ آج بھی امریکہ کے ریڈ انڈینز میں ابتدائی تین راتوں تک جنسی قربت کی ممانعت ہے۔ اس اصول کو قائم رکھنے کے لیے نئی دلہن کے پاس کوئی بچہ سلا دیا جاتا ہے۔ سماترا کے ایک قبیلے میں شادی کے بعد شوہر کو ایک کشتی بنانی پڑتی ہے۔ ایک باغ لگانا پڑتا ہے۔ اس طرح تقریباً تین ہفتوں تک وہ اپنی بیوی سے جنسی قربت حاصل نہیں کر سکتا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر عورتیں اپنی پہلی مباشرت میں زیادہ آسودگی محسوس نہیں کر سکتیں۔ کبھی کبھی تو ان کی تسکین کئی ہفتوں بلکہ مہینوں کے تجربوں کے بعد ہوتی ہے۔ اب یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ ابتدائی زمانہ بہت پرلطف ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کے لئے یہ زمانہ تجربات کے لئے ہوتا ہے ۔ وہ اس میں غلطیاں بھی کرتے ہیں، سیکھتے بھی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں بعض وجہ سے جنسی تجربے ممکن ہی نہ ہوں ۔ عورتیں اس ابتدائی زمانے میں اپنے شعوری یا لاشعوری خوف کی وجہ سے اور بھی مشکل میں پڑ جاتی ہیں ۔ یہ خوف صرف ابتدائی تربیت کی وجہ ہی سے نہیں بلکہ فطری بھی ہوتا ہے ۔ اس خوف کی وجہ سے جنسی اعضاء خشک ہو جاتے ہیں، جنسی قربت میں تکلیف ہوتی ہے ۔

یہ تو ہم نے پہلی رات، عورت کو در پیش ذہنی اور جسمانی رکاوٹوں کے بارے میں کچھ تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی۔ نہ صرف عورت کے لئے بلکہ مرد کے لئے بھی پہلی رات کو ایک مرحلہ کھڑا ہو سکتا ہے ۔ اکثر وبیشتر نوجوان جنہیں پہلی بار عورت کا صحیح قرب میسر ہوتا ہے وہ گھبراہٹ یا لا علمی کی وجہ سے منزّل ہو جاتے ہیں یا پھر انہیں تحریک ہی نہیں ہوتی ۔ نادان نوجوان ایسے وقت جنسی فعل میں ناکام ہوجانے پر خود کو نامرد سمجھ لیتے ہیں حالانکہ دراصل یہ ایک وقتی بات ہے ۔ ایسی گھبراہٹ اور ناکامی سے بچنے کے لئے ہی ماہرین جنسیات نے شادی کے چند روز بعد مباشرت کرنے کی سفارش کی ہے ۔

یہاں یہ بتادینا لازمی امر ہے کہ عورت مرد کے اجسام کی طرح ، ان کے جنسی جذبات میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ مرد کے جسم میں جنسی تحریک جلد بیدار ہوتی ہے ، اور وہ بیقرار ہونے لگتا ہے ۔ اس کے بر خلاف عورت کی جسمانی ساخت اور فطری شرم و حیا کی زیادتی کے باعث جنسی جذبات دیر میں جاگتے ہیں اور اسی تناسب سے وہ تسکین بھی دیر میں حاصل کرتی ہے۔ جب کہ مرد اکثر و بیشتر جلد ہی اختتام کو پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی اپنا مطلب حاصل کر کے الگ ہوجاتے ہیں اور جب بیوی کے شہوانی جذبات بھڑکنے لگتے ہیں تو مرد فی الحال ان کی پذیرائی کی صلاحیت کھو چکا ہوتا ہے ۔ جس کا نتیجہ خراب ہوتا ہے ۔ عورت کے جذبات کی آگ بڑھتی جاتی ہے اور پھر اس کا رد عمل تشنگی کا احساس اور نفرت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اسی لئے پہلی رات کی ایک ناکام مباشرت سے چند روز بعد کی ایک کامیاب مباشرت بہرحال بہتر ہے ۔

ان ساری باتوں سے قطع نظر بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شادی کی پہلی رات "خالی" نہ جانی پائے ورنہ اس بات کا خدشہ ہوگا کہ کہیں دلہن کے رشتہ دار اور احباب دولہا کو نامرد نہ خیال کرنے لگیں ۔ لیکن اگر ہم بنظر غائر دیکھیں تو مردمی کا یہ اظہار بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی نے کھانا سامنے آتے ہی اس پر ہاتھ دے مارا اور نتیجہ میں منہ جلا بیٹھا۔ حالانکہ تھوڑے سے توقف کے بعد اطمینان سے بھی کھایا جا سکتا ہے ۔

بات"پہلی رات" کی چل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
روئے زمین پر پہلی رات کی مباشرت کے سلسلہ میں دو مکتب خیال ہیں۔۔۔۔۔ ایک گروہ "گربہ کشتن روز اول" پر کاربند رہنا چاہتا ہے اور دوسرا گروہ "دیر آید درست آید" کا قائل ہے!
سہاگ رات میں اگر دولہا دلہن ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہیں تو اکثر تجربہ کاروں کا مشورہ ہے کہ اس رات مجامعت نہ کی جائے بلکہ ہفتہ عشرہ کے لئے ملتوی کی جائے ۔ ہاں اگر دولہا دلہن میں پہلے کی "جنسی شناسائی" ہے تو سمجھئے یہ "لائیسنس یافتہ" ہیں، ان پر کوئی روک نہیں ۔ یہ بلا خطر مصروف کار ہو سکتے ہیں ۔ اب رہ جاتا ہے معاملہ ایسے دولہا دلہن کا جن کی شادی سے پہلے کی شناسائی ہے لیکن جنسی قربت نصیب نہیں ہوئی اور اگر ان کا تعلق پہلے گروہ سے یعنی"گربہ کشتن روز اول" سے ہے تو پھر ان کو چاہئے کہ کسی صورت پہلی رات کو ایک "یادگار رات" بنائیں، کیونکہ یہ کئی راتوں کے بعد آئی ہے ۔ اور بہر قیمت وہ اس رات شرابِ مواصلت سے ضرور لطف اندوز ہوں لیکن اس ضمن میں اس بات کا خیال رکھنا لازم ہے کہ جنسی ملاپ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک جسمانی تجربہ بھی ہوتا ہے اور ایک جذباتی تجربہ بھی اور اس میں شہوانیت ، جذباتیت دونوں کے عناصر شامل ہوتے ہیں۔

جنسی ملاپ کے لئے جسمانی طور پر تیار ہونے سے پہلے عام طور پر ایک عورت کو دل لگی ، مذاق، خوشامد ، چوماچاٹی ، نازبرداری ، جسمانی رگڑ ، جسمانی دراز دستی اور مساس کے ایک دور کی ضرورت ہوتی ہے ۔ در حقیقت اس ابتدائی چھیڑ چھاڑ اور دل لگی کا ایک حیاتیاتی سبب بھی نظر آتا ہے ۔ کیونکہ یہ حیوانی زندگی میں جنسی ملاپ سے پہلے خاص حد تک مشاہدہ میں آتی ہے کہ حیوانات میں مباشرت کا اس وقت تک امکان نہیں ہوتا جب تک کہ ایک مادہ اپنے نر کو از خود بہ رضا قبول نہیں کر لیتی اور اس کے قبول کرنے سے پہلے ایک نر کے لئے ایک مادہ کا پیچھا کرنا اور اس کو راضی کرنا لازم ہوتا ہے اور یہ صرف لبونات اولی یعنی گوریلوں اور انسانوں ہی کی بات ہے کہ ان میں ایک مادہ سے اس کی خواہش نہ ہونے کے باوجود بھی مباشرت ممکن ہوتی ہے۔
چونکہ پہلی مباشرت عورت کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ ہوتی ہے اسی لئے خاص اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی اولیں تجربہ کی بنا پر اس کی ازدواجی زندگی کی داغ بیل پڑتی ہے ۔ اگر یہ تجربہ اس کے لئے کامیاب رہا اور موجب مسرت ہوا تو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے اثرات آئندہ زندگی پر بہت اچھے پڑیں گے اور اگر تجربہ ناکام رہا اور عورت کے ذہن اور نفس پر اس کا اچھا اثر مرتب نہیں ہوا تو ایک عرصے تک زندگی میں اس کے خراب ثرات باقی رہیں گے ۔

اگر پہلی رات گھر میں مہمانوں کا ہجوم ہو ، شادی کے ہنگاکے ہوں، شور و غل ہو یا دولہا دلہن میں کوئی ایک تھکا ہوا اور مضمحل ہو تو شب عروسی کی خلوت کو اس وقت تک ملتوی کر دینا ہی بہتر ہوگا ، جب تک کہ دونوں تازہ دم نہ ہوجائیں اور گھر میں امن و سکون کی فضا بحال نہ ہو جائے ۔ کسی قسم کی تانک جھانک کا اندیشہ نہ رہے اور دولہا دلہن پورے اطمینان سے ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اندوز ہو سکیں ۔ اگر دولہا دلہن خوش قسمت ہیں اور پہلی رات ہی انہیں خلوت میسر آجائے تو وقت گنوائے بغیر دونوں "امتحان" کی تیاری شروع کر دیں!

اگر پہلی رات کو واقعی "یادگار رات" بنانا ہو تو حجلہ عروسی کو نہایت سلیقے سے آراستہ کیاجائے دروازوں اور کھڑکیوں پر جاذب نظر پردے لٹک رہے ہوں، پلنگ "آرام دہ" ہو۔ اس پر موسم کے مطابق اچھے قسم کا بستر بچھایا گیا ہو ، دو چار گل دانوں میں تازہ پھولوں کے گلدستے رکھے ہوں ، حجلہ عروسی کی فضاء بے حد رومانی اور جذبات میں مستی پیدا کرنے والی ہو ۔ اگر بتی، صندل یا لوبان کی خوشبو مہک رہی ہو گویا یہ"عبادت کا کمرہ" ہے۔
رات کا کھانا دولہا دلہن مل کر کھائیں ۔ وہاں تیسرا شخص موجود نہ ہو، کھانا زود ہضم ، لذیذ اور پرتکلف ہو ۔ دولہا میاں بڑے پیارو محبت سے پیش آئیں اور دلچسپ باتوں سے دلہن کو بے تکلف کرنے کی کوشش کریں ۔ عجلت سے کام نہ لیں ، تمام رات دونوں کے لئے ہے ۔ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور دلہن کو کھانے کے فوراً بعد بستر پر چلنے کی دعوت نہ دیں بلکہ اس کی طبیعت اور پسند کے مطابق دلچسپ شغل میں کچھ وقت گزارنے کی کوشش کریں ۔
اگر دلہن موسیقی کی شوقین ہے تو دل موہ لینے والے گانوں کے ٹیپ یا ریکارڈ سے اس کا دل بہلائیں ۔ اس سے سہاگ رات کی دلکشی میں خوشگوار اضافہ ہوگا۔ جب رات کافی بھیگ چلے اور ملاپ کا حقیقی وقت آجائے تو موسم کے لحاظ سے گرم، نیم گرم یا ٹھنڈا غسل کرلیں تاکہ دن بھر کی تھکن دور ہو جائے ۔ اور جسم کی صفائی بھی ہوجائے ۔ اس سے دلہن کی زندگی میں پہلی بار مرد کے جسمانی ملاپ سے تکدر محسوس نہ ہوگا ۔ اس کے علاوہ دلہن کو لباس تبدیل کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ ورنہ وہ دلہا کی موجودگی میں شائد اس پر آمادہ نہ ہو کیونکہ عام طور پر کنواری لڑکیاں دوسروں کے سامنے لباس اتارتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔
اگر دولہا میاں عقلمند ہیں تو "دلہن کے لئے" پہلے سے کوئی خوبصورت اور دلچسپ تحفہ تیار رکھیں کیونکہ یہ عورت کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ تحائف پا کر بے حد مسرت محسوس کرتی ہے۔ اور خاص طور پر جب اسے اس کے محبوب مرد کی طرف سے پیش کیا جائے ۔ یہ ضروری نہیں کہ تحفہ بہت زیادہ قیمتی ہو ۔ حسب استطاعت لیکن دیدہ زیب ہونا چاہئے (تحفہ خلوص کا اظہار ہوتا ہے) اور بستر پر جانے سے پیش تر، غیر متوقع طور پر اچانک پیش کیا جائے ۔ اس سے دلہن کے دل میں انتہائی خوشگوار تاثر پیدا ہوگا ۔ اور ہوسکتا ہے کہ شدت جذبات سے مغلوب ہوکر اظہار تشکر کے طور پر دلہا سے لپٹ جائے اور دولہا کو بوس و کنار کا موقع مل جائے !
ہو سکتا ہے کہ بوس وکنار کا یہ سلسلہ ، مکمل مباشرت پر اختتام پذیر ہو !!
پہلے دلہن کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگائیں کہ کیا وہ مباشرت کے لئے آسانی سے آمادہ ہو جائے گی ؟ اگر ہو سکے تو بہتر ہے لیکن اگر معاملہ برعکس ہو تو جلدی نہ کریں ۔ اگر وہ جسمانی طور پر بیدار نہ ہو تو اس کی مرضی کے بغیر کوئی اقدام کرنا مضر ثابت ہوگا ۔ اچھا تاثر نہیں چھوڑے گا اور اس کے نتیجے میں شب عروسی کی ساری دلکشی ضائع ہوجائے گی ۔ بے صبری کا اظہار بعض اوقات دلہن کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے ۔ اس لئے بڑے صبر و تحمل اور حوصلے سے فضول شرم کو دور کر کے دلہن کی اندرونی خواہش جنسی کو بیدار کرنے کی کوشش کریں ۔ اس کا یہ خوشگوار نتیجہ نکلے گا کہ دلہن جلد جوابی محبت کا اظہار شروع کردے گی ۔ مباشرت سے قبل طویل بوس و کنار اکثر مفید ثابت ہوگا اور سر گوشیوں کے انداز میں میٹھی میٹھی رازدارانہ باتیں دلہن کی ہچکچاہٹ کو دور کریں گی ۔ خواہشات کو بیدار کریں گی اور محبت کی آگ کو بھڑکا کر مباشرت پر آمادہ کریں گی ۔
یاد رکھئے ۔ اگر ہمیشہ یہی طریقہ اختیار کیاجاتا رہے تو مدت تک ہر شب سہاگ رات کا لطف دے گی۔

پہلی رات کو جنسی ملاپ کا طریقہ اہم نہیں۔ مگر یہ اہم ہے کہ دولہا کس طرح اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتا ہے ۔ دلہن ان ہی ابتدائی اقدامات سے اپنی امیدوں کے کنول کھلاتی ہے ۔ اس لئے پہلی رات جنسی ملاپ سے زیادہ خلوص و محبت کے اظہار اور بوس و کنار کو اہمیت دینا چاہئے اور دلہن کے جسم کے ان حصوں کو معلوم کرنا چاہئے ، جو جنسی اعتبار سے بہت حساس ہیں۔ ان حصوں میں عورت ، عورت میں فرق ہوتا ہے ۔ اس لئے ہر دولہا کو اپنی دلہن کے جسم کے مخصوص حساس حصے معلوم کرنا ہوگا ۔
ہمارے یہاں کے ماحول میں پلی ہوئی لڑکیاں اپنے جسم کو عریاں کرنے میں شرماتی ہیں ۔ اس شرم کو پہلی رات ہی ختم کردینا چاہئے لیکن اس انداز میں نہیں کہ شوہر اپنا "حق" جتا رہا ہے۔

دلہن کے جنسی ملاپ کی تیاری کے لئے جسمانی چھیڑ چھاڑ میں بھی پیار کا اور اس مسرت کا اظہار ہونا لازمی ہے جو محبوب کی قربت اور اتصال سے ہوتی ہے ۔ بوس و کنار کے ساتھ ساتھ دلہن دولہا کے لئے لازم ہے کہ وہ دلہن سے پیار بھری باتیں کرے۔ اپنی بے پایاں محبت کا یقین دلائے ۔ بوس و کنار اور ہم آغوشی سے محبت کا عملی ثبوت دے ۔ ہونٹوں اور رخساروں کے بوسے، چھاتیوں ، رانوں اور دیگر اعضاء کا لمس عورت کے جذبات کو بر انگیختگی کی طرف جلد مائل کرتا ہے ۔ پہلی بار مباشرت میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے ۔ بوس و کنار کے ساتھ ساتھ دلہن کے سینے کو بہت نرمی اور آہستگی سے سہلانا اور دبانا چاہئے ۔ اگر دلہن جسمانی اشاروں سے یا الفاظ سے مزید اقدامات کی خواہش ظاہر کرے تو دخول کرنا چاہئے ورنہ نہیں۔ اور ہر صورت میں دولہا کو چاہئے کہ وہ خلوص اور محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کردے کہ محض دلہن کی تکلیف کے خیال سے وہ جنسی ملاپ کو ملتوی کر رہا ہے ۔ اگر دخول کیا جائے تو صرف عضو کے سرے تک ، پورا دخول دوسری، تیسری رات کے لئے ملتوی رکھنا چاہئے ۔ ہو سکتا ہے کہ دولہا کو اس التواء کے لئے اپنے جذبات پر حد سے زیادہ قابو رکھنا پڑے مگر یہ التواء اس کی آئندہ زندگی میں بہار لائے گا۔
کیونکہ دلہن ان ابتدائی بنیادوں پر ہی آئندہ زندگی کے محل کھڑا کرے گی۔

Jins Geography -episode:20

1 تبصرہ: