مدرسہ عالیہ کی دارالعلوم دیوبند کو سپردگی - دہلی کے باشندگان میں برہمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-20

مدرسہ عالیہ کی دارالعلوم دیوبند کو سپردگی - دہلی کے باشندگان میں برہمی

نئی دہلی
سلیم صدیقی؍ ایس این بی
شاہی مسجد فتح پوری میں واقع تاریخی مدرسہ عالیہ کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے نام پر اسے دارالعلوم دیوبند کی شوری کے سپر دکئے جانے کی دہلی وقف بورڈ کی تجویز پر اب تنازع پیدا ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ دہلی کی متعدد اہم شخصیات اس تاریخی مدرسہ کو کسی دوسری ریاست کے مدرسہ کے ماتحت بنانے کے حق میں نہیں ہیں ۔ اس صورتحال کے بعد اب دہلی وقف بورڈ کے موقف میں بھی تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں ۔
واضح ہو کہ دہلی وقف بورڈ کی گزشتہ دنوں میٹنگ میں یہ تجویز منظور کی گئی تھی کہ مدرسہ عالیہ کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے اس کو دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کے سپرد کردیاجائے ۔ وقف بورڈ کے اس فیصلہ سے دہلی کے متعدد لوگوں کو اختلاف ہے اور انکا کہنا ہے کہ وقف بورڈ کو اتنے اہم اور تاریخی مدرسہ کو اس طرح سے کسی کے حوالے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر وہ مدرسہ کا نظام چلانے کا اہل نہیں ہے تو اسے دہلی کے لوگوں سے رابطہ کرنا چاہئے اور کوئی کمیٹی تشکیل دے کر مدرسہ کا نظام اس کے سپرد کردینا چاہئے ۔
سابق میونسپل کونسلر محمود ضیاء نے مدرسہ عالیہ کودارالعلوم دیوبند کے سپرد کرنے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دہلی کا ایک تاریخی مدرسہ ہے ۔ محمود ضیاء نے کہا کہ دہلی نہ تو علماء سے خالی ہوگئی ہے اور نہ ہی یہاں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی کوئی کمی ہے ۔ اس لئے وقف بورڈ اپنی تجویز واپس لے اور مدرسہ عالیہ کے لئے دہلی کی سرکردہ اور اہل شخصیات کی ایک کمیٹی تشکیل دے جو اس مدرسہ کا نظم بہتر ڈھنگ سے سنبھال سکے ۔
آر ڈربلیو اے پہاڑی املی کے صدر اور دہلی یوتھ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سکریٹری محمد عرفان کا اس تعلق سے کہنا ہے کہ دہلی والے کیا اپنا مدرسہ چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ 300سال پرانے اس تاریخی مدرسہ کو اگر وقف بورڈ نہیں چلا سکتا تو ہمارے حوالے کردے یا پھر دہلی کی کسی بھی ذمہ دار مسلم تنظیم یا ادارے کو سونپ دے لیکن دوسری ریاست کے ادارے کو مدرسہ ہرگز نہیں سوپنے دیں گے ۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا نے اس سلسلے میں مدرسہ عالیہ کے سینئر استاذ مولانا مسلم سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اگر مدرسہ عالیہ کو دارالعلوم دیوبند کی سرپرستی میں دے دیاجاتا ہے تو اس سے بلا شلبہ تعلیمی معیار بہتر ہوگا اور دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے لیکن صرف یہ کہہ کر مدرسہ کا تعلیمی معیار گرگیا ہے ایسا اس لئے کیاجارہا ہے ، مدرسہ عالیہ کو دارالعلوم دیوبند کے سپر دکرنا درست نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مدرسہ عالیہ کا تعلیمی معیار آج بھی بہت بہتر ہے اور بلند ہے ۔ لیکن اصل مسئلے کچھ اور ہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے طلباء کو کھانا مہیا کرانے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ مدرسے میں کھانے کا نظم نہ ہونے سے بچوں کو کھانا کھانے کے لئے دونوں وقت باہر جانا پڑتا ہے ۔ اب اگر وہ مغرب سے عشاء تک کھانا کھائیں گے تو پڑھیں گے کس وقت۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی ہوٹل میں ایک وقت کا کھانا40روپے سے کم نہیں ہے اور اس طرح دو وقت کھانا کھانے اور20روپے کا ناشتہ کرنے میں ہی ایک طالب علم کے 100روپے یومیہ یعنی تین ہزار روپے ماہانہ خرچ ہورہے ہیں ، جب کہ وقف بورڈ انہیں صرف500روپے ماہانہ وظیفہ دے رہا ہے۔ اس طرح مدرسہ کے اساتذہ کی تنخواہوں کا مسئلہ ہے ۔ آخر اساتذہ کا کوئی گریڈ تو طے ہونا چاہئے ۔ بورڈ اپنے دفتر کے کلرک کو کتنی تنخواہ دیتا ہے اور مدرسے کے استاذ کو کیا دیتا ہے ؟ اب اگر اس مدرسہ کو دارالعلوم دیوبند کے سپرد کردیاجاتا ہے تو کم سے کم مدرسے کے مسائل تو حل ہوجائیں گے اور طلبہ کو کچھ سہولت ہی ملے گی۔
فتح پوری مسجد کے امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد کا کہنا ہے کہ یہ دہلی کا تاریخی مدرسہ ہے اور ہ خود اس کے طالب علم رہ چکے ہیں ۔ اس مدرسہ کے اگر کچھ مسائل ہیں تو انہیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دوسری ریات کے کسی ادارہ کو آپ اپنا تاریخی مدرسہ سونپ دیں گے ۔ جب کہ دہلی میں ایک سے بڑھ کر ایک اہل خیر حضرات موجود ہیں ، جن کے دم پر ملک میں کتنے ہی مدرسے چل رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ کی اس تجویز کے خلاف انہوں نے بورڈ چیئرمین چودھری متین کے علاوہ لیفٹنینٹ گورنر نجیب جنگ اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو بھی مکتوب بھیجا ہے ۔ ابھی مدرسہ اور مسجد کا انتظام وقف بورڈ کے ہی پاس ہے اور یہی نٖظام برقرار رہنا چاہئے ۔
دہلی وقف بورڈ کی مذہبی کمیٹی کے سربراہی مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے روزنامہ راشٹریہ سہارا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ معاملہ ابتدائی مراحل میں ہے۔ کوئی بھی فیصلہ سب کی رائے اور مشورہ سے لیاجائے گا۔اگر دہلی والے نہیں چاہتے تو مدرسہ کسی کو نہیں دیا جائے گا۔ وقف بورڈ کے چیئرمین چودھری متین سے جب بورڈ کی تجویز پر پیدا ہوئے تنازعہ کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ بورڈ نے ابھی تجویز ہی منظور کی ہے کوئی آخری فیصلہ نہیں لیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مفتی مکرم احمد سمیت دیگر اہم شخصیات سے بھی بات چیت کی جائے گی ، صلاح و مشورہ ہوگا اور پورے غوروفکر کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیاجائے گا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں