خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-19

خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں

love-of-money-will-make-you-forget-God
دورجدید میں دنیائے انسانیت کوبے شمار مسائل کاسامنا ہے، جن میں بعض وہ مسائل ہیں ،جوگزشتہ ادوار میں بھی بنی نوع انساں کے ساتھ رہے اور بعض ایسے بھی ہیں ،جنہیں نئے زمانہ کی دین کہا جاسکتا ہے۔جن مسائل کاوجود گزشتہ صدیوں میں بھی پایا جاتا تھا، وہ امتدادِ زمانہ کے باعث مزید سنگین اور پیچیدہ ہوتے گئے۔ اس کے علاوہ جو مسائل نئے زمانہ کی پیداوار ہیں ،ان کی پیچیدگی وسنگینی سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتا ۔دورِحاضر میں چونکہ تیزی کے ساتھ مادی ترقی اور انسان کی سوچ میں برق رفتاری کے ساتھ تبدیلی رونما ہورہی ،اس لیے اسی تیزی کے ساتھ مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور ان کا حل تلاش کرنا بھی مشکل ترین ہوتا جارہاہے۔مثال کے طور پر چندصدی پہلے لوگ اپنی معاشی جدوجہد کوصرف بنیادی وسائلِ زندگی کی فراہمی تک محدودرکھتے تھے ، دووقت کا سادہ کھانا ، رہنے کے لیے ایک چھوٹی سی کچی جھونپڑی اورپہننے کے لیے ایک دوجوڑے سادہ سے کپڑوں کی انہیں ضرورت ہوتی تھی، جسے قدرے محنت کر کے حاصل کرلیا جاتا تھا،لیکن آج کے انسان کی معاشی جدوجہد نہ صرف روٹی ،کپڑا اور مکان تک محدود ہے، بلکہ انواع و اقسام کے کھانوں، رہنے کے لیے عالیشان مکانوں اوردرجنوں قیمتی و پرتکلف کپڑوں کے علاوہ اپنے خوابوں اور خواہشوں کی تکمیل کے لیے ڈھیر ساری دولت کی حصولیابی تک بھی وسیع ہوچکی ہے،رہائش کے لیے اسے کروڑو ں کے بنگلے کی ضرورت ہے ، چلنے کے لیے لاکھوں کی گاڑی چاہیے اور شاپنگ کرنے کے لیے اس کے پاس اچھا خاصا بینک بیلنس ہونا چاہیے؛ تاکہ وہ خوب عیش ،موج اور مستی کرسکے اور جدید آلات و مصنوعات سے بھرپورانداز میں لطف اندوز ہوسکے۔
معاشی زندگی کے اس قدر وسیع ہونے کا سب سے بڑا نقصان تو یہ سامنے آیا کہ انسان ،جسے خلافتِ ارضی کے اہم منصب پرفائزکرکے بھیجاگیا تھا ، اس کی زندگی صرف معاش کے دائرے میں محصور ومحدودہوکر رہ گئی،زندگی کے دوسرے شعبوں، جیسے: اخلاق ، معاشرت، تہذیب ، تعلیم ، دین ومذہب، اقدارِ حیات سے اس کا رشتہ پورے طور سے منقطع ہوکر رہ گیا تھا۔بشر ہونے کا تقاضہ تو یہ تھاکہ وہ اپنے منصب کا لحاظ کرتے ہوئے زندگی گزارتا اوراپنی ان صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لاتا، جو پروردگار نے اس کے اندر رکھی تھیں۔ایک طرف وہ مخلوق ہونے کے سبب اپنے خالق کی عبادت کرتا ، تو دوسری طرف وہ انسان ہونے کی حیثیت سے اپنی زندگی کو انسانی اقدارسے مزین کرتا، تیسری طرف اشرف المخلوقات کے مرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے اعلیٰ تہذیب وتمد ن کا حامل ہوتااور ساتھ ہی اپنے بہترین دماغ کا استعمال کرکے بہترین معاشرتی زندگی گزارتا اور جذبۂ انسانی سے سرشار ہوکر دوسرے تمام انسانوں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آتااور دوسروں کے لیے معاون ثابت ہوتا۔ لیکن جب اس کی زندگی کا جھکاؤ صرف مادیت کی طرف ہوگیااور اپنی حیثیت سے زیادہ دولت حاصل کرنا اس کا مطمحِ نظر بن گیا ،تو اس کی توجہ زندگی کے دیگر تقاضوں پر کیسے مرکوز ہوسکتی تھی؟
آج کے انسان کے صرف معاشیات تک اپنی زندگی کو محدود کرنے کاجہاں ایک نقصان دیگر شعبہ حیات کے متاثر ہونے کی شکل میں ظاہر ہوا ، وہیں دوسرا نقصان یہ سامنے آیا کہ انسان جرائم اور بدعنوانی کا محور ومرکزبن کررہ گیا ۔دولت کمانے کے لیے جائز وناجائز طریقوں کے درمیان اس نے کوئی فرق ہی محسوس نہ کیا، نہ سودی لین دین کا خیال کیا ،نہ جھوٹ بولنے سے پرہیز کیا ،نہ عہدووعدہ کا پاس کیا، جیسے بھی ہوا پیسہ کمانا شروع کردیا۔اس بڑے پیمانہ پر مادہ پرستی کے جنون نے انسان کو انسانی تقاضوں کے احساس سے محروم کردیا۔یہاں تک کہ انسانی زندگی کے وہ شعبے جن کا تعلق خالص خدمتِ خلق سے تھاان کا رشتہ بھی دولت تک محدود ہوکر رہ گیا۔مثلاً:تعلیم، جو انسانی زندگی کے لیے ناگز یر ہے اور جس کے ذریعہ نہ صرف انسان کو زندگی گزارنے کاسلیقہ حاصل ہوتا ہے؛ بلکہ اس کے واسطے سے انسان کی خفیہ صلاحیتوں کو بھی جلا ملتی ہے،اُسے بھی ایک صنعت بنالیا گیا۔ چنانچہ آج تعلیم ایک پیشے کے طورپر ابھر چکی ہے اور اس کے ذریعے موٹی مو ٹی رقمیں کمائی جارہی ہیں۔جب کہ چند صدیوں قبل تعلیم برائے تجارت نہ تھی، بلکہ برائے خدمت تھی ۔ جو لوگ تعلیم حاصل کرتے وہ اپنے اوپرانسانی خدمت کو ضروری سمجھتے ،وہ علوم کے پہاڑ، جو بچوں کو تعلیم دیتے یہاں تک کہ انہیں مختلف علوم وفنون کا ماہر بنادیتے ، انہیں ریاضی میں کمال درجہ تک پہنچادیتے، انہیں ماہرِنفسیات بنادیتے ، انہیں وقت کا عظیم مفکر، مدبر اور مجتہد بنادیتے ،پھر بھی ان سے کسی دولت کا مطالبہ نہ کرتے تھے ،مزید یہ کہ بسا اوقات خود ہی ان کے قیام وطعام کا انتظام کرتے تھے۔اس طرح تعلیم دینے کا نتیجہ یہ سامنے آتا کہ فارغ التحصیل طلباجب مختلف موضوعات کے ماہربن کر میدانِ عمل میں جاتے، تو وہ بھی اسی خدمتِ خلق کے جذبہ سے کام کرتے اوراپنی پوری زندگی اسی کے لیے وقف کردیتے تھے، دولت کے حصول کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہ آتا تھا۔لیکن آج وہ طلبا ،جو موٹی رقمیں خرچ کرکے ریاضی ، سائنس ، ٹکنالوجی ، تاریخ ، نفسیات وغیرہ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں ، وہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد بڑے پیمانہ پر اپنی فنی،علمی فکری صلاحیتوں کے ذریعے دولت کمانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔یہی حال دورِجدید میں طب کا بھی ہوا ہے کہ طب کے پیشہ کو پورے طور پر معاش کمانے کا ذریعہ بنالیا گیا۔وہ طلبا جومعالجۂ امراض کی تربیت حاصل کرنے کے لیے کالج اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں ،ان کے اذہان میں پہلے سے ہی یہ بات ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر بننے کے بعد اپنا کلینک بنائیں گے ،جہاں خوب پیسہ کمائیں گے ، چونکہ ان کی یا ان کے والدین کی نگاہوں میں ڈاکٹری محض ایک معاشی پیشہ ہے؛ اس لیے وہ اس تعلیم پر موٹی رقمیں بھی خرچ کرتے ہیں۔ ایم بی بی ایس یا ایم ڈی وغیرہ میں داخلوں کے لیے طلبا بے چین و بے قرار نظر آتے ہیں اورایک اشارہ پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ معاش تک اس کو محدود کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ ڈاکٹروں میں مریضوں کے تئیں انسانی ہمدردی نظر نہیں آتی ، بس ان کی نظر تو مریض کی جیب پر رہتی ہے۔ چنانچہ پرائیویٹ اسپتالوں یا کلینکوں میں مریض کے پہنچتے ہی مختلف قسم کی فیسیں اور چارجز بتادیے جاتے ہیں ، اگر مریض اتنے روپے خرچ کرنے متحمل ہوتا ہے ،تو اس کا علاج کیا جاتا ہے ،ورنہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا جاتا،چاہے وہ موت و حیات کی کشمکش میں ہی کیوں نہ مبتلا ہو۔اس حد تک ڈاکٹروں کے دلوں کے سخت ہونے کی وجہ سے گردوں اور دیگر اعضائے انسانی کی چوری کی وارداتوں میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اگرچہ بعض اچھے اورمخلص ڈاکٹر وں کی موجودگی سے انکار نہیں کیاجاسکتا، تاہم ان کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے ۔اگر بات عہدِ قدیم کے ان اطبا کی کی جائے ،جو آج کے ڈاکٹروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ طبی علوم وتجربات کے حامل ہوتے تھے ، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مفت ہی مریضوں کا علاج کردیا کرتے تھے یا برائے نام دوائیوں کا خرچ لیا کرتے تھے،بڑی تعداد میں ہمیں ایسے بھی اطبا ماضی میں نظر آتے ہیں، جو اپنی گذر بسر کے لیے دوسرا کوئی پیشہ اختیار کرتے تھے اور طب کو صرف خدمتِ انسانی کے لیے وقف رکھتے تھے۔موجودہ دورمیں انسان کی تغیر پذیر سوچ نے یقیناًانسانی زندگی کو بے حد متاثر کیا ہے اوربہت سے نئے مسائل پیدا کردیے ہیں۔
ایسے حالات میں جب کہ دنیا راہِ راست سے بھٹک رہی ہے اور انسانی تقاضوں کو فراموش کرچکی ہے ، ملتِ اسلامیہ کو اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے تباہ ہوتی ہوئی انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہئے ۔ مسلمانوں کو نہ صرف زبانی یا تحریری طور پرنوعِ انساں کواس کی زندگی کے مقصد سے آگاہ کرنا چاہئے ،بلکہ خود عملی قدم اٹھاکر پوری انسانیت کے لیے نمونہ بھی بننا چاہئے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو صرف معاشیات تک محدود نہ رکھیں، بلکہ ان کی زندگی روحانیت اور زندگی کے دیگر شعبوں کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہو۔ معاش سے صرف ان کا تعلق ضروریات کی حد تک ہو، جب بھی وہ کسبِ معاش کے لیے نکلیں ،تو وہ حلال و حرام کے فرق کو ملحوظ رکھیں۔یہی ان کا دین سکھاتا ہے۔اپنی تجارت کے دوران سچ اور ایفائے عہدپر قائم رہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سچا امانت دار تاجر قیامت کے دن صدیقین اور شہدا کے ساتھ اٹھا یا جائے گا ‘‘ ( ترمذی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کرنے کے بعد مسلمانوں کا کاروبار بدعنوانی اور جرائم سے پاک ہوگا اور ان کی کمائی میں حرام کا شائبہ تک نہ ہوگا، جس کا پورا اجر انہیں قیامت کے دن تو ملے گا ہی، لیکن دنیا میں بھی انہیں اس کے بہترین نتائج نظر آئیں گے ۔ ان کا معاشرہ بہترین اوصاف کا حامل ہوگا اور ان کے ذریعہ انسانی تقاضوں کی تکمیل بھی ہوگی۔ معاشیات کو ایک حد تک محدود رکھنے کے بعد انہیں چاہئے کہ وہ اپنے معبودِ حقیقی کی عبادت اور اس کی حمد و تسبیح بیان کرنے میں لگ جائیں اور جس مقصد کے لیے انہیں دنیا میں بھیجاگیا ہے ،اس کی تکمیل پر اپنی خصوصی توجہ مبذول کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور آپؐ کی احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف تجارت تک محدود نہیں ہے ،بلکہ اللہ کی عبادت اور اس کی حمد وتسبیح بیان کرنا بھی انسانی زندگی کا بنیادی فریضہ ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’مجھے یہ وحی نہیں بھیجی گئی کہ مال جمع کر اور تاجروں میں سے ہوجا بلکہ میرے پاس وحی بھیجی گئی ہے کہ اللہ تعالی کی تسبیح کر اور سجدہ کرنے والوں میں بن ‘‘( احیاء علوم الدین ) خالق کی عبادت ، بہترین معاملات ،اعلی اخلاق ،انسانی تہذیب واقدار جیسے شعبوں کالحاظ کرکے اگر ملت اسلامیہ کے افراد پر اپنی زندگی گزاریں، تو ان کی زندگی نہ صرف ان کے لیے بہترین ہوگی ،بلکہ دیگر اقوام بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گی اور اپنے مسائل سے خلاصی پانے کے لیے انہیں بھی مسلمانوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس وہ دین ہے ،جو ہر موڑ پر ان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے ،اسلام کی روشنی سے دیگر اقوام ناآشنا ہیں ۔ ایسے میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دینِ اسلام کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارکر تمام انسانوں کے لیے نمونہ بن جائیں اور ان کومصائب ومسائل سے پاک زندگی گزارنے کا ایک عملی درس دیں۔

اسرار الحق قاسمی

the love of money will make you forget God. Column: Asrar-ul-Haq Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں