وہ کیسے لوگ تھے یارب ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-30

وہ کیسے لوگ تھے یارب ۔۔۔

The-fruits-of-labor
سینٹ اسٹیفن کالج دہلی کا ایک باوقار کالج ہے جہاں پر داخلہ لینا اور ملنا باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ اسٹیفن کالج کے اسٹوڈنٹس یونین کے 23 اگست کو انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں روہت کمار یادو نے پریسیڈنٹ کے عہدے پر کامیابی حاصل کی۔ یوں تو ملک بھر میں مختلف کالجس اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس الیکشن ہوتے رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی ان الیکشن میں کامیابی بھی حاصل کرتا رہتا ہے لیکن سینٹ اسٹیفن کالج دہلی کے اسٹوڈنٹس الیکشن کے ان امتحانات کے نتائج کا ملک بھر کے اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس نے زبردست کوریج کیا اور اس کی اہم وجہ تھی کہ ایک بالکل ہی معمولی گھرانہ سے تعلق رکھنے والا اور ہندی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان سینٹ اسٹیفین کالج کے اسٹوڈنٹ یونین کا صدر بن گیا۔
اخبار ہندو نے 25 اگست کو اس حوالے سے خبر دی اور خبرکی سرخی ہی میں لکھا تھا کہ
Gardener's Son elected st. Stephen's College Students' Union President
جی ہاں! جس نوجوان نے سینٹ اسٹیفین کالج کے اسٹوڈنٹ یونین کے الیکشن میں صدر کا عہدہ جیتا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی کالج میں بطور مالی کارگذار ہریش یادو کا لڑکا تھا۔ کالج میں داخلہ لینے کے بارے میں ہریش یادو نے بھی سوچا تھا لیکن اس کے کالج میں داخل ہونے کیلئے ایک ہی صورت تھی اور وہ مالی کے طور پر کالج میں ملازمت کرنے لگا اور پھر اپنے بچوں کو اس قابل بنایا کہ اس کا لڑکا کالج میں داخلہ کیلئے اہل بن گیا۔ پھر روہت کمار یادو نے اسٹوڈنٹس الیکشن جیت کر یہ ثابت بھی کردیا کہ بڑا بننے کا خواب دیکھنا کسی کی جاگیر نہیں۔ عزم جواں ہوں تو ہر طرح کی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔
ایسی ہی ایک حقیقی کہانی بھوکیا جگدیش سنگھ نائیک کی بھی ہے۔ کھمم جیسے ضلع کے ایک دورافتادہ گاؤں میں ایک لمباڑہ خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان ایسے ماحول میں اسکول کی تعلیم حاصل کرتا ہے جہاں پر اسے اسکول جانے کیلئے 40 سے 45 کیلو میٹر طویل راستہ طئے کرکے جانا پڑتا تھا اور اس راستے میں کم سے کم 3 کنال آتے تھے جن کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ صبح 7 بجے گھر سے نکل کر رات 10 بجے اس کی واپسی ہوتی تھی اور ایسا بھی نہیں تھا کہ گھر میں اسے بہت پرتعیش سہولیات میسر تھیں۔ کم عمری میں ہی نائیک کے والد ٹی بی کے سبب گذر گئے اور اس کی ماں کام کرکے روزی روٹی کا سامان مہیا کرتی تھی۔ انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے نائیک نے بتایا کہ "میں نے اپنی زندگی میں پڑھائی کے دوران خوشیوں کی قربانی دی اور صرف تعلیم پر توجہ مرکوز کی" اور اس بنجارہ نوجوان کی محنت نے رنگ دکھایا اور آج وہ ہندوستان کے مایہ ناز ادارے آئی آئی ٹی ممبئی میں کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہا ہے
(بحوالہ ٹائمز آف انڈیا 2 ستمبر 2013ء)

اسکول کی تعلیم کے لئے لمباڑا خاندان سے تعلق رکھنے والا نوجوان صبح 7 بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات 10 بجے اس کی گھر واپسی ہوتی تھی۔ ہمارے سماج میں ہماری گنہگار آنکھیں دیکھتی ہیں کہ ہمارے نوجوان رات 10 بجے سج دھج کر نکل رہے ہیں اور اپنے گھروں کو ان کی واپسی صبح صادق کو ہورہی ہے۔ اب یہ کونسے اسکول کو اور کونسے کالج کو جارہے ہیں وہ تو وہی جانیں لیکن اخبارات اور ٹیلیویژن میں شائع ہونے والی بہت سی خبریں ہمیں اس بات کی اطلاع دیتی ہیں کہ شہر کے مضافات میں چلنے والی ایک پارٹی کے دوران پولیس نے اتنے سارے نوجوانوں کو پکڑ لیا ہے اور اگلے دن ان کی عدالت میں پیشی ہوئی۔ اس طرح کی خبریں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ عدالتی کٹہرے میں وہ نوجوان نہیں بلکہ ہمارے سماج کا ہر وہ فرد کھڑا نظر آتا ہے جو اس طرح کے حالات کو یہ کہہ کر نظرانداز کردیتا ہے کہ یہ تو میرے گھر کا معاملہ نہیں پھر میں کیوں اس مسئلہ پر توجہ دوں؟
میری دانست میں یہ وہ آگ ہے جو اگر آج بجھائی نہیں گئی تو کل ہم میں سے ہر ایک کو جلا کر راکھ کرسکتی ہے۔ تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ہم اپنے بچوں کو اگر ڈاکٹر، انجینئر بنانا چاہتے ہیں تو کیا کوئی غلطی کررہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمیں تھوڑا سا ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
بچوں کو انجینئر بنانا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے۔ جی میں اپنی بات کو دہرانا چاہوں گا کہ اپنے بچوں کو انجینئر بنانا کوئی بڑی بات نہیں۔ وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے فیس ری ایمبرسمنٹ اسکیم روشناس کروائی کہ ایک ایسے موچی کے لئے جو سڑک کے کنارے بیٹھ کر لوگوں کے جوتے چپل سیتا ہے اپنے چار لڑکوں کو انجینئرنگ کی تعلیم دینا ممکن ہو گیا۔
21 اگست 2014ء کو گلوری جونیر کالج کے سید مظہر نے اپنے فیس بک کے صفحے پر دبیرپورہ برج کے نیچے جوتے چپل کی سلائی کرنے والے موچی بابو راؤ کی کہانی اور تصاویر اپ لوڈ کی ہیں۔ سید مظہر کے مطابق بابو راؤ کے چار لڑکے ہیں اور چاروں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور خود بابو راؤ آج بھی موچی کا کام کررہا ہے۔ اس مثال کے بعد ایک چیز سمجھ میں آتی ہیکہ اپنے بچوں کو انجینئر بنانا کوئی کمال کی بات نہیں ہے بلکہ کمال تو تب ہی ہوگا جب ہم مسلمان اپنے بچوں کو پہلے سچا مسلمان تو بنائیں اور اچھا انسان بنائیں اور اسی مقصد کیلئے ان کی تربیت کا سامان کریں۔

بچوں کے اسلامی نام رکھ دینا ہی کافی نہیں ان کے اعمال ان کے اسلامی ناموں کی ترجمانی کریں اس کی فکر کرنا ضروری ہے اور یہی وہ واحد چیز ہے جو ہمیں اوروں سے الگ اور جداگانہ موقف دلاسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کتنے ایسے والدین ہیں جنہیں اس بات کا علم ہیکہ ان کے بچے بچیاں 14 ستمبر 2014ء کو کہاں جانے والے ہیں اور کس قسم کا کھیل کھیلنے جارہے ہیں۔ گریٹر حیدرآباد اڈونچر کلب کے زیراہتمام اس دن "حیدرآباد کیچڑ کی دوڑ 2014" Hyderabad Mud Run 2014 انگریزی کا ترجمہ یہی کچھ ہوگا "کیچڑ کی دوڑ"۔ اور اس دوڑ میں حصہ لینے کیلئے ہمارے کئی لڑکے لڑکیاں ایک ہزار روپئے اڈوانس فیس دیکر اپنے ناموں کا اندراج کرواچکے ہیں۔ اس پروگرام میں حصہ لینے والوں کو عملی طور پر کیچڑ میں کھیلنا اور کودنا ہوگا۔ اس طرح کے کھیل کود سے کتنی صحت بنتی ہے اور کتنی صحت خراب ہوتی ہے مجھے نہیں پتہ لیکن والدین خود دیکھیں کہ وہ اپنے بچوں کی اس طرح کی یا ایسی ہی دیگر واہیات مصروفیات کے بارے میں کس قدر باخبر ہیں؟

رہی بات اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر کچھ اس قابل بنانا کہ وہ 30 تا 40 ہزار کی تنخواہ کمائیں یہ بھی کوئی بڑا تیر مارنے کی بات نہیں رہی۔ اخبارات فیچر لکھ رہے ہیں کہ دہلی کے مضافات میں واقع گر گاؤں علاقہ میں گھریلو خادمائیں 30 تا 35 ہزار ماہانہ تنخواہیں حاصل کررہی ہیں۔
ہمارے نوجوان محنت سے کیوں جی چرا رہے ہیں؟ یہ کوئی خراب ماحول والی بات نہیں۔ ماحول تو کبھی بھی سازگار نہیں رہا ہے۔ اصل بات تو آپ کی اور ہماری تربیت کا سوال ہے۔ محنت کرنے والے تو محنت سے کبھی جی نہیں چراتے۔ فیس بک کے ہمارے ایک اور دوست نے گذشتہ دنوں لوکل ٹرین میں کاروبار کرنے والے ایک ایسے بزرگ کی تصویر 'Share' کی جنہوں نے اپنے ہاتھ میں ایک سودے کی تھیلی اٹھا رکھی ہے اور اس میں انہوں نے فروخت کرنے والی کچھ چیزیں جمع رکھی ہیں اور ٹرین میں گھوم گھوم کر اسے فروخت کررہے ہیں۔ بظاہر تو اس تصویر کی تفصیلات میں بھی کوئی چونکا دینے والی بات نہیں سوائے اس کے سر پر ٹوپی پہنے کرتا پائجامہ زیب تن کئے چہرے پر سفید داڑھی لئے اس بزرگ کی کہانی صرف اس لئے ہماری دلچسپی کا باعث بنی کہ ان بزرگ صاحب کی دونوں آنکھیں بینائی سے محروم تھیں۔ عمر کی زیادتی، بالوں کی سفیدی اور پھر دونوں آنکھوں کی بینائی سے محرومی وہ سارے عوامل موجود تھے کہ یہ صاحب بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے امداد، خیرات کے نام پر بہت سارے پیسے بٹور سکتے تھے مگر انہوں نے تب بھی گوارا نہیں کیا کہ لوگوں سے بھیک مانگیں۔ محنت سے جی نہیں چرایا اور چلتی ٹرین میں چڑھ کر تجارت کرکے منافع کمایا اور ہم سب کیلئے ایک زبردست مثال قائم کی کہ بینائی سے محرومی بھی محنت کے راستے میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں بنتی۔ ہاں ترقی اور محنت کے راستے کی اگر کوئی بڑی رکاوٹ ہے تو وہ ہماری چھوٹی سوچ اور تنگ نظری ہے۔
اور جب بچوں کی تربیت کے دوران انہیں محنت کا درس دیا جاتا ہے تو اس کا اثر کافی گہرا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ بچہ چاہے کتنا ہی کچھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے لیکن محنت کے لئے ہمیشہ بے چین رہتا ہے۔

18 اگست 2014ء کو انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے شیخ پورہ بہارکے ایک ایسے نوجوان کی کہانی شائع کی جو پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ترین سند حاصل کرنے کے باوجود جواہرلال نہرو یونیورسٹی دہلی میں ایک ڈھابہ چلا کر پرلطف زندگی گذار رہا ہے۔ جی ہاں شہزاد ابراہیمی نے جے این یو (نئی دہلی) جیسے باوقار تعلیمی ادارے سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود چین نہیں پایا اور بجائے تدریسی شعبہ سے وابستہ ہونے کے خود اس یونیورسٹی میں بچوں کیلئے کھانا کھلانے کا ایک ڈھابہ کھول لیا اور اتنی مقبولیت حاصل کرلی کہ پوری یونیورسٹی میں آج ماموں کے ڈھابہ کی زبردست پہچان بن گئی ہے کہ صرف نام بتانے پر ہی لوگ آپکو ڈھابے کا پتہ بتا دیتے ہیں۔ یعنی محنت جن کی تربیت میں خمیر کے طور پر شامل رہتی ہے وہ لوگ اپنے ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر چین نہیں پاتے۔ بہت سارے مسلم نوجوان اپنی تعلیمی پسماندگی کو بنیاد بنا کر اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹانے سے کتراتے ہیں۔
ڈومنی کیو بنگلور کا ایک 36 سالہ نوجوان ہے اس نے 10 ویں کے بعد گھر کے خراب معاشی حالات کے سبب تعلیم ترک کردی اور اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوا کر لوگوں کو ڈرائیونگ سکھانا چاہتا تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اخبار میں الیکٹریشن کا اشتہار دیکھا تو درخواست دے دی کمپنی میں اس کو پہلے ٹریننگ دی گئی پھر الیکٹریشن کی جاب ڈومنی کیو نے جب اپنا کام اچھے سے سیکھ لیا تو کمپنی کی جاب چھوڑ کر انفرادی طور پر الیکٹریشن کا کام کرنے لگا۔ وہ کہتا ہیکہ آج اسے یہ کام کرتے ہوئے 20 برس ہوگئے اس کی دونوں لڑکیاں بالترتیب پانچویں اور تیسری کلاس میں پڑھ رہی ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کو بھی گھریلو خادمہ کا کام کرنے سے منع کردیا تاکہ وہ گھر پر رہ کر ان ہی دونوں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں ہاتھ بٹا سکے۔
(بحوالہ دی ہند اخبار 18 اگست 2014)

ہم میں سے کتنی ایسی خواتین ہیں جو اپنے پسندیدہ ٹیلی ویژن سیریلس کی قربانی دیکر اپنے بچوں کیلئے زائد وقت نکالنے تیار ہیں۔ کتنے والدین ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانے کیلئے فکرمند ہیں۔ یہاں تو سبھی اپنے بچوں کو اچھا انجینئر، اچھا ڈاکٹر، اچھا بزنس مین، اچھی نوکری کرنے والا اور اچھا کمانے والا ہی بنانا چاہتے ہیں۔ کاش کہ کم سے کم میں تو کچھ سمجھوں اور آپ کیا کریں گے؟ یہ ابھی طئے کرلیجئے!

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

The fruits of labor. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں