میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-20

میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں

urdu-in-india
اردو کے سلسلے میں کچھ رٹے رٹائے جملے ہیں جو ہر سیاسی پارٹی کے رہنما کی زبان پر رہتے ہیں ۔
’’اردو بہت ہی خوبصورت زبان ہے ۔‘‘
’’اردو نے جنگ آزادی میں بہت اہم کردارا دا کیا تھا۔‘‘
’’اردو نے ہمیں انقلاب زندہ بادجیسا نعرہ دیا۔‘‘
’’اردو خالص ہندوستانی زبان ہے ۔‘‘
اس قسم کے جملے بار بار استعمال کئے جاتے ہیں اور اب اپنی رعنائیاں کھوچکے ہیں بلکہ یہ زخموں پر نم پاشی جیسے لگتے ہیں ۔ گزشتہ ہفتہ لوک سبھا میں پھر اردو اخبارات کی بد حالی پربحثٖ ہوئی ۔ جس میں تمام پارٹیوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور بلا اشتراک اردو زبان کے تئیں زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ ریاستی حکومتوں سے لے کر مرکزی حکومت تک اردو زبان کو نظر انداز کررہی ہے اور اس کی ترقی کے اقدامات کم کئے جارہے ہیں ۔ ترقی معکوس کے راستے زیادہ نکالے جارہے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ لوک سبھا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گوپی ناتھ منڈے اور سربرآوردہ رہنما شتروگھن سنہا نے اردو زبان کو زبردست خراج پیش کیا۔سماجوادی پارٹی رہنما ملائم سنگھ یادو نے بھی اردو کے ھق میں زور دار تقریر کی ۔ یہاں تک کہ وزیر ریل ممتا بنرجی نے اردو کے کئی اشعار سنائے ۔ لوک سبھا کی اسپیکر میرا کماری نے بھی کہا کہ حکومت کو اردو اخبارات کی ترقی کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ کیونکہ اس زبان کے اخبارات نے جدو جہد آزادی میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوپائے گا ۔ کیونکہ اردو کے ساتھ گزشتہ نصف صدی سے جو سلوک ہورہا ہے اور اس کے باوجود یہ زبان زندہ ہے تو یہ اس کی اپنی توانائی اور طاقت ہے جس کے بل بوتے پر اس زبان کو ابتک کوئی مار نہیں سکا ہے ۔لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ زبان کی ترقی میں حکومت کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے لکھا تھا کہ’’ کسی قسم کو مارنا ہے تو اس کی زبان کو ختم رکدو اور اگر کسی زبان کو ختم کرنا ہے تو اس کے رسم الخط کوتبدیل کردو۔‘‘ ہمارے ملک میں بہت عرصے تک اردو زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی تحریک چلتی رہی ہے ۔صرف ہندو مہاسبھا جن سنگھ نے ہی یہ تحریک نہیں چلائی تھی۔ سماجوادی پارٹیوں اور کمیونسٹ پارٹیوں کا بھی یہی نعرہ تھا کہ اردو کے لئے دیوناگری رسم الخط اختیار کرلیا جائے۔ یہاں تک کہ ترقی پسند مصنفین کانفرنسنے بھی اسے اپنا نصب العین بنالیا تھا اور اردو کے سر بر آوردہ ادباء و شعراء بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے تھے ۔ جن میں علی سردار جعفری ، عصمت چغتائی ، مجروح سلطان پوری اور راہی معصوم رضا جیسے اردو کے ادیب تھے ۔ جن کا یہ استدلال تھا کہ اردو سرے سے کوئی زبان نہیں ہے ۔ یہ صرف ایک اسٹائل ہے ۔ لیکن اردو کی بہت بڑی اکثریت نے اسے رد کردیا تھا۔
سنہ 1955میں اردو کے حقوق کے لئے آواز اٹھی تو ملک کی اردو آبادی نے25لاکھ اردو شیدائیوں کے دستخط جمع کئے جس کے ذریعہ ملک کی8 ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ دستخطوں کا یہ پلندہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی قیادت میں انجمن ترقی ہند نے اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ اس وفد میں پنڈت سندر لال ، پنڈت آنند نرائن ملا، لیڈی انیس امام ، حیات اللہ انصاری، اور بیگم سلطانہ حیات شامل تھے ۔ لیکن حالات کی ستمگری یہ ہے کہ ڈاکٹر راجندر پرساد جو خود کو اردو کا بہت بڑا ہمنوا اور حمایتی کہتے تھے انہوں نے کبھی بھی اس پر نظر نہیں ڈالی ۔ لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جب ڈاکٹر ذاکر حسین خود صدر جمہوریہ ہوگئے تو انہوں نے اپنے ہی پیش کردہ محضر نامہ پر توجہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
اردو پر اردو والوں کے ذریعہ ظلم کی یہ تنہا مثال نہیں ہے ۔ سنہ1972ء میں مسزا اندرا گاندھی نے اپنی کابینہ کے وزیر اندر کمار گجرال کی سربراہی میں اردو کی ترقی کے لئے ایک گجرال کمیٹی کی تشکیل کی ۔ جس نے سارے ملک کا دورہ کر کے اردو کی بد حالی کے سلسلے میں اعداد وشمار جمع کئے اور پھر اپنی سفارشات پیش کیں ۔ ان سفارشات کو جمع کر کے ضخیم رپورٹ وزیرا عظم مسزا اندرا گاندھی کو پیش کردی گئی ۔ مگر مسز اندرا گاندھی نے اسے کابینہ میں رکھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی ۔ اندر کمار گجرال نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے اس جانب وزیر اعظم کی توجہ مبذول کروائی تو انہوں نے کہا کہ بابو جگجیون رام اردو کے خلاف ہیں۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ وہ وزیر تعلیم پروفیسر نور الحسن سے بات کریں کہ وہ اس کے لئے بابو جگ جیون رام کو آمادہ کریں۔ اب آپ اس بات پر نظر ڈالئے کہ اندرا گاندھی جیسی طاقتور وزیر اعظم اردو کے حقوق دینے کے سلسلے میں کتنی بے بس تھیں یا پھر یہ محض ان کا ایک بہانہ تھا ۔ کیونکہ ایمرجنسی لگانے کے لئے تو انہیں کسی کابینہ رکن کی حمایت حاصل کرنی نہیں پڑی اور انہوں نے راتوں رات فیصلہ لے کر ایمر جنسی جیسے ظالمانہ قانون کو اپنے مفادات کے لئے نافذ کردیا ۔
واقعہ یہ ہے کہ وہ کود ہی اردو کے حقوق کو بحال کرنا نہیں چاہتی تھیں۔ سنہ1977میں کانگریس پارٹی کو زبردست شکست سے دوچار ہونا پڑا اور مرار جی ڈیسائی کی قیادت میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی ان کی توجہ جب گجرال کمیٹی کی جانب مبذول کرائی گئی تو انہوں نے پہلے اس پر کوئی توجہ نہیں کی لیکن جب جنتا پارٹی کے 8بہت اہم ارکان پارلیمنٹ نے ان کے روبرو یہ مقدمہ رکھا تب وہ اس کے لئے تیار ہوئے کہ وہ اس رپورٹ کو کابینہ کے روبرو پیش کریں گے ۔ ان ارکان پالیمنٹ میں کوئی بھی اردو داں نہیں تھا ۔ وہ ارکان تھے پیلو مودی ، بیجو پٹنائک ، جیوتر مئے بسواور سنجیواریڈی ۔ نہ تو ا ن لوگوں کی زبان اردو تھی اور نہ ہی یہ اردو کی روزی روٹی کھاتے تھے ۔ لیکن انہوں نے اردو کا مقدمہ اتنے زور دار طریقے سے پیش کیا کہ مرار جی ڈیسائی اس رپورٹ کو کابینہ میں رکھنے پر مجبور ہوئے اور اسے کابینہ نے پاس کیا۔ لیکن اس معاملے میں ایک بڑی ستم ظریفی اور بھی ہے کہ جب اندر کمار گجرال خود وزیر اعظم بن گئے تو انہوں نے بھی اردو کی ترقی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ وہ صرف بات بات پر اردو کے اشعار پڑھتے رہے اور نظمیں سناتے رہے اور اس طور پر اردو والوں کے دل خوش کردئے ۔ لیکن کوئی ایسا عملی قدم نہیں اٹھایا جس سے اردو کی ترقی کی راہ ہموار ہوسکتی تھی ۔
آج بھی صورتحال ویسی ہی ہے صرف اتنا ہی نہیں نہیں جن ریاستوں میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے وہاں بھی اس کی صورتحال بہتر نہیں ہے ۔تبھی تو پارلیمنٹ میں اردو اخباروں کی زبوں حالی کا رونا رونا پڑ رہا ہے ۔ کامرشیل اشتہارات کی بات تو چھوڑ دیجئے کہ صنعت کاروں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اب اس ملک میں اردو کا اخبار کوئی نہیں پڑھتا ہے ۔ اگر عوامی زمرے کے اداروں کو بھی نظر انداز کردیجئے تو خود حکومت کے اداروں کے اشتہارات بھی اردو اخباروں کو نہیں دئیے جارہے ہیں یا پھر دال میں نمک کے برابر دئے جاتے ہیں۔ وہاں بھی انگریزی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ بار بار اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ سرکاری اشتہارات میں اردو اخباروں کا تناسب طے کردیاجائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کون کروا سکتا ہے ؟ حکومت میں جو اشخاص ہوتے ہیں انہیں خود بھی اردو کے تئیں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی یا پھر ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اردو کے مسائل پر توجہ کرسکیں ۔ کیونکہ ان کے پاس تو اور بھی بہت سے گمبھیر مسائل ہوتے ہیں ۔ انہیں تو پتہ ہی ہے کہ اردو والے بس اس قسم کی دلکش باتوں سے خوش ہوجاتے ہیں اور اردو کے اشعار پڑھ دینے سے ہی ان کی تسلی ہوجاتی ہے ۔ لیکن اردو والا تو بے چارہ بس دل مسوس کر رہ جاتا ہے اور بقول شاعر یہی کہتا ہے ۔
چاہنے والے بہت پھر بھی مرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں

The Urdu dilemma in India. Article: Dr. Rizwan Ahmed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں