چھوٹی سوچ اور پاؤں میں موچ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-16

چھوٹی سوچ اور پاؤں میں موچ

The-Secrets-of-Entrepreneurs
کونیکا رائے کی عمر 26 برس ہے اور ہر ماہ وہ 35 ہزار کی تنخواہ کماتی ہے۔ اس برس کونیکا نے چھٹیاں منانے کے لئے اوٹی کا رُخ کیا تھا۔ نمّی کی عمر تو ابھی (18) برس ہی ہے اُس کی ماہانہ تنخواہ (25) ہزار ہے اپنے کپڑے خریدنے کے لئے وہ Zara جیسے بڑے اسٹور کا رُخ کرتی ہے۔
کون ہیں یہ کونیکا اور نمّی؟ ان لوگوں کی تعلیمی قابلیت کیا ہے جس کی بنیاد پر انھیں (25) سے (35) ہزار تنخواہیں دی جارہی ہیں۔ کیا پورے ملک میں یہی دو خواتین ایسی ہیں جنھیں یہ تنخواہ مل رہی ہے ایسا تو نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے ان خواتین کی عمروں اور ان کی تنخواہوں کا ذکر کیا جائے؟
ان سارے سوالات کے جوابات ہمیں ٹائمز آف انڈیا کے گرگاؤں ایڈیشن میں 16 اگسٹ کو شائع ہوئی شلپی ارورہ کی رپورٹ سے ملتے ہیں۔
کونیکا رائے اور نمّی کسی کال سنٹر میں کام نہیں کرتیں بلکہ یہ دونوں دہلی کے قریب میں واقع تیزی سے ترقی پذیر شہر گرگاؤں میں گھریلو خادماؤں کا کام کرتی ہیں۔ جی ہاں گرگاؤں کی گھریلو خادماؤں (House Maids) کو ایسے ہی ہزاروں میں تنخواہ دی جاتی ہے۔ وہاں پر گھر کی صفائی یا صرف پکوان کے لئے ابتدائی تنخواہ کم سے کم 8 ہزار روپئے ہے۔ راجیش کمار ایک کنسلٹنسی ادارہ چلاتے ہیں جو لوگوں کو گھریلو خادمائیں فراہم کرتا ہے۔ اُن کے مطابق دس برس قبل اس علاقے میں خادماؤں کی تنخواہیں 4 سے 5 ہزار ہوا کرتی تھیں اور آج 25 ہزار تک پہونچ گئی ہیں۔ اُنھوں نے مزید کہاکہ گزشتہ برس اُنھوں نے تقریباً 50 گھریلو خادماؤں کو نوکری دلائی تھی اُن میں سے آج 40 خادماؤں کی ماہانہ تنخواہ 20 ہزار روپئے ہوگئی ہے۔
کیا کونیکا رائے اور نمی کوئی (Trained) کام کرنے والی ہیں۔ اخبار کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کونیکا (16) برس کی عمر میں مغربی بنگال کے ایک گاؤں سے گرگاؤں آئی تھی اور یہاں کام کرنے لگی تھی۔ اُس نے ہر کام انہی خادمہ کی ملازمت کے دوران ہی سیکھا ہے۔ گھر کے بچے انگلش میں بات کرتے تو اُن سے انگلش سیکھی، کمپیوٹر بھی اُن ہی لوگوں سے سیکھ لیا۔ کونیکا خود اپنے میک اپ (Mani-Pedis) کے لئے ہر ماہ دو مرتبہ بیوٹی پارلر کو جاتی ہے آج وہ اپنے شوہر کے ساتھ ایک ایسے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے جہاں اے سی، فریج اور ایل سی ڈی ٹی وی موجود ہے۔
نمی نامی ایک دوسری خادمہ کا بھی ہم نے ذکر کیا تھا اُس کے متعلق اخباری رپورٹ کے مطابق وہ منی پور کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ گرگاؤں آئی تھی۔ دو گھروں میں کام کرتی ہے اور 25 ہزار تنخواہ حاصل کرتی ہے۔ اُس کا ارادہ ہے کہ وہ جلد ہی ایک آئی پیاڈ (iPad) خریدے گی اُس کو انگریزی پہلے سے ہی آتی تھی چونکہ اُس کا تعلق منی پور سے ہے تو وہاں انگریزی کا ماحول عام ہے، لیکن کھانا پکانا اُس نے کام کرنے کے دوران ہی سیکھا۔
نزونا ایک اور ایسی خادمہ ہے جو کولکتہ سے تعلق رکھتی ہے اور گزشتہ (12) برسوں سے گرگاؤں میں کام کررہی ہے اب وہ گھریلو کام کرکے ماہانہ 30 ہزار روپئے کماتی ہے اور اُس کا شوہر آٹو چلاتا ہے اور لوگوں کی کاریں صاف کرکے 20 ہزار روپئے کمالیتا ہے۔ ان لوگوں نے نہ صرف اپنا ایک پلاٹ خریدا ہے، جس کی ماہانہ قسط ادا کرنے کے علاوہ وہ لوگ ہر ماہ 10 ہزار کی رقم اپنے بینک میں جمع کرلیتے ہیں۔ گرگاؤں کی یہ گھریلو خادمائیں ہمارے نوجوانوں کو محنت کا ایک ایسا سبق دیتی ہیں کہ محنت کرنے کے لئے سرحد پار کرنا ، سمندر پار سفر کرنا ضروری نہیں۔ محنت سچی لگن سے ہو تو خود اندرون ملک پیسے کمانے کے ہزار طریقے ہیں۔
ایسے ہی ایک محنتی نوجوان کی کہانی خود ہمارے شہر حیدرآباد کی ہے کہ شہر سے 400 کیلو میٹر دور ضلع پرکاشم کے ایک گاؤں کا آٹھویں جماعت کا طالب علم اپنے بڑے بھائی کے ساتھ حیدرآباد آتا ہے بڑے بھائی میسن کا کام کرتے ہیں سو اُنھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے شہر بُلالیا۔ آٹھویں جماعت کا پرکاشم ضلع کا لڑکا جس گھر میں میسن کا کام کرنے آتا ہے تو وہ خود بھی خواب دیکھتا اور سوچنے لگتا ہے۔ حیدرآباد کے اسی علاقے میں بھی اُس کا خود کا ایک گھر ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ وقت گزرتا گیا۔ آٹھویں جماعت میں اس کم عمر طالب علم نے جو خواب دیکھا تھا کہ جوبلی ہلز کے علاقے میں خود اُس کا اپنا گھر ہونا چاہئے، وہ پورا ہوتا ہے۔ انگریزی اخبار بزنس اسٹینڈرڈ نے اپنی 19 اگسٹ 2014 ء کی اشاعت میں "From Village hut to Jubilee Hills" کی سرخی کے تحت ایم مدھو سدنا راؤ کی زندگی کی سچی کہانی کو پیش کیا ہے۔ آندھراپردیش کے ضلع پرکاشم کے ایک گاؤں کے مزدور میاں بیوی کا آٹھ بچوں میں سے پانچواں لڑکا جوبلی ہلز میں سال 2010 ء میں ڈھائی کروڑ میں ایک گھر خرید کر اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرتا ہے۔ جی ہاں آج ایم مدھو سدنا راؤ ایم ایم آر انفرا پراجکٹس نامی کمپنی کے مالک ہیں جوکہ 75 کروڑ تا 90 کروڑ کا کاروبار کرتی ہے۔
مدھو سدنا راؤ کا خاندان کئی نسلوں سے زمین داروں کو سستا مزدور فراہم کرتا آیا ہے۔ ان کے گھر میں پیسوں کی کوئی ریل پیل نہیں۔ گھر کے آٹھ بچوں میں سے صرف دو ہی بچے پڑھ لکھ سکے۔ مدھوان میں سے ہی ایک ہے۔ گاؤں میں جب پڑوسی کے بچے پڑھ لکھ کر انجینئر بن گئے۔ تو مدھو کے والد نے بھی اُن کو پڑھانے کے لئے پہلے گاؤں کے اسکول کو بھیجنا شروع کیا۔ اسکول کے بعد پالی ٹیکنک کا کورس مکمل کیا کیونکہ پالی ٹیکنک کرنے کے بعد فوری طور پر کوئی نوکری تو نہیں تھی اس لئے اس نوجوان نے اپنے خاندان کے رشتہ داروں کے ساتھ ملکر تعمیراتی کام کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ کیبل بچھانے کے لئے گڑھے کھودنا ان کا کام تھا۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ مدھو کی زندگی میں انقلاب آگیا۔ ایک جگہ وہ انجینئرنگ کے آفس میں انٹرویو کیلئے گیا تھا وہاں اُس نے چند لوگوں سے سنا کہ کیبل بچھانے کے لئے فوری طور پر مزدوروں کی ضرورت ہے۔ بس کیا تھا مدھو کے کئی مزدوروں سے تعلقات تھے۔ اُس نے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے فوری طور پر درکار مزدور فراہم کئے اور اپنے اس پہلے ہی کنٹراکٹ میں مدھو کو 25 ہزار روپیوں کا فائدہ ہوا۔ جلد ہی مدھو بڑی بڑی ٹیلی کام کمپنیوں جیسے ٹاٹا اور ووڈا فون کے لئے کیبل بچھانے کا کام کرنے لگا اور ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ مدھو کو (22) ہزار کیلو میٹر طویل آپٹک فائبر کیبل پانچ الگ الگ ریاستوں میں بچھانے کا کنٹراکٹ ملا ،اس کے بعد مدھو نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔
مدھو کوئی اعلیٰ ذات سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ ایک دلت ہے اُس نے ابھی حال ہی میں دلتوں کے ایک نمائندہ وفد کے ساتھ وزیراعظم مودی سے ملاقات کی۔
اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے مدھو نے بتایا کہ چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے کے سبب وہ لوگ اپنے گاؤں میں بڑی ذات کے لوگوں کے نہ تو گھروں کو جاسکے تھے اور نہ ہی اُن کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے۔
آج مدھو نے وہ مقام حاصل کرلیا کہ اُس کو اونچی ذات کے لوگ بھی اپنی دعوتوں میں بلانے لگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کئی لوگ مدھو سے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے مشورہ بھی لینے لگے ہیں۔
مدھو آج جوبلی ہلز کے خاص لوگوں کے کلب کی ممبرشپ بھی رکھتا ہے اُس کے مطابق اُن لوگوں نے ممبرشپ کے لئے پیسے پوچھے جو میں نے دیئے اور مجھے ممبرشپ مل گئی۔
خود جوبلی ہلز میں (4,000) مربع فیٹ پر پھیلے اپنے گھر کی خریداری کے متعلق مدھو نے بتایا کہ ایک مرتبہ اُنھوں نے جوبلی ہلز کے شرفاء کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس علاقے میں فلم اسٹارس، سیاست داں اور صنعت کار رہتے ہیں شکر ہے کوئی دلت یہاں نہیں رہتا ہے۔ تب اُنھوں نے قطعی فیصلہ کرلیا کہ اُنھیں جوبلی ہلز میں ہی اپنا گھر خریدنا ہے۔ اُن کے مطابق دلت ہونے کے باوجود اُنھوں نے اپنی زندگی میں ریزرویشن کے حق کا استعمال نہیں کیا اور اپنے بچوں کو بھی اُن کے اپنے بل پر آگے بڑھانے کی کوشش کی۔
مدھو سدنا راؤ کی کامیابی کا راز کیا ہے۔ ان پر ایک کتاب Defying the odds. The Rise of Dalit Enterpreneurship
چیانل PBS ان کی زندگی پر ایک ڈاکیومنٹری فلم بنارہا ہے۔ مدھو سدنا راؤ کی کامیابی کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُن کے کام کرنے والے مزدوروں سے بہترین تعلقات ہیں وہ اُن کی اپنی زبان میں بات کرتے ہیں اور اُن پر کام کرنے والوں کو بھروسہ ہے۔ اتنا ہی نہیں مدھو لوگوں کو دوست بنانے اور اپنے کام کو آسان بنانے کے لئے سرکاری افسروں سے تعلقات بنانے کا فن اچھی طرح جانتے ہیں اور یہی اُن کی کامیابی کا راز بتایا جاتا ہے۔ یہی نہیں مدھو سدنا راؤ نے محنت سے کبھی جی نہیں چرایا اب بھی وہ رات 11 بجے کے بعد گھر واپس آتے ہیں۔ پانچ گھنٹے سونا اور 18 گھنٹے کام اُن کے لئے معمول کی بات ہے۔
اس کروڑپتی دلت صنعت کار کی بیوی آج بھی ملازمت کرتی ہے۔ اُن کے مطابق اُن کی اصلیت کو وہ لوگ بھولنا نہیں چاہتے۔ اس لئے نوکری کو نہیں چھوڑا۔ مدھو نے اپنے ترقی کے سفر میں اپنے جیسے دلت افراد کو نہیں بھولا۔
مدھو کی کمپنی میں 200 لوگ مستقل ملازمین ہیں اور ان میں سے کئی مدھو کی طرح غریب اور دلت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مدھو نے اپنے منصوبوں کے متعلق بتایا کہ وہ اگلے پانچ برسوں کے دوران اپنی کمپنی کے کاروبار کو چار ہزار کروڑ تک پہونچانا چاہتے ہیں اور اُس کے آگے ۔۔۔؟
اُس کے آگے بھی کیا کرنا ہے مدھو نے سوچ رکھا ہے۔ 45 برس کی عمر میں مدھو سدنا راؤ نے ریٹائرمنٹ لینے کا ارادہ طے کر رکھا ہے اور اپنی باقی کی زندگی میں وہ بقیہ وقت اور پیشہ سماجی خدمات میں صرف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بڑے بڑے لوگ حیدرآباد کے اس نئے صنعتکار اور مالدار شخص کی کامیابی سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کی کامیابی کے راز کو جاننے کے لئے کتابیں لکھی جارہی ہیں اور بڑی تیزی سے فروخت ہورہی ہیں۔ امریکی ٹیلی ویژن چیانلس ڈاکیومنٹری بنارہے ہیں۔
اور ہم مسلمان کیا کررہے ہیں؟ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے لوگ ہندوستان اور ہندوستان کی مارکٹ اور یہاں موجود مواقع کی تلاش میں آرہے ہیں۔
14 اگسٹ 2014 ء کو بزنس اسٹینڈرڈ اخبار نے Australian Students Might Intern in Indian Companies کی سرخی کے تحت ایک خبر شائع کی کہ اب حکومت آسٹریلیا نے اپنی یونیورسٹی کے ٹاپ کلاس طلباء کو ہندوستان کی مختلف کمپنیوں میں تربیت کے لئے بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ہم ہندوستان کے شہری کیا کررہے ہیں کہاں کھڑے ہیں؟ کہاں جارہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں؟ کہیں ہماری سوچ تو چھوٹی نہیں ہوگئی۔۔۔ کسی نے کیا خوب کیا ہے۔
چھوٹی سوچ اور پاؤں میں موچ
انسان کو آگے بڑھنے نہیں دیتی -اللہ ہمیں ہر دو سے محفوظ رکھے۔

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

The Secrets of Entrepreneurs. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں