حکومت تلنگانہ کی شادی مبارک اسکیم - خواتین کی حیثیت کو ثانوی جتانے کی کوشش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-27

حکومت تلنگانہ کی شادی مبارک اسکیم - خواتین کی حیثیت کو ثانوی جتانے کی کوشش

shadi-mubarak-scheme
حکومت تلنگانہ نے اقلیتی طبقہ کی غیر شادی شدہ لڑکیوں کی شادی کے لئے 'شادی مبارک' اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ اس اسکیم کا اطلاق 2 اکٹوبر سے ہوگا۔ اس اسکیم کے تحت اقلیتی فرقہ کی لڑکیوں کی شادی کے لئے 51,000 روپئے کی مالی اعانت کی جائے گی۔

حکومت کی اعلان کردہ اسکیم ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کیونکہ ہندوستانی قانون کی رو سے سال 1961 میں جہیز کی ممانعت کا قانون لاگو کیا گیا۔ اس قانون کی رو سے جہیز لینا اور دینا دونوں کی ممانعت کی گئی ہے۔ جہیز لینے اور دینے والوں پر قانونی چارہ گوئی کی جاسکتی ہے۔اس قانون کی رو سے جہیز لینے والے کو چھ ماہ کی جیل اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔
سال 1983میں 408-A کو نافذ کیاگیا۔ اس قانون کا مقصد یہ تھا کہ خواتین سے غیر قانونی جہیز کی مانگ کو روکنا اور انھیں ہراسانی سے بچایا جائے۔ یہ قانون کہتا ہے کہ جہیز کے لئے بیوی کو ستانے یا ہراساں کر نے پر چھ ماہ کی جیل اور 15,000 روپئے جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔
ایک اور قانون جو خواتین کے خلاف گھر کے اندر بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح ، بڑھتے ہوئے جہیز ہراسانی کے واقعات اور جہیز کے لئے انکے قتل میں روز افزوں اضافہ کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا وہ ہے 'گھریلو تشدد سے تحفظ کا قانون ' جو 2005 میں بنایا گیا۔ اس قانون کی رو سے خواتین پر جہیز لانے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اگر ایسا کیا جائے تو خاطیوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائیگی۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی 2012کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس سال تقریباًدو لاکھ افراد کو جہیز ہراسانی معاملہ میں گرفتار کیا گیا جن میں سے47, 951 خواتین بھی شامل ہیں۔

اگر جہیز کی اموات کے پچھلے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو ہمیں افسوسناک اعداد و شمار ملیں گے۔ انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 302 اور 304 کے تحت ملک میں جہیز کی اموات کے واقعات ریکارڈ کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے۔
سال 2007 میں 8093عورتوں کو جہیز کے لئے قتل کیا گیا۔
2008 میں 8172دلہنوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
2009میں8383خواتین اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ہاتھوں جہیز کی رسم پر قربان ہوگئیں۔
2010میں8371لڑکیوں کو
2011میں 8618 عورتیں
2012 میں 8092 دلہنوں کو
اور 2013 میں 7936 عورتیں جہیز کے لئے ہلاک کی گئیں۔
جبکہ جہیز ہراسانی کے واقعات چونکانے والے ہیں کہ کس طرح عورتوں کے لئے انکا گھر خود ان کی زندگی کا زنداں بن چکا ہے۔ شوہر اور سسرالی رشتہ داروں کی جانب سے ظلم و ستم کے واقعات 498-A کے تحت پچھے دو سال میں یعنیٰ سال 2012 میں 1,04,454 واقعات درج کئے گئے۔ 2013میں1,15,721 کیسس درج ہوئے۔

جہیز کی مانگ کے مسئلہ پر ملک کی صورتحال اتنی سنگین ہے جہیز کی مخالفت میں قانون نافذ ہیں اور اسکے خلاف کیسس درج کئے جارہے ہیں۔ لوگوں کو جیل بھیجا جارہا ہے ایسے میں حکومت تلنگانہ کی جانب سے جہیز کی حمایت میں اسکیم کا اعلان کرنا معنیٰ خیز ہے۔

اب رہا سوال مسلم لْڑکیوں کی شادی کا تو اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جہیز ایک ہندوانہ رسم ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مسلم سماج میں داخل ہو کرمسلمانوں کی شادی کا لازمی حصہ بن چکی ہے ۔جہیز ایک لعنت ہے، جس کے بے شمار نقصانات ہیں۔جہیز کی وجہ سے موجودہ زمانے میں لڑکیوں کی شادی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ کئی لڑکیاں اس لئے اپنے باپ کے گھر میں بیٹھی ہیں کہ انکا باپ اپنی لاڈلی بیٹی کو شادی کے موقع پر جہیز نہیں دے سکتا۔ اس مذموم رسم کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اخلاقی ، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے پستی میں مبتلاء ہوتا جارہا ہے۔

اس اسکیم سے جہیز کی رسم کو مزید بڑھاوا ملے گا۔اب جہیز قانونی طور پر جائز سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت خود اس سلسلہ میں رقمی مدد کر رہی ہے تو مانگنے والے تو مزید اعلان کے ساتھ مانگ سکتے ہیں۔ اس اسکیم میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ امداد صرف زندگی میں ایک بار کی جائیگی۔ اگر کسی عورت کی پہلی شادی ناکام ہوگئی وہ دوسری شادی کرنا چاہے تو اس کی امداد کون کریگا؟
ان حالات میں شادی شدہ مرد بھی صرف اور صرف کنواری لڑکی سے شادی کرنا چاہینگے۔ اگر سسرال میں مزید جہیز لانے کے لئے عورتوں کو ہراساں کیا جائے تو شکایت درج کرنے کے لئے وہ کہاں جائیں؟ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں پولیس اور وکلاء اس سلسلہ میں کیا رول انجام دینگے اس کی بھی تفصیلات معلوم ہو جاتیں تو شاید بہتر ہوتا۔

وزیر اعلیٰ سے یہ بھی دریافت کیا جانا چاہیے کہ کیاشادی میں صرف اکیاون ہزار روپے ہی خرچ ہوتے ہیں ؟باقی رقم کا انتظام کہاں سے کیا جائے؟
اس طرح کی اسکیمات کا اعلان کرنے سے قبل حکومت اگر سیول سوسائٹی اور رضاکارانہ تنظیموں سے مشاورت کر لیتی تو بہتر ہوتا۔ اس اسکیم سے فائدہ کے بجائے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس اسکیم کی وجہ سے اقلیتی فرقہ کی خواتین کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اسلام جہیز کی بات ہی نہیں کرتا بلکہ شادی کے موقع پر مہر کی رقم ادا کرنے کے احکام ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر اعلیٰ لڑکی کو جہیز خریدنے کے لئے رقم کا اعلان کرنے کے بجائے لڑکے کو شادی کے موقع پر مہر کی رقم کی ادائیگی کی سہولت دیتے۔ اور "شادی اسکیم - 51,000 ہزار کی رقم بطور مہر" کا نام دیتے۔ اس جانب مزید بحث کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں جہیز کی اس لعنت کے مکمل سدباب کے لئے مل جل کر کام کرنا ہوگا ۔
تمام نوجوانوں سے گذارش ہے کہ دلہن کے باپ کی طرف سے شادی کے موقع پر تحفہ قبول کرنے سے انکار کریں ایسا کرکے آپ امت مسلمہ کو وقت کے بہت بڑے فتنہ سے بچالیں گے۔ لڑکوں کے والدین سے گزارش ہے کہ لڑکی والوں سے جہیز کی فہرست نہ مانگیں بلکہ لڑکی کی سیرت کی فہرست مانگیں ۔ یہی ان کا اصل حق ہے ۔

مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطان سب گدا

***
Mumtaz Fatima. Hyderabad.
mumtazfatima14[@]gmail.com
mumtaz_krmr[@]yahoo.co.in

Telangana Shadi Mubarak Scheme, to show the secondary status of women. Article: Mumtaz Fatima

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں