پوپ کہانی - بیٹے کا مشورہ باپ کا عمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-27

پوپ کہانی - بیٹے کا مشورہ باپ کا عمل

grandpa-stories
بیٹا : ابا جی آپ سارا دن تسبیح پڑھتے رہتے ہیں کوئی کام ہی کیا کیجئے ۔
ابا جی: تم کام بتاؤ !۔
بیٹا : ہم میاں بیوی کے پاس سانس لینے کو وقت نہیں، بچوں پر توجہ دے ہی نہیں سکتے ۔ آپ بچوں کو جمع کر کے مذہب اور کلچر کے بارے میں معلومات دیا کریں نا!۔
ابا جی : وہی تو پوچھ رہا ہوں، کیا؟
بیٹا : جیسے ہمیں سبق آموز کہانی سناتے تھے " شیر آیا ۔ شیر آیا " ۔
اباجی : شیر آیا شیر آیا ۔۔۔۔۔ کیا؟
بیٹا : اباجی! آپ بھول گئے ؟ آپ نے کہانی سنائی تھی ۔ ایک ٹین ایج گڈریا جنگل میں بکریاں چرانے لے جاتا تھا ۔ ایک روز تنہائی سے تنگ آ کر اس نے شور مچایا کہ لوگو شیر آیا شیرآیا ۔ گاؤں والوں کو گڈریئے اور بھیڑ بکریوں کی فکر ہوئی ۔ دوڑے دوڑے آئے ۔۔۔۔ مگر وہاں کوئی شیر ویر نہ تھا ۔ اسی طرح دو ایک بار ہوأ ۔ فالس (جوٹھا) الارم پر گاؤں والے خفا ہوئے ۔ بات آئی گئی ۔ ایک روز واقعی شیر آ گیا ۔ لڑکے نے شور مچایا مگر گاؤں سے کوئی نہ آیا ۔
شیر آیا اپنا کام کر گیا ۔ نہ بھیڑ بکریاں رہیں نہ گڈریا !!۔
سبق یہ بتلایا کہ جھوٹ نہیں بولنا چایئے اعتبار جاتا رہتا ہے ۔
******
ایک روز اباجی نے بچوں کو جمع کیا ۔ آؤ بچو کہانی سنو ۔
بچے شوق سے دادا کے پاس جمع ہو گئے
دادا :۔ ایک بادشاہ تھا ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا ملک کا بادشاہ ۔۔۔۔۔۔
ایک بچہ:۔ کٹ شارٹ ۔ اب بادشاہ نہیں ہوتا ۔
دوسرے بچے نے اسے چپ کرایا : چپ بد تمیز !!۔
دو بچوں نے گانا شروع کر دیا" دل بدتمیز ۔ دل بد تمیز ۔۔۔۔۔"
طوفان بدتمیزی تھما تو پتہ چلا
داد روٹھ چکے ہیں ۔
لیکن بچوں نے منا لیا ۔
سمجھو ایک بادشاہ تھا ، نام اس کا محمود تھا ۔
بچے خاموشی سے سننے لگے ۔
محمود غزنوی نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا غزنوی اس کا سرنیم تھا؟
دادا سوال نظر انداز کر کے بولتے چلے گئے ۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے ۔۔۔
کوئی بیچ میں بول پڑا"واٹ از سترہ؟"
دادا :۔" سیونٹین ۔۔۔۔۔۔اور ہر بار دولت لوٹ کر وطن چلا گیا ۔ یہ تو امیر لوگ تھے جن کا دماغ خراب ہو گیا ۔عوام کے پاس اس وقت بھی روٹی کپڑا مکاں نہ تھا ۔ پیسے کا نشہ برا ہوتا ہے ۔ ہوس بڑھ جاتی ہے یعنی لالچ بڑھ جاتا ہے ۔ امیر درباری سازشیں کرنے لگے "۔

یہ سازش والی بات بچوں کو ہضم نہ ہوئی مگر اس ڈر سے کہ دادا ابا روٹھ نہ جائیں وہ سب چپ رہے ۔دادا نے کہانی جاری رکھی ۔" درباریوں نے بادشاہ کے ولی عہد شہزادے کو پٹی پڑھانی شروع کی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے سوال کرنے ہی لگے تھے مگر داد نے انگلی ہونٹوں پر رکھ چپ کرا دیا ۔۔۔۔۔۔۔" کہ پرنس صاحب وزیر اعظم بننے کا حق تمہارا ہے ۔"۔

دو بچے مل کر گانے لگے ۔۔۔۔" ساڈا حق ایتھے رکھ" ۔۔۔۔۔

دادا نے دھیان نہ دیا جب بچے خاموش ہوئے تو انہوں نے کہا" ایاز ایک گڈریا تھا ۔"

ایک بچے کا نام ایاز تھا سب اسے انگلیاں چبھونےلگے، گدگدانے لگے ۔ دادا برابر کہانی سنانے میں محو رہے ۔" بادشاہ سلامت جنگل سے اٹھا لائےغریب فقیر ایازکو وزیر اعظم بنانے چلے ہیں ۔۔۔۔ شہزادہ صاحب اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے پیارے پرنس کچھ کرو" ۔

چلبلے بچوں کو چین کہاں تھا سوال کرنے کو بے چین تھے مگر بڑی مشکل سے کہانی میں دلچسپ موڑ آیا تھا ۔ بس پہلو بدل کر دادا کی طرف متوجہ رہے ۔
دادا: ۔ ایک روز کیا ہوا؟ ۔۔۔
کیا ہوا؟ بچے ایک ساتھ چیخے ۔
دادا:، ایک ایجنسی نے سازش والی بات بادشاہ تک پہنچا دی ۔ بادشاہ چالاک تھا، بیٹے سے کہا ۔ سنْڈے کو سب درباریوں کو اکٹھا کرو ۔ سب کے سامنے وجہ بیان کروں گا کہ وزارت کس کا حق ہے؟
بچے پھر گانے ،لگے ۔۔۔ ساڈا حق ایتھے ۔۔ ایتھے رکھ !!۔
لو جی سنڈے آ گیا ۔ دربار لگا یعنی پارلیمنٹ کی میٹنگ ہوئی ۔
ابھی لوگ ٹھیک سے، ڈھنگ سے بیٹھ بھی نہ پائے تھے کہ بادشاہ نے اچانک اپنے بیٹے کو حکم دیا یہ سامنے جو نہایت قمتی ہیروں سے جڑا تھال رکھا ہے اٹھا کر دھڑام سے زمین پر پھینک دو ۔
شہزادہ ولی عہد کھڑا ہوا ۔ آّداب بجا لایا اور پل دو پل ٹھہر کر بولا : اتنا قیمتی تحفہ وہ بہت بڑے ملک کا تحفہ !۔ خیال فرمائیے زمین پر دے مارا تو ٹوٹ پھوٹ نہ جائےگا ؟
بادشاہ نے کہا ۔ بیٹھ جاؤ

پھر باشاہ نے یہی حکم اپنے غلام ایاز کو دیا جسے وہ وزیر اعظم بنانے جا رہا تھا ۔ ایاز نے حکم سنا ۔ اٹھا، آؤ دیکھا نہ تاؤ ہیرے جواہرات جڑا تھال زمین پر دے مارا ۔ پورے دربار یعنی پارلیمنٹ پر سکتہ طاری ہو گیا ۔
ایک ذہین نواسہ جو عمر میں دوسروں سے تھوڑا بڑا تھا: بولا" نانا ابا یہ سکتہ کیا ہوتا ہے؟" ۔
دادا اباَ : سمجھو! تھوڑی دیر کو سب کے سب کومے میں چلے گئے ۔
جب اسپیکر نے بیل بجا کر لنچ کا اعلان کیا کہ لنچ کے بعد چار بجے دوبارہ اجلاس ہو گا ۔
بچے بھی اٹھ کر جانے لگے تو دادا ابا نے کہا بھئی ابھی تمہارے لنچ کا وقت نہیں ہوأ ۔ بیٹھئے رہو ۔ اب کہانی ختم ہونے جا رہی ہے ۔
دادا ابا ذرا ذرا مسکرائے اور کہا : اجلاس دوبارہ شروع ہونے پر بادشاہ صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا ۔ بعض وقت ملک میں اچانک دھرنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ شورش کا خطرہ ہوتا ہے ۔ میرا مطلب کچھ لوگ بغاوت پر آمادہ ہوتے ہیں یعنی حکومت توڑنے پر تل جاتے ہیں ۔ ادھر باشاہ کو انٹیلی جنس رپوٹیں ملی ہوتی ہیں جن کی روشنی میں فوری قدم اٹھانا پڑتا ہے ۔ پولیس اور رینجر اور فوج بلانی پڑتی ہے ۔ ایسے وقت میں اچھی سوچ دھری رہ جاتی ہے اور ضرورت ایاز کی طرح فوری عمل کرنے کی ہوتی ۔ آملیٹ بنانے کے لئے انڈے توڑنے پڑتے ہیں ۔ بچوں نے بور بور کے نعرے لگائے ۔
یہ بھی کوئی کہانی ہے ؟ دادا ابا کوئی اچھی سی کہانی سنائے ۔۔۔۔۔

***
maqsood.e.sheikh[@]googlemail.com
بریڈ فورڈ ، یو۔کے
مقصود الٰہی شیخ

Father follows son's advice. Pop Story: Maqsood Sheikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں