"مودی حکومت کے متعلق سب سے بڑی تشویش و فکر اقلیتوں اور مذہبی تنوع کے بارے میں اس کا شدید تنفر ہے ۔ بعض حلقوں میں یہ استدلال پیش کیاجاتا ہے کہ یہ اندیشے اس اعتبار سے درست ثابت ہوتے ہیں چونکہ انتہا پسند عناصر‘عوام کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کے لئے پہلے فرقہ وارانہ صف بندی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں ۔ تشویش تو یہ ہے کہ نریندر مودی نے ان عناصر پر قابو پانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے"۔
One of the biggest anxieties about the Modi government was its antipathy towards minorities and religious diversity. There are some who would argue that this apprehension has come true as extremist elements continue to use communal polarisation as an instrument of political mobilisation — a tendency that Mr. Modi has done little to vanquish.
Politics without the minorities -Zoya Hasan (The Hindu, Sept. 5th 2014)
Politics without the minorities -Zoya Hasan (The Hindu, Sept. 5th 2014)
نریندر مودی حکومت جس طرح فاشسٹ حکومت کہنا اگر درست نہیں ہے تو اسے سیکولر جمہوری حکومت قرار دینا بھی ٹھیک نہیں ۔ چونکہ تشکیل حکومت کے ڈھانچہ میں جو طاقتیں شامل ہیں ان میں نمایاں رول سرمایہ داروں کا ہے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس عام آدمی کے بجائے سرمایہ دار طبقات کے مفادات کی خاطر حکومت کرے گی اب تک جو اشارے ملتے رہے ہیں ان سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے ۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا مودی حکومت دستوری حدود کی خلاف ورزی کرتی ہے یا بورژوائی حکومت کے اصولوں کی پاسداری کرتی ہے۔ موخر الذکر حکومت کے طریقہ کار اپنایا جاتا ہے تو پھر ہندوستان ہر دن پولیس بربریت ، عدالتی مجرمانہ حرکات ، نیز عاملہ اور قانون ساز اداروں کی بدعنوانیوں کی کہانیاں سنی جائیں گی ۔
بی جے پی کی وحشیانی اکثریت سے منتخب حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد پارلیمنٹ کے ایوان میں ارکان کی باڈی لینگویج اور ان کی حرکات و سکنات اور مباحث کے دوران ایوان کے آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بی جے پی کے چھوڑے ہوئے ارکان نے ہنگامہ آرائی غیر شائستہ ریمارک، نعرے بازی اور اپوزیشن ارکان پر تل پڑنے کے خطرناک مناظر سے پیدا شدہ خوف کے ماحول نے ایوان میں اپوزیشن کی آواز بہت حد تک دب گئی ہے ۔
اس صورتحال کے باوجود مجلس اتحاد المسلمین کے قائد بیر سٹر اسد الدین اویسی نے ایوان میں صبروتحمل کے ساتھ حق گوئی اور بے باکی کے اظہار میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے ۔ این ڈی اے حکومت کے جاریہ دور میں پہلے دن سے اصحاب اقتدار تک اپنی بات پہنچانے سے کبھی گریز نہیں کیا۔
بیرسٹر اویسی نے زیر نظر انٹرویو کے دوران اپنے تجربات اور مشاہدہ کی بنیاد پر انٹرویو نگار کے سوالوں کا جواب دیا ہے۔
سوال: این ڈی اے حکومت کے بھاری اکثریت سے اقتدار پر آنے کے بعد ’آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ہندستان، ہندوراشٹر ہے اور بی جے پی کے دوسرے قائدین یہ کہتے ہیں کہ ہندستان میں رہنے والا ہر شہری ہندو ہے ۔
اسدالدین اویسی: یہ بات تو اب ڈھکی چھپی نہیں رہی، سنگھ پریوار یہ کوشش کررہا ہے کہ2030ء تک یہ ملک ہندو راشٹرابن جائے۔ ویسے تو2025ء میں آر ایس ایس کی صدی تقاریب ہونے والی ہیں ۔ سنگھ پریوار تو یہ چاہتا ہے کہ ان تقاریب کے موقع پر ہی ہندستان کو سیکولر اسٹیٹ کی جگہ ہندو راشٹربنانے کا اعلان کردیا جائے ۔ اگریہ ممکن نہ ہوسکے تو کم سے کم ملک کے بڑے دستوری اداروں میں ایسے افراد کو بٹھادیاجائے جو ہندو نظریہ کو فروغ دے سکتے ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ کس طرح نصابی کتابوں میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ ٹیچرس ڈے کا نام تبدیل کردیا گیا ۔ اس کی جگہ گرواتسو قرار دے دیا گیا ۔ اس تبدیلی کے لئے کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آخر مرکزی حکومت اس ملک کے شہریوں کو کیا پیام دینا چاہتی ہے ؟
سوال: گجرات میں احسان جعفری سابق کانگریس رکن پارلیمنٹ کی ہلاکت کے کیس عشرت جہاں کے انکاؤنٹر میں ہلاکت اور سہراب الدین اور اس کی بیوی کی ہلاکت کے کیس کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں؟
ج : ان تمام کیسس کے اثباتی نتائج کی ہم کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ جب کہ ان کیسیس میں ماخوذ اینٹی ٹیرر اسکواڈ کے تمام عہدیداروں کو بحال کردیا گیا ہے ۔ سوچنا یہی ہے کہ ان واقعات کے حقیقی ذمہ دار افراد بحیثیت مجموعی اقلیتوں بالخصوص سہراب الدین کے بھائی ، عشرت جہاں کی ماں کو کیا جواب دیں گے ۔ احسان جعفری کیس میں ماخوذ عہدیدار وک اگرچہ عدالت نے ضمانت منظور کی تھی لیکن گجرات حکومت نے انہیں ملازمت پر بحال کردیا۔
سوال: گھورکپور( یوپی) کے بی جے پی رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ نے دعویٰ کیا ہے کہ جہاں کہیں10فیصد مسلمان ہیں وہان فساد ہوتا ہے ، یہ کیا منطق ہے؟
اسدالدین اویسی: یہ تو وزیر اعظم یابی جے پی کو بتانا ہوگا کہ کیا وہ آدتیہ کے بیان سے متفق ہیں ؟ اگر متفق نہیں ہیں تو پھر انہیں یہ واضح کرنا پڑے گا کہ اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی 14فیصد ہے جو10فیصد سے زیادہ ہے ۔کیا وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں ہر چیز اگر ملک پیچھے ہے کیا اس کی وجہ مسلمان ہیں۔ اگر ملک میں عدم توازن پایاجاتا ہے تو اس کے لئے بھی کیا مسلمان ذمہ دار ہیں ؟ آدتیہ ناتھ کی ان غیر ذمہ دارانہ باتوں پر وزیر اعظم کی خاموشی حیرت انگیز ہی نہیں بلکہ معنی خیز بھی ہے ۔
سوال: نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت 100دن کی کارکردگی سے متعلق آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
اسدالدین اویسی: کسی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور فیصلہ کرنا میں سمجھتا ہوں کہ100دن کی کارکردگی ناکافی ہے ۔ لیکن پھر بھی ہندوستان کے سیکولر اقدار کے تعلق سے بعض باتیں سامنے آتی ہیں ۔ وہ یہ کہ وزیر اعظم نے15اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے تمام ہندوستانیوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ10سال کے لئے فرقہ وارانہ فسادات کو عارضی طور پر ملتوی رکھیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ فسادات کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیاجائے ۔ دوسری بات یہ ہیکہ وزیر اعظم تو لال قلعہ کی فصیل سے فسادات کے التوا کی اپیل کرتے ہیں لیکن ان کی پارٹی کا رکن پارلیمنٹ آدتیہ ناتھ لوک سبھا کے ایوان میں یہ کہتا ہے کہ ’’ہندوسماج کی حفاظت کے لئے ہم کچھ بھی کریں گے ؟‘‘میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم نے آدتیہ ناتھ کے اس بیان پر خاموشی کیوں اختیار کرلی ۔ بی جے پی کے قائدین جن میں آدتیہ ناتھ بھی شامل ہیں مسلسل’ لو جہاد‘ کی باتیں کررہے ہیں۔ وزیر اعظم جب فسادات کا التوا چاہتے ہیں تو اس طرح کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے انہوں نے کیا اقدامات کئے ہیں ابھی تک سامنے نہیں آسکے۔
سوال: جواہر لال نہرو کو جدید ہندوستان کا معمار کہاجاتا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت سے قائدین کا نام تو لیا ہے لیکن جواہر لال نہرو کو فراموش کردیا؟
اسدالدین اویسی: نہرو کا نام لینے سے وزیر اعظم کے گریز کا بہت سوں نے نوٹ لیا ہے ۔ کسی کے بھی اچھے کام کی ستائش کرنا بڑے پن کی علامت ہے ۔ کانگریس قائد کی حیثیت سے میں بھی پنڈت جواہر لال نہرو کو اہمیت نہیں دیتا لیکن وزیر اعظم کی حیثیت سے نہرو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے انہوں نے متواتر انتخابات کو یقینی بنایا اور پارلیمانی جمہوریت کومضبوط کیا ہے۔ الیکشن کمیشن ہو یا منصوبہ بندی کمیشن کا قیام جمہوری عمل کو یقینی بنانے اور معیشت کے استحکام کے لئے ضروری تھا ۔ انہوں نے پولیس اور ملٹری کے درمیان بفرفورس کے طور پر سی آر پی فورس قائم کیا ۔ یہ بھی ایک بڑا کام تھا۔ مسلح فوج پر سیویلین اتھارٹی کی بالاتری کو بھی انہوں نے یقینی بنایا ۔ یہ سب کچھ فراموش کرنا اور نہرو کی کارکردگی نظر انداز کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔
سوال: تحفظات کے بارے میں مودی حکومت کی پالیسی پر آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟
اسدالدین اویسی: یوپی اے حکومت نے جاٹوں کے لئے تحفظات مہیا کئے تھے ۔ یہ مسئلہ سپریم کورٹ پہنچا تھا ۔ حکومت کو جواب داخل کرنا تھا ۔ این ڈی اے حکومت نے جواب پیش کیا جس میں اس نے کہا ہے کہ ہم جاٹوں کے لئے تحفظات کے حامی ہیں لیکن اس کے برخلاف سابق یوپی اے حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے لئے جو ساڑھے چار فیصد تحفظات دئیے گئے تھے اس تعلق سے این ڈی اے حکومت نے متضاد رائے دی ہے اور کہا ہے کہ ہم مسلمانوں کو تحفظات نہیں دے سکتے جب کہ یہ ریزرویشن پس ماندہ طبقات کے کوٹہ کے تحت اقلیتوں کے لئے تھے ۔ این ڈی اے حکومت کا یہ ایک ایسا موقف ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس تعلق سے عوام ہی فیصلہ کرے گی۔
سوال: حکومت کے اقتدار کے100دن میں معاشی فروغ کے بارے میں آپ کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں؟
ج : این ڈی اے حکومت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے معاشی فروغ کی شرح کو5.2فیصد تک پہنچایا ہے ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب یوپی اے اقتدار میں تھی شرح پیداوار5.2فیصد تھی لیکن این ڈی اے اپنے طور پر کچھ کئے بغیر یوپی اے کا سہرا اپنے سرباندھ رہی ہے۔ ابھی یہ دیکھنا ہے کہ نئی حکومت کیا پالیسی اختیار کرنے والی ہے ۔ سود کی شرحیں جب تک بڑھتی رہیں گی مینو فیکچرشعبہ میں میرے خیال میں کوئی پیش رفت ممکن نہیں رہے گی ۔ وزیر اعظم نے یوم آزادی کی اپنی تقریر میں میڈان انڈیا پراڈکٹ تیار کرنے کی بات کہی تھی لیکن موجودہ صورت میں یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔
سوال: نریندر مودی حکومت میں آنے والے دنوں میں ملک کی صورتحال کے بارے میں آپ کیا خیال رکھتے ہیں؟
اسدالدین اویسی: ملک میں آر ایس ایس کی محاذی تنظمیں وشوہندو پریشد،بجرنگ دل اور اسی نوعیت کی انتہا پسند تنظمیں اپنے اپنے ایجنڈہ کو روبہ عمل لانے کے لئے متحرک کردی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی سرگرمیاں ملک کی پر امن فضا کو مکدر کردیں گی ۔ یہ پروپیگنڈہ بہت جلد شروع کیاجاسکتا ہے کہ گائے ذبح کی جارہی ہے ۔ ہندوستان کی بڑی ریاستوں میں گاؤ کشی کا خلاف قانون ہے لیکن بیل اور بھینس کاٹنے کا خلاف قانون نہیں ہے۔ اس طرح سنگھ پریوار کی تنظیمیں ڈیویژن آف لیبر کے ذریعہ زہر پھیلارہی ہیں تاکہ ملک میں ہمیشہ ایک طرح کا ماحول گرم رہے ۔
سوال: ملک میں معاشی استحکام پیدا ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں سیکولر ازم پر ایقان رکھنے والے ہند و بی جے پی کی حمایت پر کیا آمادہ ہوسکتے ہیں؟
اسدالدین اویسی: معاشی استحکام سے ملک کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے اور کیا نقصان پہنچ سکتا ہے اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن میری نظر میں اگر ملک میں سیکولرازم ختم ہوجائے گا تو یقیناًناقبال تلافی نقصان ہوگا ۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں معاشی استحکام پیدا کررہا ہوں اور میں ڈکٹیٹر بن جاؤں گا ۔ کیا عوام اس بات کو پسند کریں گے کہ جن لوگوں نے ملک کی آزادی کے لئے اپنی زندگیوں کو قربان کیا ہے اب عوام اپنی آزادی کو قربان کریں۔ دستور اور آئین سے جس میں آزادی کا تیقن دیا گیا ہے دستبردار ہوجائیں گے یقیناًمعاشی استحکام کی بنیادپر سیکولرازم سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا۔
سوال: سماجی کشیدگی فسادات کا سلسلہ اگر جاری رہتا ہے تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں ترقی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا؟
اسدالدین اویسی: یہ کون کہتا ہے کہ سماجی کشیدگی اور فسادات سے معاشی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پچھلے سال ہندوستان کی حکومت نے10لاکھ کروڑ رپے محاصل حاصل کئے تھے۔ اب نریندر مودی حکومت نے محاصل ٹارگٹ12لاکھ کروڑ روپے رکھا ہے یعنی دو لاکھ کروڑ روپے زائد۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس قائدین کے بیانات کے عوام پر اثرات کے ساتھ مختلف ریاستوں میں فسادات کا جو سلسلہ چل رہا ہے ایسے ماحول میں نئی حکومت ، محاصل کے اپنے ٹارگٹ کو نہیں چھو سکے گی ۔ حکومت ریلوے مسافرین کے لئے سفر کے دوران جو غذائی اشیاء مہیا کرتی ہے اس کی ذمہ داری وہ بیرونی کمپنیوں کے حوالے کرنا چاہتی ہے لیکن یہ غورطلب واقعہ ہے کہ شیو سینا کے ارکان پارلیمنٹ نے جو بی جے پی کے حلیف ہیں ریلوے کینٹین میں ایک روزہ دار مسلمان عہدہ دار کے ساتھ جو سلوک کیا ہے کیا بیرونی سرمایہ کاری پر اس کا اثر نہیں پڑے گا ۔ شیو سینا کے ان ارکان نے اس مسلم عہدیدار کے منہ میں زبردستی روٹی ٹھونس دی ۔ کیا یہ اچھی بات تھی۔ کیا اس سے بیرونی سرمایہ کاری کے لئے سازگار فضا پیدا ہوگی۔ کونسی ملٹی نیشنل کمپنی سرمایہ کاری کرے گی اس پر غور کرنا پڑے گا۔
سوال: ججس کے تقررات کے لئے حکومت نے کمیشن قائم کیا ہے۔ کیا یہ مناسب اقدام ہے؟؟
اسدالدین اویسی: نہیں بلکہ یہ عدلیہ کی آزادی پر ایک ضرب ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی پارلیمانی جمہوریت کو باقی رکھنے اور اس کی بقاء کے لئے غوروفکر کے بعد ہی عدلیہ، عاملہ اور لیجسلیچر کے جداگانہ اختیارات کا تعین کیا گیا تھا ۔ عدلیہ، عاملہ اور قانون ساز مجالس اپنے طورپر آزاد ادارے رہیں گے اور وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں پر توجہ مبذول کریں گے اور ایک دوسرے کے کام میں مداخلت سے گریز کریں گے تو ان اداروں کے درمیان خوشگوار ماحول پیدا ہوگا لیکن اب یہ صورت حال باقی نہیں رہی ۔ اب عدالتی تقررات کمیشن کے بعد اس کمیشن میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دو سینئر ججس رہیں گے۔ چوتھا رکن وزیر قانون اور دوسری دو ممتاز شخصتیں شامل رہیں گی ۔ اب بتائیے کہ عدلیہ کی آزادی کو کس طرح سے برقرار رکھاجاسکتا ہے ۔ حکومت کو مداخلت کرنے کی گنجائش کب باقی نہیں رہے گی؟ مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ حکومت کے اس فیصلہ کو مسترد کردے گا۔
سوال: نریندر مودی حکومت کی خارجہ پ الیسی کے بارے میں آپ کیارائے رکھتے ہیں؟
اسدالدین اویسی: پاکستان سے تعلقات کے بارے میں، میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ پہلے تو آپ نے اپنی تقریب حلف برداری میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو مدعو کیوں کیا تھا ۔ لوگ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی وزیر اعظم کی حیثیت سے ایک ایسی شخصیت نے کی تھی جن کے بارے میں ایسی کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی ۔ لیکن چند دن بعد مودی ۔نواز شریف کے درمیان طے شدہ معاہدہ کے تحت دونوں ممالک کے خارجہ سکریٹریز کے درمیان اسلام آباد میں باہمی بات چیت ہونے والی تھی حکومت نے اسے اچانک ملتوی کردیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ہائی کمشنر پاکستان برائے دہلی عبدالباسط نے ایک ایسے وقت کشمیر کے علیحدگی پسند قائدین کو ملاقات کا موقعہ دیا اس کے بعد نہ صرف خارجہ سکریٹریز کے درمیان بات چیت ملتوی کی گئی بلکہ یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران نریندر مودی اور نواز شریف کے درمیان بھی بات چیت نہیں ہوگی ۔ میں حکومت سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر نوا ز شریف کو مدعو کیوں کیا گیا اس کا مقصد کیا تھا؟ اور یہ کہ جب اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان کے ساتھ بات چیت کا دور شروع ہوا تھا کیا علیحدگی پسند قائدین نے پاکستانی حکام سے بات چیت نہیں کی تھی ۔ جب اڈوانی خود حریت قائدین سے ملاقات کی تھی تو کیا انہوں نے اپنے چہرہ پر نقاب لگا کر حریت قائدین سے بات چیت کی تھی ۔ ہم یقیناًیہ چاہتے ہیں کہ ساؤتھ ایشیا کے ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات بہتر رہیں۔ وزیر اعظم نے یہ اچھا کیا۔ انہوں نے آسٹریلیا اور جاپان کا دورہ کیا۔ اس کے نتیجہ مین ان ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات پر اچھا اثر پڑے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ اعتماد، حیدرآباد)
RSS - Planning India to make a Hindu Rashtra by 2025. Article: Nasim Arifi
Narender Modi visited only Japan not Ausralia please check the claim
جواب دیںحذف کریں