ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی اور مودی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-23

ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی اور مودی

indian-muslims
گزشتہ جمعہ کو امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این نے وزیر اعظم نریندر مودی کے خصوصی انٹر ویو کے کچھ حصے کو نشر کرنا شروع کیا،تو وہ حصہ پوری دنیا کی تو جہہ کا مرکز بن گیا جس میں مودی ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کو کسی بھی شک و شبہہ سے بالا تر قرار دے رہے تھے۔سی این این کے ہند نژاد امریکی صحافی فرید زکریا نے جب وزیر اعظم سے یہ پوچھا کہ کیا دہشت گرد تنظیم القاعدہ ہندوستان میں اپنی بنیاد قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی تو اس کے جواب میں مودی نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان وطن کے لیے جئیں گے اور وطن ہی کے لیے مریں گے وہ ہندوستان کا کچھ خراب نہیں چاہیں گے اور القاعدہ کا کوئی اثر مسلمانوں پر نہیں ہوگا۔وزیر اعظم نے کہا کہ القاعدہ والے فریب کا شکار ہیں اگر وہ سوچتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان ان کے اشاروں پر رقص کر سکتے ہیں۔وزیر اعظم سے یہ سوال القاعدہ لیڈر ایمن الظواہری کے اس حالیہ اعلان کے سیاق و سباق میں کیاگیا تھا جس میں مبینہ طورپر کہاگیا تھا کہ القاعدہ ہندوستان میں اپنی شاخ قائم کرنے جارہاہے۔وزیر اعظم سے مزید سوال یہ کیاگیا کہ ہندوستان میں۱۷۰؍ملین(۱۷؍کروڑ)مسلمانوں میں سے کوئی بھی نہیں یا بہت کم لوگ القاعدہ کے ارکان معلوم ہوتے ہیں حالاں کہ یہ افغانستان اور پاکستان میں وجود رکھتی ہے،کیا چیز ہے جس نے اس کمیونٹی کو مرعوب نہیں کیاہے۔مودی نے جواب دیا کہ اول تو اس بارے میں کوئی نفسیاتی اور مذہبی تجزیہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آیا انسانیت کا دنیا میں دفاع کیا جانا چاہیے یا نہیں،آیا انسانیت کے ماننے والوں کو متحد ہونا چاہیے یا نہیں،یہ انسانیت کے خلاف بحران ہے،کسی ایک ملک یا کسی ایک نسل کے خلاف بحران نہیں ہے۔لہذا ہمیں اس کو انسانیت اور غیر انسانیت کے درمیان لڑائی کے طورپر دیکھنا چاہیے کچھ اور نہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کے حوالے سے وزیر اعظم مودی کا یہ بیان کئی زاویوں سے موضوع بحث بناہوا ہے۔کیا یہ بیان ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے؟کیا انھوں نے یہ بیان امریکہ کے اس ماہ کے مجوزہ سفر کو ذہن میں رکھ کر دیا جس نے گجرات فسادات کے بعد سے ہی نریندر مودی پر فسادات میں ان کے مبینہ رول کی وجہ سے امریکی ویزا دینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور جو شاید آج بھی بر قرار ہے۔مودی جس ویزے پر امریکہ کا سفر کرنے والے ہیں وہ ان کی وزیر اعظم کی حیثیت کی وجہ سے دیاگیا ہے۔اس زاویہ سے بھی اظہار خیال کیا جارہاہے کہ صرف چار ماہ کے اندر اندر ان کی پارٹی کو ضمنی انتخابات میں جس شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے لیے تجزیہ نگار وزیر اعظم مودی کی بی جے پی کے بعض لیڈروں اور آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے کچھ کارکنان کے ذریعے بڑے پیمانے پر چھیڑی گئی مسلم مخالف مہم اور اس مہم پر وزیر اعظم کی خاموشی کو ذمے دار قرار دیتے ہیں۔توکیا وزیر اعظم بعض ریاستوں کے ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اپنی پارٹی کی ممکنہ شکست کے خوف سے یہ بیان دے رہے ہیں جس میں انھوں نے اپنی پارٹی کے شدت پسند لیڈروں کو مصلحتاً خاموش رہنے کا پیغام دیاہے۔غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔بی جے پی تو اپنے وزیر اعظم کے اس بیان پر پھولے نہیں سمارہی ہے،کچھ مسلمان لیڈربھی اسے مودی کے ماہیتِ قلب کی تبدیلی مان کر ان کے بیان کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔منفی رد عمل بھی خوب ہورہے ہیں۔لیکن منفی اور مثبت دونوں قسم کے رد عمل میں ایک چیز جو مشترک ہے،وہ ہے مودی کے بیان پر حیرت و استعجاب کا اظہار۔
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی ہمیشہ کسی بھی شک و شبہہ سے بالاتر رہی ہے۔تحریک آزادی سے لیکر کارگل کی جنگ تک وطن عزیز کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں کی قربانیاں تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور ایسا کرکے انھوں نے کوئی احسان بھی نہیں کیا ہے بلکہ جوکچھ کیا وہ ان کا فرض تھا،وطن پرستی اور حب الوطنی کا تقاضا تھا دینی اعتبار سے بھی،دنیوی اعتبار سے بھی اور اخلاقی اعتبار سے بھی۔حب الوطنی ہمارے دین اسلام کا ایک لازمی جز ہے اور ہندوستانی مسلمانوں نے تاریخ کے ہر موڑ پر اپنے خون سے سرزمین وطن کی آبیاری کرکے اس کا پاس و لحاظ رکھاہے۔اس تناظرمیں دیکھاجائے تو ہندوستانی مسلمانوں کو کسی کی بھی جانب سے حب الوطنی کے سر ٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے خوا وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہوں۔بلکہ یہ ان کی ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہمنوا اور سرپرست تنظیمیں ہیں جو ماضی میں بارہا مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک بنانے کی کوششیں کرتی رہی ہیں،انھیں پاکستان نواز قراردیتی رہی ہیں،انھیں پاکستان چلے جانے کا مشورہ تک دیتی رہی ہیں لیکن حب الوطنی کے حوالے سے مسلمانوں کو قدم کو ڈگمگانہیں سکی ہیں اور ان کی تمام تر مذموم سازشیں ناکام رہی ہیں۔
مودی کی زبان سے مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف حیرت انگیز ان کی کٹر مسلم مخالف امیج کی وجہ سے ہے۔اگر چہ وہ اب ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں لیکن امیج اچھی یا بری کارناموں کی وجہ سے بنتی ہے اور پھر وہ امیج عمر بھر ساتھ رہتی ہے۔وزیر اعظم مودی کی کیا امیج ہے،یہ جاننے کے لیے گزشتہ ۲۵؍سال سے ان کی پارٹی کی حلیف شیوسینا کے سربراہ ادھوٹھاکرے کا بالکل تازہ بیان دیکھتے ہیں۔شیوسینا جو خود ایک مسلم مخالف جماعت ہے اور اس کے بانی سربراہ بال ٹھاکرے کی اعلانیہ مسلم دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اِن دنوں جب شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے لیے سیٹوں کی تقسیم کو لیکر اختلافات ہر روز منظرِ عام پر آرہے ہیں،شیوسینا کے موجودہ سربراہ ادھوٹھاکرے نے گزشتہ اتوار کو وزیر اعظم مودی کویاد دلایا کہ ۲۰۰۲ء میں گجرات کے فسادات کے بعد ہر کوئی یہ کہہ رہاتھا کہ مودی کو گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے فوری طورپر ہٹادینا چاہیے۔مگران کے والد بال ٹھاکرے نے اس وقت کے نائب وزیر اعظم اور سخت گیر پارٹی لیڈرلال کرشن اڈوانی پر زور ڈالا کہ مودی کونہ ہٹایاجائے کیوں کہ وہ ہندوتوکے علم بردار ہیں۔اس وقت بال ٹھاکرے نے اڈوانی سے کہاتھا کہ مودی گیا تو گجرات گیا چنانچہ مودی کو نہ ہٹایا جائے کیوں کہ وہ ہندوتو کی آئیڈیالوجی پر عمل کرتے ہیں۔ہندوتوا کی آئیڈیا لوجی کا بنیادی نکتہ ہندوستان میں ہندو راشٹر کا قیام اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا،ان کی نسلی تطہیر کرنا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی نے گجرات فسادات کے دوران اور جب تک گجرات کے ومیر اعلیٰ رہے،مختلف طریقے سے ہندوتوا نظریہ کی پیروی کرتے رہے۔لہذا ایسا شخص اگر اچانک مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف کرنے لگے تو اس سے تو لوگوں کو حیرت بھی ہوگی اور اس کے پس پردہ مقصدکوجاننے کا تجسس بھی۔
سیاست میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا اور اقتدار کے لیے اصول و نظریات سے سمجھوتہ کرنا،آئیڈیا لوجی سے عارضی طورپر کنارہ کشی اختیار کرلینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔بی جے پی پارلیمانی انتخابات میں کیسے جیتی،یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ہندوووٹوں کو متحد کیاگیا،فرقہ وارانہ جذبات ابھارے گئے،مسلم مخالف فسادات کرائے گئے اور انجام کار مرکز میں اقتدار حاصل ہوگیا۔اقتدار حاصل کرنے کے بعد کچھ لیڈروں کو منتخب کرکے ان کو یہ ذمہ داری سپردکردی گئی کہ ہندووں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوتے رہو تو کامیابی یقینی ہے۔چنانچہ کچھ لیڈران زور و شور سے اس کام میں لگ گئے اور لوجہاد سے لے کر لوترشول اور نہ جانے کتنی قسم کی شرانگیزمہم چلائی جاتی رہی لیکن اس بار رائے دہندگان نے جن کا عمومی مزاج سیکولر ہے،نفرت کی اس سیاست کو مسترد کردیا جس کا انجام یہ ہوا کہ محض چار ماہ میں ہی مودی کی لہر بھی غائب ہوگئی اور پارٹی کی مقبولیت بھی ہوا ہوگئی۔اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔اس مسلم مخالف مہم کی ناکامی کے بعد اب ضرورت اس تماشے کو عارضی طورپر بند کرنے کی تھی۔لہذا مودی نے خود آگے بڑھ کر مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف کرکے بیک وقت اندرونِ ملک و بیرون ملک دونوں جگہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ وزارت عظمیٰ کی مسند پر رہتے ہوئے راج دھرم کا پالن کریں گے۔یہ شاید وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کی سیاسی مجبوری ہے،اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
وہ لوگ خاص طورسے وہ مسلمان لیڈر جو وزیر اعظم کے بیان کو اپنے لیے ایک اعزاز گردان رہے ہیں،وہ خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یا وزیر اعظم کے مرکزنگاہ میں آنے کے لیے یہ تاثر دے رہے ہیں تویہ الگ بات ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے دامن پر ملک سے غداری کا نہ کوئی داغ ہے اور نہ انشاء اللہ کبھی ہوگا۔مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف کرکے وزیر اعظم نے کوئی احسان نہیں کیا ہے۔مسلمانوں کو ان کے سرٹیفکیٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یوں بھی قول خواہ کتنا ہی دل پذیر ہو،جب تک عمل کے سانچے میں نہیں ڈھلتا،اس کی کوئی قیمت ہوتی ہے اور نہ قدر۔

اسرار الحق قاسمی

Patriotism of Indian Muslims and Modi. Column: Asrar-ul-Haq Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں